تَسْعِیْر(حصہ دوم)

550

غَرَر اور غَبَنِ فاحِش کا حکم مُجَلّہ میں یہ بیان کیا: ’’بائِع اور مشتری میں سے کوئی دوسرے کو دھوکا دے اور یہ ثابت ہوجائے کہ بیع میں غَبَنِ فاحِش ہے، تو جس کے ساتھ دھوکا کیا گیا ہے اُسے اپنے آپ کو نقصان سے بچانے کے لیے بیع کو فَسخ کرنے کا اختیار حاصل ہے‘‘۔ ہماری رائے میں اُس عہد کے فقہائے کرام نے اپنے حالات کے مطابق نفع کی یہ ممکنہ حد مقرر فرمائی تھی۔ ہر دور میں عام حالات میں تاجروں کے درمیان جو نفع کی شرح رائج ہو، اُسی کا اعتبار کیا جائے گا۔ ہمارے دور میں چونکہ اشیائے خوراک پیدا کرنے والوں، اہلِ صنعت وحِرفت اور حقیقی صارفین کے درمیان واسطے بہت بڑھ گئے ہیں، اس لیے نفع کی یہ شرح بھی بڑھ گئی ہے اور یہ بات قابلِ فہم بھی ہے۔
رسالت مآبؐ کے عہدِ مبارک میں چونکہ اشیاء پیدا کرنے والے یا بنانے والے خود اپنا مال لے کر شہر میں آتے تھے اور وہاں منڈیاں یا بازار لگتے تھے، جیسے آج کل ہمارے ہاں جمعہ بازار، اتوار بازار یا بدھ بازار لگتے ہیں۔ اسی طرح ایامِ جاہلیت میں عُکاظ، ذوالمِجنّۃ اور ذوالمجاز کے بازار لگتے تھے اور دیہاتی لوگ اپنا مال براہِ راست تاجروں یا صارفین پر بیچتے تھے۔ چنانچہ باہر سے آنے والے دیہاتی کو اپنے مال کی مناسب قیمت مل جاتی تھی اور تاجر یا صارِف کو تجارت کے فطری اصول کے مطابق صحیح قیمت پر مال مل جاتا تھا اور درمیانی واسطے (Middlemen) نہ ہونے کی وجہ سے نفع کا تناسب بھی مناسب سطح پر رہتا تھا۔
اسی حکمت کے تحت رسول اللہؐ نے ’’تَلَقَّی الْجَلَب‘‘اور ’’بَیْعُ حَاضِرٍلِلْبادِی‘‘ کی ممانعت فرمائی تھی کہ شہری تاجر شہر سے باہر جاکر تجارتی قافلوں سے خریداری نہ کریں، کیونکہ باہر سے آنے والے دیہاتی یا تجارتی قافلے کو شہر میں کسی چیز کی طلب یا قِلّت کے بارے صحیح معلومات نہیں ہوتی تھیں، اِسی کو شریعت نے ’’سَدِّ ذَرائِع‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔ الغرض اسلام نے ناجائز منافع خوری کے طریقوں کو بند کیا، رسول اللہؐ کا فرمان ہے: ’’شہری دیہاتی کا ایجنٹ بن کر بیع نہ کرے، لوگوں کو اُن کے حال پر چھوڑو، اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو ایک دوسرے کے لیے رزق کی فراہمی کا وسیلہ بنایا ہے‘‘۔ (مسلم)
