بھارت کا یومِ جمہوریہ، یوم سیاہ

1608

ہر سال 26 جنوری کو بھارت میں یومِ جمہوریہ منایا جاتا ہے۔ اس دن وہاں گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ء کی جگہ بھارتی ہندوستانی آئین نافذ ہوا اور ملک کو جمہوریہ میں تبدیل کر دیا۔ نیا آئین بنیادی طور پر ملک کو ایک سیکولر ریاست بنانے کے لیے تشکیل دیا گیا تھا لیکن آج اس ملک کے وجود میں آنے کے پون صدی بعد کے حالات اور وہاں اقلیتوں کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے اس سے پتا چلتا ہے کہ بھارتی معاشرہ آج بھی سیکولر ازم کے رنگ میں نہیں رنگ پایا اور شاید یہ کبھی ممکن بھی نہیں ہو پائے گا کیونکہ وہاں دائیں بازو کی مذہبی اور سیاسی جماعتوں کے ذریعہ ہندو اکثریت طاقت کے زور پر اقلیتوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کررہی ہے۔ بھارتی اقلیتوں کے خلاف موجودہ حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی نگرانی میں بڑھتی ہوئی مخاصمت غیر ہندوئوں کے تئیں موروثی تعصب کا مظہر ہے۔ کئی دہائیوں تک بھارت کی سیاسی قیادت نے سیکولر نقطہ نظر پیش کرکے دنیا کو دھوکا دیا تاہم یہ راگ ہمیشہ کے لیے جاری نہیں رہ سکا۔ ہندو انتہا پسندوں کی زیر قیادت ہندوتوا کے بنیادی نظریے نے ہندوئوں اور غیر ہندوئوں کے درمیان ایک خلیج کو بے نقاب کیا آج بھارت میں نسلی اور مذہبی اقلیتیں نہ صرف خود کو غیر محفوظ محسوس کرتی ہیں جہاں انہیں ظلم و ستم کا سامنا ہے بلکہ بھارتی یونین کی اہمیت پر بھی سوالیہ نشان ہے۔
ملک بھر میں ہندو انتہا پسند بھارت کو ہندو ریاست میں تبدیل کرنے پر زور دے رہے ہیں اور ان کے مظالم سے تنگ آئی ہوئی اقلیتیں اپنے لیے الگ وطن کی تلاش میں ہیں۔ بھارت میں اقلیتوں کی بڑھتی ہوئی بے اطمینانی، مذہبی تفریق اور مختلف ریاستوں میں بڑھتی ہوئی علٰیحدگی پسند تحریکیں اس بات کی عکاسی کرتی ہیں کہ انڈین یونین کا نظریہ، جو دھوکے اور جھوٹے وعدوں پر بنایا گیا تھا، ناکام ہو چکا ہے اور اس کی عمارت گرنے والی ہے۔ بھارت کسی بھی طرح سے فیڈریشن کہلانے کا اہل نہیں۔ پرفیسر الیف الدین ترابی نے اپنی تصانیف میں کشمیر کا قانونی اور آئینی مقدمہ لڑا ہے، اور بیش قیمت کتابیں لکھی ہیں، ان کا بنایا ہوا تحقیقی ادارہ آج بھی اپنا کردار ادا کر رہا ہے، بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر کا مسئلہ آج بھی حل طلب ہے۔ بھارتی حکومت نے جموں و کشمیر کے الحاق کے وقت 27 اکتوبر 1947ء کو تقسیم کے فارمولے کو عملی طور پر مسترد کر دیا کیونکہ کشمیری آبادی اور ان کی حقیقی قیادت مذہبی، ثقافتی، اقتصادی اور جغرافیائی قربتوں کے پیش نظر پاکستان سے الحاق کرنا چاہتے تھے تاہم بھارتی حکومت نے ہندو مہاراجا ہری سنگھ کے ساتھ ایک ناجائز معاہدے پر دستخط کر کے اپنی فوج وہاں داخل کردی جس کے بعد سے وہاں آزادی کی تحریک کا سلسلہ جاری ہے۔ کشمیر کے علاوہ بھی بھارت کی کئی ریاستیں میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ ناگالینڈ بھارتی حکومت کے لیے الگ سے پریشانی کا باعث ہے۔ اروناچل پردیش بھی ایک متنازع ریاست ہے اور سکھ بھی خالصتان کی شکل میں اپنے لیے ایک الگ ملک کا مطالبہ مسلسل کررہے ہیں جس میں حالیہ برسوں میں زیادہ شدت دیکھنے میں آرہی ہے۔
