اعلیٰ عدالتوں کی طرف مراجعت اور عوامی مطالبات کے بعد کافی وقفے سے کراچی کے مقامی انتخابات منعقد ہوئے۔ ان انتخابات کا آزادانہ ومنصفانہ ہونا یا کسی منظم دھاندلی کا شکار ہونا اِس وقت ہمارا موضوعِ بحث نہیں ہے، کیونکہ ہمارے ہاں انتخابی نتائج کبھی بھی متفق علیہ نہیں رہے۔ 2018 کی طرح قبل از انتخابات اور مابعد انتخابات دھاندلی کے بھی شواہد ملتے رہے ہیں، مثلاً: پولنگ اسٹیشنوں سے پولنگ ایجنٹس نکالے گئے، فوج اندر آگئی، امیدواروں کو پریزائڈنگ افسر کے دستخط شدہ ریزلٹ نہ مل سکے۔ نتائج کی فوری ترسیل کا نظام مفلوج ہوا، آج تک اس کی کوئی تحقیق ہوئی، نہ کسی ایسی تحقیق کے نتائج سامنے آئے اور نہ کسی کو اس کا ذمے دار ٹھیرایا گیا۔
15جنوری کو کراچی میں منعقدہ بلدیاتی انتخابات کے اعلان کردہ نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ کسی ایک سیاسی جماعت کو فیصلہ کن برتری حاصل نہیں ہوئی، پیپلز پارٹی اور جماعتِ اسلامی دو بڑی پارٹیاں بن کر سامنے آئی ہیں اور دونوں کی کامیابی کا تناسب قریب تر ہے، کافی فرق کے ساتھ پی ٹی آئی تیسرے نمبر پر آئی ہے، وہ اپنا وزن کسی ایک پلڑے میں ڈال کر فیصلہ کن کردار ادا کرسکتی ہے۔
کئی لوگوں کی خواہش ہے کہ جماعتِ اسلامی اور پیپلز پارٹی مل کر کراچی میں شہری حکومت قائم کریں، کیونکہ بلدیاتی حکومتوں کو وسائل صوبائی حکومت سے ملتے ہیں، سو اگر ان دونوں کے درمیان باہمی اعتماد کا رشتہ نہ ہو تو وسائل کا بہائو رک جاتا ہے، کام ٹھپ ہوجاتے ہیں، بیورو کریسی بھی ایسی صورتِ حال میں رکاوٹیں ڈالتی ہے یا سیاسی جماعتوں کے اختلافات کے سبب اپنا دامن بچانے میں عافیت سمجھتی ہے، فائلیں رک جاتی ہیں یا دب جاتی ہیں اور نقصان کراچی کے شہریوں کا ہوتا ہے۔ ہماری بھی خواہش ہے کہ عدالت عظمیٰ کے پاس بحریہ ٹائون کے حوالے سے ملک ریاض صاحب کے جو پچاس ارب روپے جمع ہیں، وہ بلدیہ کراچی کی نئی قیادت کو منتقل کیے جائیں تاکہ وہ اس سے شہری خدمات کا آغاز کرسکیں۔
جنابِ نعمت اللہ خان کی میئر شپ کے زمانے سے کراچی کی مقامی حکومتوں کا بجا طور پر یہ شکوہ رہا کہ کراچی کے انفرا اسٹرکچر کو سب شہری ادارے استعمال کرتے ہیں، لیکن تمام کنٹونمنٹ، کے پی ٹی اور ڈی ایچ اے کے علاقے بلدیاتی کنٹرول سے باہر ہیں، وہاں کا وصول شدہ پراپرٹی ٹیکس بھی بلدیہ کی تحویل میں نہیں آتا اور یوں شہر ایک مربوط اور جامع بلدیاتی نظام تشکیل دینے سے محروم رہتا ہے۔ بلدیاتی حکومت کا ہمیشہ یہ مطالبہ رہا ہے کہ کراچی کی ساری شہری حدود کا لینڈ کنٹرول اور پراپرٹی ٹیکسوں کا نظام کراچی میگاپولیٹن کارپوریشن کے تحت آئے تاکہ شہری سہولتوں کی بابت ایک مربوط پالیسی تشکیل دی جاسکے۔
