کسی بھی عقیدے، مسئلے اور رویے میں دو انتہائیں ہوتی ہیں: ایک کو اِفراط اور دوسرے کو تفریط کہتے ہیں، اِفراط کے معنی ہیں: ’’حد سے تجاوز کرنا، کسی کے مقام کو بیان کرنے میں مبالغہ کرنا‘‘، اس کو قرآنِ کریم نے ’’غُلُوّ‘‘ سے تعبیر کیا ہے اور عربی میں اسے ’’تَطرُّف‘‘ (Excessiveness) بھی کہتے ہیں، تفریط کے معنی ہیں: ’’کسی کے مقام میں کمی کرنا اور اُسے اس کے مرتبے سے گرادینا‘‘۔ سیدنا عبداللہ بن عباس نے سیدنا عمر فاروق کو منبر پر یہ کہتے ہوئے سنا: نبیؐ نے فرمایا: ’’میری شان میں غلو نہ کرو جس طرح نصاریٰ نے سیدنا عیسیٰ بن مریم کی شان میں غلو کیا ہے، پس میں اللہ کا بندہ ہوں (خدا نہیں ہوں) ،سو تم یہ کہو: اللہ کے بندے اور اس کے رسول‘‘۔ (بخاری) غلو کے معنی ہیں: شان بیان کرنے میں حد سے تجاوز کرنا، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’اے اہل ِ کتاب! اپنے دین میں حد سے تجاوز نہ کرو اور اللہ کے بارے میں حق کے سوا اور کچھ نہ کہو، مسیح عیسیٰ ابن مریم تو صرف اللہ کا رسول اور اُس کا ایک کلمہ ہیں، جس کو اس نے مریم کی طرف اِلقا فرمایا اور اُس کی جانب سے ایک روح ہیں، پس تم اللہ اور اُس کے رسولوں پر ایمان لائو اور یہ نہ کہو: ’’(معبود) تین ہیں، اس سے باز آجائو، یہی تمہارے حق میں بہتر ہے، صرف اللہ ہی واحد مستحقِ عبادت ہے، وہ اس سے پاک ہے کہ اس کی کوئی اولاد ہو، آسمانوں اور زمینوں میں جو کچھ ہے، وہ اُسی کی مِلک ہے اوراللہ ہی کارساز کافی ہے‘‘۔ (النسآء: 171)
اہل ِ کتاب نے دین کے بارے میں اِفراط وتفریط اختیار کی، یہود نے سیدنا عیسیٰؑ کے بارے میں تفریط اور تنقیص سے کام لیا، آپ کی نبوت کا انکار کیا اورآپ کی عفت مآب والدۂ ماجدہ مریمؑ پر بدکرداری کی تہمت لگائی۔ نصاریٰ نے سیدنا عیسیٰؑ کے مقام کے بارے میں حد سے تجاوز کیا اور انہیں مقامِ بندگی سے اٹھاکر مقامِ الوہیت تک پہنچادیا حتیٰ کہ ’’ابن اللہ‘‘ کہا۔ اللہ تعالیٰ کی ذات اَحَد ہے، وحدہٗ لا شریک ہے، اسے مرکّب مان کر کئی ذوات (اقانیم ) کا مجموعہ قرار نہیں دے سکتے، جیسا کہ نصاریٰ نے ذاتِ باری تعالیٰ کے تین اجزاء کیے، یعنی مقدس باپ، مقدس بیٹا اور روح القدس اور سیدنا عیسیٰؑ کو مقدّس بیٹا قرار دے دیا، ایسی ہی روش بعض لوگوں نے سیدنا علیؓ کے بارے میں اختیار کی:
’’سیدنا علیؓ بیان کرتے ہیں: مجھ سے نبیؐ نے فرمایا: تمہاری مثال عیسیٰ ؑ کی سی ہے، یہود نے ان سے بغض رکھا حتیٰ کہ ان کی ماں پر تہمت لگائی، نصاریٰ نے اُن سے محبت میں غُلُوّ کیا حتیٰ کہ انہیں اُس مقامِ (اُلُوہیت) پر فائز کردیا جو اُن کا نہیں تھا، (آپؐ نے مجھ سے فرمایا:) میرے بارے میں دو قسم کے لوگ ہلاکت سے دوچار ہوں گے، (ایک) محبت میں حد سے تجاوز کرنے والا، جو مجھے وہ مقام دے جو میرا نہیں ہے، (دوسرا) وہ جو مجھ سے بغض رکھے گا حتیٰ کہ مجھ سے عداوت اُسے بہتان طرازی پر برانگیختہ کرے گی‘‘۔ (مسند احمد)