علامہ برہان الدین مَرغینانی نے لکھا: ’’شہری کی دیہاتی کے لیے بیع سے اُس صورت میں منع کیا ہے، جب شہر میں کسی چیز کی قِلّت ہو اور اُس کی شدید ضرورت ہو، اُس وقت ایجنٹ بن کر بیع کرنا قیمت کو بڑھانا ہے اور اِس میں شہر والوں کا نقصان ہے۔ لیکن اگر حالات معمول کے مطابق ہوں تو کوئی حرج نہیں، کیونکہ اِس میں کسی کو نقصان نہیں ہے‘‘۔ (ہدایہ) آج کل بڑے تاجر موقع پر جاکر مال خریدتے ہیں، بعض صورتوں میں وہ کئی سال کے لیے باغات کی پیداوار کا پیشگی سودا کرلیتے ہیں، جو شرعاً منع ہے اور شہر میں آنے والا مال آڑھتیوں اور کمیشن ایجنٹوں کے ذریعے منڈیوں میں تھوک (Wholesale) کے حساب سے فروخت ہوتا ہے اور پھر خوردہ فروش (Retailer) اُن سے خرید کر شہروں میں فروخت کرتے ہیں۔ شہر بہت پھیل چکے ہیں اور آبادی بہت بڑھ چکی ہے، اس لیے ہر کاشت کار، باغبان، مویشی بان اور اہل صنعت وحِرفت کی شہر کی منڈیوں تک رسائی آسان نہیں ہے اور بڑی مچھلیاں آسانی سے چھوٹی مچھلیوں کو نگل لیتی ہیں، عالَمی سطح پر کارپوریٹ کلچر نے اِجارہ داریاں قائم کر رکھی ہیں۔ بعض اوقات ذخیرہ اندوزی کر کے یا مارکیٹ میں مال کی رَسَد کو روک کر مصنوعی طریقے سے طلب بڑھائی جاتی ہے، اس کے سدِّباب کے لیے رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’تاجر خوش بخت ہے اور ذخیرہ اندوزی کرنے والا ملعون ہے‘‘۔ ( ابن ماجہ) ذخیرہ اندوزی کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ ایک خاص شعبے سے تعلق رکھنے والے ساہوکار منصوبہ بندی کے ساتھ مفاداتی گروپ (Cartel) بناکر اشیائے صَرف کی ذخیرہ اندوزی کریں، طلب بڑھانے کے لیے رَسَد روک دیں، یہاں تک کہ غیر فطری انداز میں قیمتیں انتہائی بلند سطح پر چلی جائیں اور پھر عام لوگوں کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھاکر اپنی تجوریاں بھریں۔ ماضی میں اِسی استحصالی کلچر کے ذریعے کبھی چینی، کبھی آٹا، کبھی دوائوں اور دیگر اشیائے ضرورت کی قیمتیں بڑھائی جاتی رہی ہیں۔ اِسی طرح اگر بیرونِ ملک کسی چیز کی طلب بڑھ جائے تو سنگ دل تاجر اپنے عوام کو ترستا چھوڑ کر اُس مال کو برآمد کرلیتے ہیں اور کئی گنا زیادہ نفع کماتے ہیں۔
ایسے حالات میں حکومت کا کام مارکیٹ میں طلب ورَسَد کو نظم وضبط میں لانا یعنی Regulate کرنا اور متوازن رکھنا ہوتا ہے۔ تنویر الابصارمع الدر المختار میں ہے: ’’جب تاجر قیمت میں تجاوز کر کے غیر معمولی کمی بیشی کریں تو حکومت ماہرین کے مشورے سے قیمت مقرر کرے اور امام مالک نے کہا: حاکم کی ذمے داری ہے کہ وہ مہنگائی کے زمانے میں پرائس کنٹرول کرے، لیکن یہ احتیاط ملحوظ رہے کہ کسی فریق پر ناروازیادتی نہ ہو‘‘۔ (رد المحتار) جب غذائی اشیاء کی قلت ہواور کچھ لوگ ذخیرہ اندوزی کررہے ہوں، تو حکومت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ تاجروں کو ذخیرہ کی گئی اشیاء کو فروخت کرنے کا حکم دے اور اگر تاجر حکم کی تعمیل نہ کریں تو حکومت ان کی مرضی کے خلاف خود بھی مارکٹ ریٹ پر فروخت کرسکتی ہے،اَلْمَوْسُوْعَۃُ الْفِقْہِیَّۃ میں ہے: ’’جب عوام کے متاثر ہونے کا اندیشہ ہو تو حاکم ذخیرہ اندوز کو مجبور کرے گا، بلکہ اس سے ذخیرہ شدہ مال کو لے کر بازاری قیمت یا مثلی اشیاء کے عوض فروخت کرے گا، یہ بات تمام ائمہ میں متفق علیہ ہے، مالکیہ، شافعیہ، حنابلہ اور احناف میں امام محمد کا نظریہ یہ ہے کہ عوام کے متاثر ہونے کا اندیشہ نہ بھی ہو، تب بھی (مستقبل میں عوام کے متاثر ہونے کے اندیشے کے پیش نظر) حاکم ذخیرہ اندوز کو مجبور کرسکتا ہے، بلکہ اس سے ذخیرہ شدہ مال لے کر فروخت کرسکتا ہے‘‘۔ (اَلْمَوْسُوْعَۃُ الْفِقْہِیَّۃ الْکُوَیْتِیَّۃ) اس وقت تو عوام کے متاثر ہونے کے ساتھ ساتھ ملک کے دیوالیہ ہونے کا اندیشہ بھی پایا جاتا ہے، اس لیے مارکیٹ میں توازن کے لیے حکومت کی مارکیٹ پر گرفت ضروری ہے اور ضرورت پڑنے پر عوام کے مفاد میں کسی سخت کارروائی سے بھی گریز نہیں کرنا چاہیے۔ لیکن اِس ضمن میں حکومتوں کی ناکامی کی چند وجوہ ہیں:
(۱) یہ کہ حکمران خود کسی کاروبار سے وابستہ ہوجائیں، (۲) بڑے کاروباری طبقے اُنہیں انتخابات میں غیر معمولی فنڈدیں اور وہ اقتدار میں آنے کے بعد اُن کے احسانات کی تلافی کریں، جیسا کہ گزشتہ حکومت نے لینڈ مافیا کو غیر معمولی مراعات دیں اور انہیں کالے دھن کو سفید کرنے کے مواقع فراہم کیے، الغرض بعض طبقات حکومتی پالیسیوں پر اثر انداز ہونے کی پوزیشن میں آگئے ہیں، (۳) حکمران رشوت لے کر عوام کی فلاح سے لا تعلق ہوجائیں اور ناجائز نفع خوروں اور استحصالی عناصر کوکھلی چھوٹ دے دی جائے، (۴) قانون اس طرح لچک دار ہوکہ موم کی ناک بن جائے اور با اثر لوگ اعلیٰ قانونی ماہرین کی مدد سے عدالتوں سے اپنے حق میں فیصلے کرائیں، یہی وجہ ہے کہ اس وقت اعلیٰ وکلا کا طبقہ اپنی پیشہ ورانہ مہارت کی وجہ سے اشرافیہ کا حصہ بن چکا ہے اور اُن کے مفادات کا نگہبان ہے، حال ہی میں سابق چیف آف آرمی اسٹاف جنرل (ر) قمرجاوید باجوہ کا بالواسطہ یہ موقف آیا ہے: ’’وہ اُس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کے توانائی کے مشیر ندیم بابر کو لے کر قطر کے حکمران کے پاس گئے، انہوں نے کہا: ہمیں ایل این جی سوا گیارہ ڈالر کی بیچ رہے ہیں، آپ کو سوا دس ڈالر کی دے دیں گے، آپ ایک وقت میں جتنی مقدار میں لینا چاہیں، خرید لیں، ہم آپ کو فراہم کردیں گے۔ ندیم بابر نے کہا: ہمارے لیے تین کنٹینر کافی ہیں، جنرل باجوہ کہتے ہیں: ہم نے کہا: دس کنٹینر لے لیں، آگے ضرورت پیش آسکتی ہے، آپ دس کنٹینر کا سودا کرلیں، ندیم بابر نے کہا: ہمارے لیے تین کنٹینر کافی ہیں، بعد میں سردیاں آئیں اور توانائی کی شدید قلت پیدا ہوگئی، تب ہمیں پتا چلا: ’’وہ اپنا فرنس آئل بیچنا چاہتے تھے‘‘۔ اسی طرح روایت کیا گیا ہے: امریکنوں نے جنرل باجوہ کو کہا: ’’کراچی میں آپ کی پورٹ پر پٹرولیم کی غیرقانونی ٹریڈنگ ہورہی ہے‘‘، انہوں نے وزیر اعظم عمران خان سے کہا، وزیر اعظم نے اس بات کو اہمیت نہ دی، امریکنوں نے پھر رابطہ کیا، پھر اداروں نے معلومات کیں تو پتا چلا: ندیم بابر کے ایرانی پٹرولیم کے شپ کھڑے تھے اور اُن کا ریٹ مارکیٹ سے تیس روپے فی لیٹر کم تھا، کیونکہ امریکا نے ایرانی پٹرول کی فروخت پر پابندی لگا رکھی تھی اور اس غیرقانونی تجارت کا پاکستان کو عالمی سطح پر بہت نقصان اٹھانا پڑسکتا تھا، چنانچہ اُس کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے ندیم بابر سے استعفا لیا۔
بعض صورتوں میں حکومتیں اشیائے صَرف کے نِرخ مقرر کرتی ہیں، لیکن مارکیٹ میں اُن نِرخوں پر اشیاء دستیاب نہیں ہوتیں، کیونکہ رَسَد پر حکومت کا کنٹرول نہیں ہوتا اور حکومت نچلے طبقات کے لیے زرِ اعانت (Subsidy) بھی دینے کے لیے تیار نہیں ہوتی، کیونکہ عالَمی قرض دہندہ ادارے یعنی آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک اُن کو اس کی اجازت نہیں دیتے۔
انسانیت کی بد قسمتی یہ ہے کہ اس وقت دنیا پر انتہائی سنگ دل سرمایہ دارانہ نظام کا کنٹرول ہے اور حکومتیں اُن کے مفادات کی محافظ ہیں۔ سوویت یونین کے زوال اور چین کے بتدریج سرمایہ دارانہ نظام کی طرف منتقلی نے اِس نظام کے لیے خطرات کو معدوم کردیا ہے اور کوئی مؤثر چیلنج سرِ دست اس کے سامنے نہیں ہے۔ اس نظام کے خلاف بغاوت مغرب میں ہوسکتی تھی، لیکن وہاں کی حکومتوں نے بنیادی ضرورتوں کی قیمتوں کو اپنے عوام کی پہنچ میں رکھنے کا اہتمام کر رکھا ہے اور وہ رسد پر بھی نظر رکھتی ہیں، نیز انہوں نے اپنے عوام کو عیش ونشاط کا دلدادہ بناکر عزیمت کی راہوں سے دور کردیا ہے۔
مسلم ممالک بھی بحیثیت ِ مجموعی اِسی نظام کے تحت غلامی کے بندھنوں میں جکڑے ہوئے ہیں، کیونکہ حقیقی معنی میں اسلامی نظامِ معیشت کا کوئی نمونہ یا مظہر دنیا کے سامنے موجود نہیں ہے۔ اسلامی بینکاری نے لاربائی میکنزم تو کسی حد تک پیش کیا ہے، لیکن انسانیت نوازی کی بنیاد پر اسلامی فلاحی معیشت کی صورت گری نہیں کی، کیونکہ مارکیٹ میں منافع کی شرح مقرر کرنے پر بحیثیتِ مجموعی سودی نظام معیشت کو کنٹرول حاصل ہے اور وہی رجحان ساز ہے۔ اسلام میں جب تک نظامِ حکومت، نظامِ عدالت، نظامِ معیشت اور سماجی ڈھانچے (Social Structure) پر بحیثیت مجموعی اَخلاقیات کی گرفت مضبوط نہ ہو، تو مُثبِت نتائج برآمد ہونے کی توقع عبث ہے۔