جنابِ عبدالستار افغانی کی میئر شپ کے زمانے میں بھی یہ سوال اٹھایا گیا تھا کہ کراچی کی مقامی سڑکوں، فلائی اُوَر اور انڈرپاسز وغیرہ کی تعمیرو مرمت اور نگہداشت کراچی میگاپولیٹن کارپوریشن کی ذمے داری ہے، لہٰذا اس کا موٹر وہیکل ٹیکس بھی بلدیہ کراچی کو دیا جائے، اُس زمانے میں بلدیاتی کونسلروں نے اس حوالے سے احتجاجی جلوس نکالا اور اس وقت کے وزیرِ اعلیٰ غوث علی شاہ نے کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن کے منتخب ادارے کو تحلیل کردیا، اس کے بعد سے آج تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوا۔
کراچی کی آبادی کے بارے میں بھی دعوے مختلف ہیں، آخری قومی مردم شماری 2017 میں منعقد ہوئی، اس میں کراچی کی آبادی ایک کروڑ ساٹھ لاکھ پچاس ہزار بتائی گئی ہے، جبکہ اہلِ کراچی کا دعویٰ ہے کہ یہ اعداد وشمار درست نہیں ہیں، ان میں دانستہ یا نادانستہ کوئی گڑبڑ ہوئی ہے۔ کراچی کی نمائندگی کی دعویدار مختلف جماعتیں کراچی کی آبادی اڑھائی سے تین کروڑ کے درمیان بتارہی ہیں، یہ آبادی دنیا کے کئی ممالک کی مجموعی آبادی سے زیادہ ہے۔ کراچی کی آبادی کے بارے میں یہ تنازع رفع ہونے کی ایک ہی صورت ہے: ’’کراچی کی نمائندگی کی دعویدار جماعتیں اتفاقِ رائے سے مردم شماری کے لیے ایک متفقہ فارمولا اور طریقۂ کار وضع کریں، اُسے وفاقی حکومت سے منظور کرائیں، پھر اس کے تحت مردم شماری کرائی جائے، اس مردم شماری کے لیے جب شمار کنندگان گھر گھر جائیں تو اُس میں مسلح افواج اور عوام کے نمائندے بھی شامل ہوں، اسے ڈیجیٹل طریقے سے بھی کیا جاسکتا ہے۔ گزشتہ حکومت پہلے ہی یہ فیصلہ کرچکی ہے کہ آئندہ انتخابات سے پہلے نئی مردم شماری کرائی جائے گی، اس کے تحت از سرِ نوحلقہ بندیاں ہوں گی اور پھر قومی انتخابات منعقد ہوں گے۔
کراچی میں سڑکوں، سیوریج لائن، واٹرسپلائی لائن اور بجلی کی ٹرانسمیشن کا جو نظام ہے، وہ موجودہ آبادی کے لیے ہرگز نہ تھا اور نہ اس کی طلب اور ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے کافی ہے۔ پس ضروری ہے کہ کراچی کا جدید ترین ماسٹر پلان بنایا جائے، اس میں سٹیلائٹ سے بھی مدد لی جائے، جیوفینسنگ کی جائے۔ کراچی شہر ہر طرف بے ہنگم پھیلا ہوا ہے، موجودہ حدود میں ترقیاتی کام اور بنیادی ڈھانچہ مکمل ہونے تک اس کے مزید پھیلائو کو روکا جائے، کم از کم آئندہ پچیس سال کی متوقع آبادی کو پیشِ نظر رکھ کر شہری ضروریات کا ڈھانچہ تیار کیا جائے۔ سابق صدر ایوب خان کے زمانے میں اور بعد میں گلشن اقبال اور گلستانِ جوہر کی منصوبہ بندی تک کراچی شہر کا ٹائون پلاننگ کا نظام مثالی تھا، کھلی سڑکیں تھیں، مکانات کے لیے مختص خطۂ زمین کے مقابلے میں گرین بیلٹ کے لیے بڑی وسیع وعریض جگہ چھوڑی گئی تھی، یہ موجودہ اورآنے والے زمانے میں رفاہی ضروریات، مثلاً: مساجد، مدارس، تعلیمی ادارے، اسپتال، نرسنگ ہوم اور کھیل کے میدانوں کے لیے کافی تھی۔ لیکن پھر اسی گرین بیلٹ پر فلیٹوں کے جنگل بن گئے، چائنا کٹنگ ہوئی، فٹ پاتھ تک گھیر لیے گئے، رفاہی پلاٹ بھی باقی نہ رہے اور آنے والی نسلوں کی دیدہ ودانستہ حق تلفی کی گئی۔ کراچی ڈویلپمنٹ اتھارٹی میں باقاعدہ لینڈ کنٹرول ڈیپارٹمنٹ ہوتا ہے، لیکن اس شعبے نے اپنی ذمے داریوں سے غفلت برتی، اس کا سبب بدعنوانی کے علاوہ سیاسی دبائو اور اثر رسوخ بھی تھا، کچھ رسہ گیر، دادا گیر اور قبضہ گروپ بھی تھے، اس لیے سب نے مل کر کراچی کا حلیہ بگاڑ دیا۔
کراچی کی شہری حکومت کا یہ بھی مطالبہ رہا ہے کہ شہری خدمات سے متعلق ادارے کے ڈی اے، واٹر بورڈ، کے الیکٹرک اور اس طرح کے دیگر اداروں کو شہری حکومت کے کنٹرول میں دیا جائے۔ جنرل پرویز مشرف اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کا نظریہ لے کر آئے، سابق ڈی ایم جی نظام میں اکھاڑ پچھاڑ کی، ڈی پی او کا نظام لے کر آئے، میئر کے بجائے ناظم کا عہدہ متعارف کرایا گیا، کئی محکمے بلدیاتی حکومت کے تحت لائے گئے، لیکن پولیس کا محکمہ ناظمِ شہر کے ماتحت نہیں تھا۔ لہٰذا وہ اختیارات تو سب استعمال کرتے تھے، لیکن امن وامان کے لیے جوابدہ نہیں تھے، سو یہ ایک واضح تضاد تھا جو اُس نظام کی ناکامی کا باعث بنا، کیونکہ اختیارات ذمے داریوں کا بھی تقاضا کرتے ہیں۔
ہماری سیاسی جماعتوں کا یہ شعار ہے کہ وہ ایک دوسرے کو کوستی ہیں، ہرخرابی کا ملبہ ایک دوسرے پر ڈالتی ہیں، نہایت ادب کے ساتھ گزارش ہے کہ یہ حقائق کا سامنا کرنے کے بجائے ان سے فرار اور گریز کا راستہ ہے۔ درحقیقت حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ حقائق کا سامنا کیا جائے، کامیابیوں کا بجا طور پر کریڈٹ بھی لیا جائے، لیکن ناکامی کی ذمے داری بھی خوش دلی سے قبول کی جائے۔ حال ہی میں صوبۂ خیبر پختون خوا میں نگراں وزیر اعلیٰ پر حکومت اور حزبِ اختلاف کا اتفاقِ رائے ایک اچھی علامت ہے، یہ سیاست کی نفرت انگیز اور گرم ہوائوں میں ٹھنڈی ہوا کا ایک جھونکا ہے اور پی ٹی آئی کی قیادت کے مزاج کے تو بالکل خلاف ہے۔ شاید اس میں پرویز خٹک صاحب نے ٹھنڈے مزاج کے ساتھ مصالحت کنندہ کا کردار ادا کیا اور کامیاب ٹھیرے، جبکہ پنجاب میں ایسا نہ ہوسکا، خان صاحب کی تگ وتاز کا میدان بھی پنجاب ہے اور وہ اس میں مسلم لیگ ن کو اپنا حریف سمجھتے ہیں اور اقتدار میں شرکت خان صاحب کوکسی قیمت پر گوارا نہیں ہے۔