مسلمانوں میں خوارج کا ایک غالی اور انتہا پسند فرقہ پیدا ہوا، انہوں نے بظاہر ’’تَصَلُّب فِی الدِّینْ‘‘ کا شعار اختیار کیا، لیکن اس کی آڑ میں مسلمانوں کی تکفیر شروع کردی حتیٰ کہ سیدنا علی کو بھی معاف نہ کیا، حدیث پاک میں ہے: ’’اس امت میں ایک قوم نکلے گی، وہ ایسے لوگ ہوں گے کہ تم اپنی نمازوں کو ان کی نمازوں کے مقابلے میں حقیر جانو گے، وہ قرآن پڑھیں گے اور قرآن اُن کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، وہ (اس تیزی سے) دین سے نکلیں گے جیسے تیر شکار کو چیر کر نکل جاتا ہے، پس تیر مارنے والا اپنے تیر کو ہر طرف سے دیکھتا ہے تو اُسے اس پر خون کا کوئی دھبا نظر نہیں آتا‘‘۔ (بخاری) رسول اللہؐ نے تیر کے مختلف حصوں کا ذکر کر کے فرمایا: از اول تا آخر اس کے کسی بھی حصے پر خون کا دھبا نظر نہ آنا اس کی کاٹ اور تیز رفتاری کی دلیل ہے، یعنی وہ تیزی سے دین سے نکل جائیں گے، سیدنا عبداللہ بن عمر کا قول ہے: ’’خوارج اللہ کی بدترین مخلوق ہیں، وہ انتہا پسندی میں اس حد تک آگے نکل گئے کہ قرآنِ کریم کی وہ آیتیں جو کفار کے بارے میں نازل ہوئیں، انہیں مسلمانوں پر چسپاں کرنے لگے‘‘۔(بخاری تعلیقاً)۔
انفرادی نماز میں شریعت نے طویل قرأت، قیام اور رکوع وسجود کو قابل ِ تحسین قرار دیا ہے اور سورۂ مُزَّمِّل میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولِ مکرّم اور بعض صحابہ کے تہائی رات یا نصف رات یا دو تہائی رات تک قیام کو مقامِ مدح میں ذکر فرمایا ہے، سو جب تک کہ طبیعت پر گراں نہ گزرے اور دل سکون وقرار محسوس کرے، انفرادی نماز کو طول دینا ہمیشہ اللہ والوں کا شعار رہا ہے، لیکن رسول اللہؐ نے باجماعت نماز میں لوگوں پر گراں گزرنے والی طوالت کو ناپسند فرمایا ہے، کیونکہ جماعت میں مختلف عمروں، اَحوال اور استعداد کے لوگ شامل ہوتے ہیں، پس اُن سب کی رعایت لازم ہے:
’’سیدنا عبداللہ بن مسعود بیان کرتے ہیں: ایک شخص نے عرض کیا: یارسول اللہ! میں فجر کی جماعت چھوڑ دیتا ہوں، کیونکہ امام ہمیں بہت لمبی نماز پڑھاتا ہے، پس رسول اللہؐ اتنے غضب ناک ہوئے کہ میں نے کسی اور موقع پر آپ کو اس کیفیت میں نہیں دیکھا، آپؐ نے فرمایا: لوگو! تم میں سے بعض لوگوں کو (دین سے) متنفر کرنے والے ہیں، پس جو شخص لوگوں کو نماز پڑھائے، وہ اختصار سے کام لے، کیونکہ اس کے پیچھے کمزور، بوڑھے اور کام کاج پر جانے والے لوگ بھی ہوتے ہیں‘‘، (بخاری) اس سے پہلی حدیث میں ان کلمات کا اضافہ ہے: ’’اور جب تم میں سے کوئی شخص تنہا اپنی نماز پڑھ رہا ہو تو جس قدر چاہے لمبی نماز پڑھے‘‘۔
’’سیدنا جابر بن عبداللہ انصاری بیان کرتے ہیں: ایک شخص پانی لانے والی اپنی دو اونٹنیوں کے ساتھ آیا، رات کی تاریکی پھیل چکی تھی، اس نے سیدنا مُعاذ کو نماز پڑھاتے ہوئے پایا تو اپنی اونٹنیاں چھوڑ کر نماز میں شامل ہوگیا، سیدنا مُعاذ نے سورۃالبقرہ یا سورۃ النساء کی تلاوت شروع کردی، پس وہ شخص چلا گیا، اُسے خبر ملی کہ سیدنا مُعاذ اس سے ناراض ہوئے ہیں، پھر وہ شخص نبیؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور سیدنا مُعاذ کی شکایت کی: نبیؐ نے تین بار فرمایا: مُعاذ! تم لوگوں کو آزمائش میں ڈالتے ہو، تم نے سورۃُ الاعلیٰ، الشمس اور اللیل کیوں نہ پڑھ لی، کیونکہ تمہارے پیچھے بڑی عمر والے، کمزور اور کام کاج پر جانے والے لوگ کھڑے ہوتے ہیں‘‘۔ (بخاری)
