جاگیرداری کی جکڑ بندی نے ریاست، سیاست اور معاشرت کو جکڑ رکھا ہے، یہ جاگیرداری نظام برصغیر میں انگریز حکمرانوں نے تشکیل دیا۔ سندھ میں اس کا آغاز 1843ء میں ہوا۔ 1844ء میں سرچارلس نپیئر نے وڈیروں کو ہدایت کی کہ وہ گورنر کو 24 مئی کو سلام کرنے کے لیے حاضر ہوں اور وفاداری کی تجدید کرکے سرخرو ہوں۔ ہسٹری آف سر جنرل چارلس نپیئر کے مطابق اس اعلان پر 20 ہزار وڈیرے حیدرآباد میں گورنر کی خدمت میں حاضر ہوئے اور وفاداری کا عہد کیا، جس پر گورنر نے خوش ہو کر صرف حیدرآباد کلیکٹوریٹ میں ان حاضری دینے، سلامی بھرنے اور وفاداری کا عہد کرنے والوں کو ایک لاکھ 70 ہزار ایکڑ زمین بطور جاگیر اس کے بعد 1901ء میں سندھ پر اپنی گرفت کو مضبوط کرنے اور عوام کو کچلنے کے لیے انگریز حکمرانوں نے اعلیٰ عملداروں، عسکری اہلکاروں اور وفاداری ثابت کرنے والے جاگیرداروں کو 5 لاکھ ایکڑ زمین کا تحفہ دیا۔ نامور بلاگر اور براڈ کاسٹر اون بینٹ اپنی تصنیف The Bhottu, dynasty میں تحریر کرتے ہیں کہ انگریز حکمران نے وفاداری دکھانے پر خوش ہو کر دودا خان بھٹو کو لاڑکانہ اور جیکب آباد میں ڈھائی لاکھ ایکڑ زمین جاگیر کے طور پر دی اور یوں فرسٹ گریڈ کے 14 جاگیرداروں، قبیلے کے سرداروں جن میں اکثریت بلوچوں کی تھی بڑے بڑے زرعی قطعہ دیے سب سے زیادہ جو نوازش کے حقدار ٹھیرے وہ عیسیٰ خان چانڈیو تھے جس کو ایک لاکھ 48 ہزار 24 ایکڑ زمین انعام کے طور پر ملی۔ یہ بات ریونیو عملدار لاڑکانہ کے کرتے ہیں کہ چانڈیہ برادری کے سرداروں کے پاس 9 لاکھ 99 ہزار 999 ایکڑ زمین ہے جو عطیہ انگریز ہے۔ بھارت کے جاگیردار اور نواب بھی پاکستان چلے آئے کیوں کہ کانگریس کے رہنمائوں نے یہ اعلان کردیا تھا کہ بھارت کی آزادی کے ساتھ ہی انگریزوں کی عطا کردہ جاگیرداری ختم کردی جائے گی یوں وہاں کے جاگیرداروں نے پاکستان آکر کلیم میں چھوڑی جانے والی زمین بھی نقل مکانی کو جواز بنا کر حاصل کرلی۔ اور یوں ان جاگیرداروں نے ریاست کی صورت میں سیاست میں قدم جمالیے اور یہ درد سر بن گئے۔ اور پھر مسلم لیگی حقیقی بن گئے کیونکہ سندھ میں کہاوت ہے کہ وڈیرہ مچھلی کے مصداقہ ہوتا ہے وہ اقتدار کے سمندر میں زندہ رہتا ہے۔
سندھ میں بنوامیہ کے زمانے میں جاگیر اور انعام کے طور پر زمینیں تقسیم کرنے کا رواج پایا تھا۔ 1901ء میں پہلی بار انگریزوں نے حروں کی بغاوت کو کچلنے میں پنجاب اور گورکھا فوج کی حروں کو پناہ گاہ مکھی جنگل کو آگ لگا کر تباہ کرنے پر مکھی جنگل کی پانچ لاکھ ایکڑ زمین انہیں اور کچھ انگریز آفیسروں کو الاٹ کی، ان جاگیرداروں اور زمینداروں کے لاکھوں ہاری بے زبان ووٹر ایوب خان اور بھٹو نے زرعی اصلاحات کی تو حکومت میں شامل ان جاگیرداروں نے تپہ داروں سے جو اکثر ان کے نمک خوار ہوتے ہیں ان کی زمینوں کے کھاتے، ان کے وفاداروں کے کھاتے میں چڑھادیے اور یوں ان کی اراضی ان اصلاحات سے بچ گئی۔ مشرقی پاکستان میں زرعی زمین کی تقسیم قیام پاکستان کے ساتھ ہی عمل میں آگئی جب مغربی پاکستان میں اس کی تقسیم کا عمل شروع ہونے کی تیاریاں شروع ہوئیں تو نوابزادہ نصر اللہ خان نے ان جاگیرداروں کو مقرر کرکے حقوق زمینداری جاگیردار کے نام سے تحریک شروع کرکے اس تقسیم کو ناکام بنادیا۔ اگر مغربی پاکستان میں بھی یہ تقسیم عمل میں آجاتی تو حقیقی جمہوریت آجاتی۔ اب بھی حل یہ ہے کہ ووٹرز کو ان کی گرفت سے آزاد کیا جائے اور ان کی جائداد ہاریوں میں بانٹ دی جائے۔