ماہرین امراض کینسر ایک پلیٹ فارم پر

1270

کراچی(اسٹاف رپورٹر) پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن نے کراچی کے مختلف اسپتالوں میں خدمات انجام دینے والے ماہرین امراض کینسر کو ایک پلیٹ فارم پر اکھٹا کیا ، ماہرین نے کہا کہ کینسر کے لیے مشترکہ کوششوں کے حوالے سے اہم پیش رفت متوقع ہے۔

طبی ماہرین مزید کہا ہے کہ ملک میں بڑھتی ہوئی کینسر کی شرح کے پیش نظر کینسر کے علاج اور اسکی روک تھام کے لیے مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے، کراچی میں منہ کے کینسر میں مبتلا بچے بھی رپورٹ ہورہے ہیں۔

پاکستان میں کینسر کی سب سے بڑی وجہ پان گٹکا چھالیہ اور اسی طرح کی دیگر اشیاءہیں۔ پاکستان میں ہیڈ اینڈ نیک کینسر پہلے نمبر پر ہے۔

پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام بدھ کے روز کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس میں کینسر فاﺅنڈیشن کے سربراہ ڈاکٹر عابد جمال، ماہر امراض سرطان ڈاکٹر محمد علی میمن، انڈس اسپتال میں پیڈیاٹرک آنکالوجسٹ ڈاکٹر احمر حامد،

ماہر امراض سرطان ڈاکٹر شاہین، ماہر امراض خون ڈاکٹر ثاقب انصاری، پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن کے صدر ڈاکٹر عبد اللہ متقی، سیکرٹری ڈاکٹر ذیشان انصاری اور آغاخان اسپتال میں ریڈیئیشن انکولوجی کے ہیڈڈاکٹر بلال نے شرکت کی۔

ڈاکٹر عابد جمال کا کہنا تھا کہ پاکستان میں کینسر کی کوئی سینٹرل رجسٹری موجود نہیں ہے اس لیے کینسر کے مریضوں کے کوئی درست اعدادوشمار بھی موجود نہیں ہیں،البتہ یہ ضرور ہے کہ پاکستان میں بریسٹ کینسر مین اضافہ ہو رہا ہے لیکن اس کی وجوہات کا علم نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں سر اور گردن کے کینسر کی بڑی وجہ پان گٹکا چھالیہ اور نسوار ہیں۔ پاکستان میں ہیڈ اینڈ نیک کینسر پہلے نمبر پر ہے، پاکستان میں کینسر کے ایک مریض پر اندازا پندرہ لاکھ سے زاید اخراجات آتے ہیں۔

پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق کینسر کے مریضوں کی تعداد ایک لاکھ سے ڈیڑھ لاکھ کے درمیان ہے جن میں سے دس سے پندرہ ہزار مریضوں کامیاب علاج ہو سکے گا باقی کینسر کے مریضوں کا مکمل علاج نہیں ہو سکتا انہیں صرف پلی ایٹو کیئر پر رکھا جا سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ منہ کے کینسر مین مبتلا مریضوں کی اکثریت بیس سے پچاس سال کی عمر کے افراد کی ہے جو آپ کے ملک کا سرمایہ ہیں اور ان کے خاندانوں کا انحصار ان پر ہے۔انہوں نے کہاکہ پان گٹکے پر پابندی پر عملدرآمد کر کے انہیں بچایا جا سکتا ہے۔

ڈاکٹر محمد علی میمن نے کہا کہ کینسر کی بیماری ایپیڈیمیک کی طرح پھیل رہی ہے ، پاکستان اٹامک انرجی کے 19 مراکز کینسر کے مریضوں کا ڈیٹا اکھٹا کرتے ہیں اور یہ کام ہم پانچ سال سے کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مختلف علاقوں میں مختلف مسائل ہیں، پوری دنیا میں کینسر کے سالانہ 21 ملین نئے کیسز رپورٹ ہوتے ہیں، پاکستان میں یہ تعداد ایک سے ڈیڑھ لاکھ کے درمیان ہے۔

ڈاکٹر محمد علی نے کہا کہ 40 سے پچاس فیصد کینسرز پری وینٹیبل ہیں اگر ان کی جلد تشخیص ہوجائے تو کینسر کے مریضوں کا علاج آسان ہوجاتا ہے اور اس پر قابو پاکر اسے پھیلنے سے روک سکتے ہیں جمع کیا ہے۔

کراچی میں منہ کا کینسر پہلے نمبرپر اور دنیا میں دسویں نمبر پر ہے۔انہوں نے کہا کہ صرف کراچی ہی نہیں ٹھٹہ اور بدین اور ساحلی پٹی پر منہ کا کینسر بہت تیزی سے پھیل رہا ہے۔

ڈاکٹر شاہین نے کہا کہ پان گٹکا چھالیہ غریب علاقوں کے مسائل ہیں اور ان ہی علاقوں میں منہ کا کینسر تیزی سے پھیل رہا ہے، ہمیں بچوں کو تعلیم اور آگہی دینا ہوگی ، ہم اسکولز میں آگاہی دے رہے ہیں اور کچی آبادیوں میں کیمپ لگا رہے ہیں۔

ڈاکٹر احمر حامد نے کہا کہ انڈس اسپتال میں 11 سے 12 سال کی عمرکے بچے منہ میں چھالوں کے ساتھ رپورٹ ہوتے ہیں جو آگے چل کر کینسر کی شکل اختیار کرجاتا ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ بچوں میں پان گٹکا اور چھالیہ کا بڑھتا ہوا رجحان ہے۔

انہوں نے کہا کہ زیادہ تر بچے غریب علاقوں سے آتے ہیں، پاکستان میں کینسر کی بڑھتی ہوئی شرح اور اس کا دباﺅ ہم برداشت نہیں کر سکتے اس کا واحد حل پری وینشن ہی ہے، انہوں نے کہا کہ 20 فیصد اموات منہ اور بریسٹ کیسرز سے ہوتی ہیں، اس کے لیے ہمیں مشترکہ طور پر مہم چلانے کی ضرورت ہے۔

ڈاکٹر ثاقب انصاری نے کہا کہ پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن نے کینسر کے علاج کے لیے کام کرنے والی تمام سوسائٹیز اور ماہرین کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا ہے تاکہ کینسر کے خلاف مل کر کام کیا جائے۔

ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ملک میں بڑھتی ہوئی کینسر کی شرح اور اس دباﺅ کا حکومت اور کو ئی بھی ادارہ اکیلے مقابلہ نہیں کر سکتا ہے اس لیے ہم جلد اس حوالے سے ایک مشترکہ پلیٹ فارم کا اعلان کریں گے۔

اس پر ابتدائی بات چیت ہوچکی ہے اور جلد وزیر اعلیٰ سندھ اور وزیر صحت سندھ سمیت دیگر کو مدعو کرکے اس اہم مسئلے پر بات کریں گے اور حکومت کو بھی آن بورڈ لیں گے۔

ڈاکٹر بلال نے کہا کہ کینسر کے مریض کا علاج کسی ایک ایکسپرٹ کا کام نہیں ہے بہت سی فیلڈز کے لوگ مل کر کینسر کے مریضوں کا علاج کرتے ہیں۔

پاکستان میں کینسر کے مریضوں کی تعداد کو دیکھتے ہوئے دو سو ریڈی ایشن مشینوں کی ضرورت ہے تاکہ کینسر کے مریضوں کا علاج ہو سکے کیونکہ ریڈی ایشن کے لیے مریضوں کو دو دو مہینوں کا وقت دیا جاتا ہے۔