یہ امر ملحوظ رہے کہ عہدِ رسالت مآبؐ کا مختصر قیام، رکوع اور سجود بھی ہماری نسبت طویل ہوتے تھے، احادیثِ مبارکہ میں آپؐ کی مختلف اوقات کی نمازوں میں آپ کی قرأت کی کیفیات بیان کی گئی ہیں، لیکن آپؐ نے انفرادی نماز میں طوالت کو پسندیدہ قرار دینے کے ساتھ ساتھ تفریط پر وعید بھی فرمائی ہے: ’’سیدنا انس بن مالک بیان کرتے ہیں: رسول اللہؐ نے فرمایا: میں تمہیں منافق کی نماز کے بارے میں نہ بتادوں؟، وہ عصر کی نماز کو مؤخر کرتا چلا جاتا ہے، یہاں تک کہ سورج غروب ہونے کے قریب ہوتا ہے، پھر وہ اٹھتا ہے اور (جلدی جلدی) مرغے کی طرح ٹھونگیں مارتا ہے اور اللہ کا ذکر بہت کم کرتا ہے‘‘۔ (مسند احمد) الغرض باجماعت نماز کو متوازن ہونا چاہیے تاکہ سب لوگوں کے احوال کی رعایت ہو اور انفرادی نماز خشوع وخضوع کی کیفیات کے ساتھ جتنی طویل پڑھ سکتا ہو، پڑھے، یہ پسندیدہ بات ہے، مگر خشوع وخضوع اور ریاکاری دو متضاد چیزیں ہیں:
’’سیدہ عائشہ بیان کرتی ہیں: نبیؐ ان کے پاس تشریف لائے، اس وقت ان کے پاس ایک عورت بیٹھی ہوئی تھی، آپؐ نے پوچھا: یہ کون ہے، سیدہ عائشہ نے عرض کیا: یہ فلاں عورت ہے، اس کی (خشوع وخضوع پر مبنی) نماز کا بہت چرچا ہے، آپؐ نے فرمایا: رکو! تم اپنی طاقت کے مطابق پابندی سے عبادت کرتے رہا کرو، اللہ کی قسم! اللہ تم سے اپنے فضل کو نہیں روکتا حتیٰ کہ تم عبادت کرتے کرتے اکتا نہ جائو، اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ عبادت وہ ہے جس پر عبادت کرنے والاہمیشگی کرے‘‘۔ (بخاری) اس حدیث کا منشا یہ ہے: عبادت میں توازن ہو، ایک یا چند دن نمازیں لمبی پڑھنا اور پھر نماز کو ترک کردینے سے بہتر ہے کہ نماز کا نظام الاوقات متوازن ہو، لیکن اس میں ہمیشگی ہو۔
’’سیدنا ابوہریرہ بیان کرتے ہیں: نبیؐ نے فرمایا: بے شک دین آسان ہے اور جو شخص بھی دین پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کرے گا، دین اس پر غالب آجائے گا، پس تم درست کام کرتے رہو اور درستی کے قریب تر رہو اور (جنت کی) خوش خبری دو اور صبح و شام کے اوقات میں اور رات کے کچھ اندھیرے میں پابندی سے عبادت کیا کرو‘‘۔ (بخاری)
آپؐ خود بھی نماز میں لوگوں کی کافی حد تک رعایت فرماتے تھے، حدیث پاک میں ہے: ’’سیدنا انس بیان کرتے ہیں: نبیؐ نے فرمایا: (کبھی) میں نماز شروع کرتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ لمبی نماز پڑھوں، اس دوران میں بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوں، تو نماز کو مختصر کردیتا ہوں، کیونکہ میں جانتا ہوں کہ بچے کا رونا اس کی ماں کو پریشان کردے گا‘‘۔ (مسند احمد) جب باجماعت نماز میں امام کو تاکید ہے کہ لوگوں کے احوال کی رعایت کرے، تو پھر ’’دعا بعد الصلوٰۃ‘‘ میں بدرجۂ اَولیٰ لوگوں کی رعایت ہونی چاہیے، ہمارے ہاں بعض ائمۂ کرام اس سے غافل ہیں۔ نماز کے بعد دعا سنت ومستحب ہے، لیکن اگر فرض نمازکے بعد سنتیں ہوں تو فقہائے کرام نے مختصر دعا کرنے کے لیے کہا ہے، کیونکہ سنتیں فرض کے ساتھ لاحق ہوتی ہیں، اس کے تابع ہوتی ہیں اور اس کی تکمیل کا سبب ہیں، تو ان میں زیادہ فصل نہیں ہونا چاہیے، البتہ سنتوں اور نوافل وغیرہ کے بعد طویل دعا اور اذکار وتسبیحات پڑھنا مستحسن ہے۔