رنجشیں زندگی کے ہر معاملے میں پیش آ سکتی ہیں۔ کوئی رنجش ایسی نہیں جسے دور نہ کیا جا سکتا ہو۔ یہ کوئی ’’راکٹ‘‘ سائنس بھی نہیں، بس احساس دلانے کی ضرورت ہوا کرتی ہے۔ سمجھدار لوگ احساس دلائے جانے پر اپنی انا کو بھلا کر رنجشوں کو دور کر لیتے ہیں لیکن جن کے دماغوں میں خناس بھرا ہوا ہو وہ مزید اینٹھ جاتے ہیں اور یوں وہ رنجشیں جو رائی برابر ہوتی ہیں وقت کے ساتھ ساتھ پربت بن جاتی ہیں۔ ایسے موقع پر بڑوں کا کردار بہت اہمیت اختیار کر جاتا ہے اور چھینی ہوئی خوشیوں کو لوٹانے میں بہت اہم کردار ادا کرتا ہے۔ پاکستان کی سیاست کے لیے بھی ضروری ہے کہ کوئی واقعی بڑا ہو اور اپنی بڑائی کا احترام بھی کرانا جانتا ہو۔ کون نہیں جانتا کہ پاکستان کی سیاست میں گزشتہ ساٹھ دھائیوں سے بھی زیادہ ’’کوئی‘‘ بڑا بنا ہوا ہے لیکن اس کے باوجود وہ کبھی اس مقام پر فائز نہیں ہو سکا کہ اپنی بڑائی کا احترام برقرار رکھ سکے۔ وجہ بہت سامنے کی ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ ہر لڑائی کا فائدہ اپنے حق میں ہی چاہتا رہا ہے۔
چھوٹے اپنے بڑوں سے سیکھتے ہیں۔ چنانچہ پاکستان میں رہنے والوں کا گھریلو معاملہ ہو یا بحیثیت ِ مجموعی پورا پاکستانی معاشرہ، لڑنے والوں کو ٹھنڈا کرکے ان کے درمیان صلح کرانے کے بجائے جماعتیں ہوں یا ادارے، اس موقعے کی تلاش میں رہتے ہیں کہ لڑنے والوں میں سے کس کے ساتھ کھڑے ہونے یا ساتھ دینے میں فائدہ زیادہ ہے لہٰذا تمام مفاد پرست لڑائی ختم کرانے کے بجائے جلتی پر مزید تیل چھڑکنے میں لگ جاتے ہیں تاکہ وہ مفادات جن کا حصول ان کی مراد ہوا کرتی ہے انہیں حاصل کرنے میں زیادہ دقت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
ایک زمانہ تھا کہ پاکستان کی اسلامی سوچ رکھنے والی جماعتیں ہوں یا جو بظاہر صرف سیاسی سوچ کی بنیاد پر بنائی گئی ہوں، سب کی تحریکوں کا اصل محور اسلام ہوا کرتا تھا۔ پاکستان بنایا ہی اسلام کے قیام کے لیے تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نام لیواؤں کی قربانیاں قبول کیں اور ایک بہت وسیع و عریض خطہ زمین عطا کیا۔ بے شک اس پر تا حال اللہ سے کیے گئے وعدے کے مطابق اس کا نظام تو نافذ نہ ہو سکا لیکن ماضی کی بے شمار تحریکیں اسی کا نام لے کر چلائی جاتی رہیں۔ بار بار اللہ کے نام پر لوگوں سے قربانیاں مانگی گئیں اور باربار دھوکا دینے کا نتیجہ یہ نکلا کہ لوگ اسلام کا نام لینے والوں ہی سے بیزار ہو گئے۔ آج کل جمہوریت نے اس خلا کو پُر کیا ہوا ہے اور اب جتنی بھی تحریکیں پاکستان میں چلائی جاتی ہیں وہ جمہوریت کے نام پر چلائی جاتی ہیں۔ یہاں عوام یہ بات فراموش کر دیتے ہیں کہ جمہوریت کا نام لے کر تحریکیں چلانے والی تو وہی سب جماعتیں ہیں جو ماضی میں اسلام کے نام کی چٹنیاں اور چورن بیچتی رہی ہیں۔ جب وہ ساری جماعتیں اسلام اور اللہ سے عہدِ وفا نہ نبھا سکیں تو جمہوریت کو کہاں خاطر میں لانے والی ہیں۔