ہماری نظر میں شہری ترقیاتی کاموں کی مرمت ونگہداشت کا الگ بجٹ ہونا چاہیے۔ ہمارے سامنے کروڑوں اربوں روپے سے نئی سڑکیں بنتی ہیں اور چند دنوں یا چند مہینوں کے اندر وہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتی ہیں، کہیں واٹر لائن اور کہیں سیوریج لائن لیک ہوجاتی ہے اور بنی بنائی سڑک چند دنوں میں کھنڈر بن جاتی ہے۔ یونیورسٹی روڈ کی مثال ہمارے سامنے ہے، سڑک پر پانی بہہ رہا ہوتا ہے، کھڈے اور گڑھے بن جاتے ہیں، لیکن واٹر بورڈ کی طرف سے اس کی نگرانی اور تعمیر ومرمت کا کوئی انتظام نہیں ہوتا، یہ قومی وسائل کا نہایت سنگ دلانہ اور ظالمانہ ضیاع ہے، اس کا مستقل تدارک ہونا چاہیے۔
ایک مطالبہ یہ ہے کہ ثانوی تعلیمی سطح تک تعلیمی ادارے بلدیاتی حکومت کی نگرانی میں ہونے چاہییں، ان اداروں کے بڑے بڑے بجٹ ہیں، عملہ بھی مقرر ہے، لیکن ادارے بالعموم ویران نظر آتے ہیں، طلبہ موجود ہوتے ہیں اور نہ اساتذہ، کیونکہ ان کی نگرانی کا کوئی انتظام نہیں ہے، یہ شعبہ بھی انتہائی توجہ کا متقاضی ہے، یہی صورتِ حال اسپتالوں کی ہے۔
برطانیہ میں جی سی ایس ای یعنی اولیول تک اور امریکا میں اسکول گریجویشن یعنی انٹرمیڈیٹ لیول تک تعلیمی ادارے مقامی حکومتوں کی زیرِ نگرانی ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ان کی کارکردگی، تحدید وتوازن اور نگرانی کا انتظام بہتر ہوتا ہے، وفاقی حکومت صرف نصاب اور نظامِ امتحان کے معیارات مقرر کرتی ہے اور ان کی نگرانی کرتی ہے۔ چنانچہ ہمارے انگلش میڈیم اسکولوں کی طرح وہاں بھاری بھرکم نصاب نہیں ہوتے، مگر اُن کا معیارِ تعلیم بہتر ہوتا ہے، کیونکہ اُن کے نظامِ تعلیم میں کتابوںکا بوجھ لادنے کے بجائے معلمین ومعلمات اپنے طلبہ وطالبات کے جوہرِ قابل کو نکھار کر سامنے لاتے ہیں، اُن میں اعتماد پیدا کرتے ہیں، ان کا ذہن تخلیقی بناتے ہیں، جبکہ ہمارے ہاں سارا دارو مدار رٹّا لگانے پر ہوتا ہے۔ طلبہ وطالبات کی قابلیت اور ان کے اندر مستور صلاحیتوں کو نکھارنے کا ہمارے ہاں کوئی سائنٹیفک طریقہ اختیار نہیں کیا جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ ماں باپ طے کرتے ہیں کہ بچے کو میڈیکل، انجینئرنگ، آئی ٹی یا کس شعبے میں جانا چاہیے، جبکہ وہاں طالبِ علم میں اتنا اعتماد پیدا کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے رجحانِ طبع کے مطابق خود اپنے لیے شعبے کا انتخاب کرتا ہے۔