1976ء میں متعارف کرائی گئی بیالیسویں ترمیم کے بعد بھارتی آئین کی تمہید اس بات پر زور دیتی ہے کہ بھارت ایک سیکولر ریاست ہے۔ 1994ء میں بھارتی عدالت عظمیٰ نے ایک کیس میں فیصلہ سنایا جس میں کہا گیا کہ بھارت ایک جمہوریہ کے طور پر وجود میں آنے کے بعد سے سیکولر ریاست ہے۔ اس فیصلے نے ثابت کیا کہ بھارت میں ریاست اور مذہب کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس فیصلے میں کہا گیا کہ ’ریاست کے معاملات میں مذہب کی کوئی جگہ نہیں ہے اور اگر آئین ریاست کو سوچ اور عمل میں سیکولر ہونے کا تقاضا کرتا ہے تو یہی تقاضا سیاسی جماعتوں سے بھی ہے‘۔ تاہم سیکولر ازم سے متعلق یہ سب کچھ محض آئین کے الفاظ تک محدود ہے، زمینی حقائق اس کے بالکل برعکس ہیں۔
آج بھارت ایک سیکولر ریاست کے طور پر پوری طرح ناکام ہوچکا ہے اور اب اس کے وجود کو ہندوتوا نظریے کے عروج کے باعث خطرہ ہے کیونکہ یہ نظریہ نہ صرف انتخابی سیاست بلکہ عدلیہ اور معاشرے کو بری طرح متاثر کررہا ہے۔ بھارت کے سیکولر ہونے کی حقیقت یہ ہے کہ اس کے آئین کا مسودہ تیار کرنے والی کمیٹی کے چیئرمین بھیم رائورام رائو امبیدکر ایک دلت تھے اور معاشرے میں مسلسل ایک اچھوت کے طور پر جانے جانے اور آئین کے تحت اپنے حقوق کا تحفظ نہ ہونے کی وجہ سے انہوں نے بدھ مت اختیار کر لیا۔ ہندوستانی حکومت کی سرپرستی میں ہندو دہشت گرد عیسائیوں کو دھمکیاں دیتے ہیں اور انہیں قتل کرتے ہیں اور ان کی عبادت گاہوں کو توڑ پھوڑ دیتے ہیں۔ عیسائی مخالف محافظ دیہاتوں میں گھس رہے ہیں، گرجا گھروں پر دھاوا بول رہے ہیں، عیسائی لٹریچر کو جلا رہے ہیں، اسکولوں پر حملہ کر رہے ہیں اور عبادت گزاروں پر حملہ کر رہے ہیں۔ نتیجتاً، ہندوستانی عیسائی اپنا عقیدہ چھپانے یا رازداری میں مذہبی خدمات انجام دینے پر مجبور ہیں۔ تقریباً 300 ملین ہندوستانی عیسائی ہندو دہشت گردی کے خاتمے پر ہیں۔ مسلمانوں کو ملازمت اور ہائوسنگ مارکیٹوں میں امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔ سیاسی طور پر، مسلمان پارلیمنٹ کے ایوان زیریں میں 6 فی صد سے بھی کم ارکان پارلیمنٹ کے ساتھ پسماندہ ہیں جبکہ آبادی کا 13.4 فی صد نمائندگی کرتے ہیں۔ 2005ء میں وزیر اعظم منموہن سنگھ نے جسٹس راجندر سچر کی سربراہی میں ایک کمیٹی کے تحت ہندوستان کے مسلمانوں کی حالت پر ایک رپورٹ بنائی لیکن حالات کو بہتر بنانے کے لیے سچر کمیٹی کی کسی بھی سفارش پر عمل نہیں کیا گیا۔
ہندوستانی اتحاد جھوٹے وعدوں، الحاق اور جبر کے ذریعے کی گئی جعلی تعمیر کی کہانی ہے۔ ہندوستانی آئین میں سیکولر نقطہ نظر ہے جو ریاست اور مذہب کے ملاپ کو روکتا ہے لیکن آج کا ہندوستان ایک سیکولر ریاست کے علاوہ کچھ بھی ہے۔ ہندوتوا کا نظریہ ریاستی اداروں اور سماج میں پھیلا ہوا ہے۔ آر ایس ایس اور بی جے پی نے ہندوستان کو ایک ہندو رریاست بنانے کے لیے ایک مشکل سفر شروع کیا ہے جہاں ہندو برتر ہوں گے اور غیر ہندوئوں کی کوئی جگہ نہیں ہوگی۔ اس کا عملی عکس آج کے ہندوستان میں دیکھا جا سکتا ہے۔ بھارت انسانی حقوق کی سب سے بڑی خلاف ورزی کرنے والا ملک ہے۔ بھارت بین الاقوامی قانون اور بین الاقوامی اصولوں کی توہین کرتا ہے اور علاقائی امن کے لیے خطرہ بن جاتا ہے۔ اس طرح، بھارت عالمی سطح پر غیر معقول کام کرتا ہے اور اپنے گھنائونے جرائم کو چھپانے کے لیے غلط معلومات کا استعمال کرتا ہے۔ ہندوستان ایک جعلی یونین ہے جو جابرانہ ہندوتوا پالیسیوں کی وجہ سے اندر سے پھٹنے والی ہے۔