جن جماعتوں کا جمہوریت کے سلسلے میں بھی رویہ ’’پہلے احتساب پھر انتخاب‘‘ والا رہا ہو وہ اپنے مقابلے پر بڑی اور مضبوط جماعتوں کے ساتھ مقابلہ کرنے کی کہاں ہمت کر سکتی ہیں۔ چنانچہ جمہوریت کی دعویدار ساری جماعتیں ہمیشہ اپنے مقابلے کی جماعت کی بیخ کنی پر شادیانے ہی بجاتی نظر آئیں۔ مسلم لیگ ن پر عتاب پی پی پی کو اچھا لگتا رہا تو پی پی پی پر ٹوٹی قیامت ن لیگ کے لیے جمہوریت کی کامیابی شمار ہوئی۔ 2018 کے الیکشن میں تو ایک ایسی جمہوری پارٹی وجود میں آئی جس کو پی پی پی، ن لیگ کی تباہی و بربادی میں اصل جمہوریت دکھائی دینے لگی۔ مسئلہ یہ ہے کہ جس طرح ہم اسلام کو پاکستان میں نافذ ہوتا نہیں دیکھ سکتے بالکل اسی طرح ہم بنیادی طور پر نہ اپنے اندر سے اور نہ اپنے باہر سے جمہوریت پسند ہیں بلکہ اگر کوئی چیز ہمیں پسند ہے تو وہ صرف اور صرف اقتدار ہے اور وہ بھی شمشیر ِ بردار والا۔ ان سب حالات کو سامنے رکھا جائے تو بہر کیف مجھ جیسے بگڑے ہوئے فرد کو ایک بڑے بھائی کی اشد ضرورت ہے جو دوریوں کو قربتوں میں بدلنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ یہ بات بھی نہیں کہ پاکستان کی سیاست بڑے بھائی سے محروم ہے۔ پاکستان میں بڑا ہی نہیں بہت بڑا بھائی گزشتہ 6 دہائیوں سے بھی زیادہ عرصے سے موجود ہے لیکن یہ فطرتاً اتنا اذیت پسند ہے کہ یہ چیخوں، آہوں، سسکیوں اور بربادیوں میں بھی صرف اور صرف اپنے مفادات پر نظر رکھتا ہے۔ اسے اس سے کوئی مطلب نہیں کہ دوریوں کا دائرہ کتنا بڑھ چکا ہے، اسے مطلب ہے تو صرف یہ کہ آپس میں ایک دوسرے کے خون کے پیاسے کب اس کے قدموں کو پکڑ کر اسے بہر لحاظ سب سے عظیم تسلیم کرتے ہیں۔ تمام جماعتوں اور ان کے اکابرین کو خوب اچھی طرح تسلیم کر لینا چاہیے کہ اگر وہ انتقامی کارروائیاں اقتدار میں رہتے ہوئے مخالفین کے ساتھ کرنا نہیں چھوڑیں گے، ’’بڑے‘‘ بھائی کی عوام کے ساتھ غیر منصفانہ کارروائیوں پر شادیانے محض اس لیے بجائیں گے کہ اقتدار کے حصول میں ان کو آسانیاں مل جائیں گی، اس سوچ کو ترک کرنا ہوگا اور جب بھی کسی ادارے یا جماعتوں کی جانب سے غیر جمہوری عمل کا مظاہرہ کیا جائے گا، اس کی مخالفت کرنا جمہوریت کی روایات کا حصہ سمجھنا شروع کر دیں گے، وہیں سے نہ تو انہیں شریفوں کی گرفتاریاں اچھی لگیں گی، نہ شریفوں کو اپنے مخالفین پر کوئی ظلم گوارہ ہوگا اور نہ ہی سندھ کی ایک بڑی سیاسی جماعت کو جڑوں سے اکھاڑ کر پھینک دینا پسند آئے گا۔ اگر تمام سیاستدان اپنی اپنی اناؤں کے بت کو پاش پاش کرکے جمہوریت کو فروغ دے سکتے ہیں تو ٹھیک ورنہ کبھی شریفوں کی گرفتاریاں غیر شریفوں کے لیے باعث ِ مسرت ہوگی اور کبھی غیر شریفوں کے ٹھکائیوں پر شریف مٹھائیاں تقسیم کر رہے ہوں گے۔