بھارت میں غریبی اور امیری کی کھائی

621

آج کل ہم بھارتیہ لوگ اس بات پہ بہت خوش ہوتے رہتے ہیں کہ بھارت جلد ہی دنیا کی سب سے بڑی معیشت بننے جارہا ہے لیکن دنیا کے اس تیسرے سب سے بڑے مالدار ملک کی اصلی حالت کیا ہے‘ کیا کبھی اس پر کسی نے غور کیا ہے؟ اس ملک میں غریبی بھی اتنی ہی تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے جتنی تیزی سے اس کی معیشت بڑھ رہی ہے۔ امیر ہونے والوں کی تعداد تو صرف سیکڑوں میں ہوتی ہے لیکن غریب ہونے والوں کی تعداد کروڑوں میں ہوتی ہے۔ آکسفورڈ کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق پچھلے دو سال میں بھارت میں صرف 64ارب پتی بڑھے ہیں۔ 100 بھارتیہ ارب پتیوں کی جائداد 54.12 لاکھ کروڑ روپے ہے۔ اس کا مطلب ہے ان کے پاس اتنا پیسہ ہے کہ وہ بھارت سرکار کے ڈیڑھ سال کے بجٹ سے بھی زیادہ ہے۔ تمام ارب پتیوں کی دولت پر مشکل سے 2 فی صد ٹیکس لگتا ہے۔ اس پیسے سے ملک کے تمام بھوکے لوگوں کو اگلے تین سال تک گھر بٹھا کر کھانا کھلایا جا سکتا ہے۔ اگر ان مالداروں پر تھوڑا زیادہ ٹیکس لگایا جائے اور اشیائے خورو نوش پر ٹیکس کم کر دیا جائے تو سب سے زیادہ فائدہ ملک کے غریب لوگوں کو ہی ہو گا۔ ابھی تو بھارت میں جتنی بھی دولت پیدا ہوتی ہے اس کا 40فی صد صرف 1فی صد لوگ ہضم کرجاتے ہیں۔ جبکہ 50فی صد لوگوں کو اس کا 3فی صد ہی ہاتھ لگتا ہے۔ امیر لوگ اپنے گھروں میں چار‘ چار بڑی کاریں رکھتے ہیں اور غریبوں کو کھانے کے لیے چار روٹیاں بھی ٹھیک سے نصیب نہیں ہوتیں۔ یہ جو 50فی صد لوگ ہیں‘ ان سے سرکار جی ایس ٹی کا کل 64 فی صد وصول کرتی ہے جبکہ بھارت کے 10فی صد سب سے مالدار لوگ کل ٹیکس کا صرف 3فی صد ادا کرتے ہیں۔ ان 10فی صد لوگوں کے مقابلے نچلے 50فی صد لوگ 6گنا زیادہ ٹیکس بھرتے ہیں۔ غریب اور متوسط طبقے کے لوگوں کو اپنی روزمرہ کی ضروری چیزوں کو خریدنے پر بہت زیادہ ٹیکس بھرنا پڑتا ہے کیونکہ وہ بغیر بتائے ہی خاموشی سے کاٹ لیا جاتا ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ بھارت کے 70کروڑ لوگو ں کی کل دولت بھارت کے 21ارب پتیوں سے بھی کم ہے۔ سال بھر میں ان ارب پتیوں کے اثاثوں میں 121فی صد کا اضافہ ہوا ہے۔ اب سے تقریباً ساٹھ‘ پینسٹھ سال پہلے جب میں مشہور فرانسیسی مفکر Francois Leclerc du Tremblay کو پڑھ رہا تھا تو ایک جملے نے مجھے چونکا دیا تھا۔ وہ جملہ تھا کہ ساری جائداد چوری کا مال ہوتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں سبھی امیر چور‘ ڈکیت ہیں۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ ایسا میں سوچتا تھا، لیکن اب جبکہ دنیا میں غریبی اور امیری کی کھائی دیکھتا ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ اس فرانسیسی انارکسٹ مفکر کی بات میں کچھ نہ کچھ سچائی ضرورہے۔ کارل مارکس کی داس کیپٹل اور خاص طور پر کمیونسٹ مینی فیسٹو کو پڑھتے ہوئے میں نے آخر میں یہ جملہ بھی دیکھا کہ مزدوروں کے پاس کھونے کے لیے کچھ نہیں ہے‘ صرف ان کی زنجیروں کے علاوہ۔ ان دونوں جملوں کا پورا مطلب سمجھ میں تب آتا ہے جب ہم دنیا کے امیر اور غریب لوگوں کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنے لگتے ہیں۔ امیر‘ امیر کیوں ہے اور غریب‘ غریب کیوں ہے؟ اس سوال کا جواب ہم تلاش کرنے چلیں تو معلوم پڑے گا کہ امیر‘ امیر اس لیے نہیں ہے کہ وہ بہت ذہین ہے یا وہ بہت زیادہ محنتی ہے یا اس پر قسمت مہربان ہے۔ اس کی امیری کا راز اس چالاکی میں چھپا ہوتا ہے جس کے دم پر مٹھی بھر لوگ پیداوار کے وسائل پر قبضہ کرلیتے ہیں اور محنت کش لوگوں کو اتنی مزدوری دے دیتے ہیں تاکہ وہ کسی طرح زندہ رہ سکیں۔ یوں تو ہر شخص اس دنیا میں خالی ہاتھ آتا ہے لیکن کیا وجہ ہے کہ ایک شخص کا ہاتھ ہیرے موتیو ں سے بھرا رہتا ہے اور دوسرے کے ہاتھ اینٹ‘ پتھر ہی ڈھوتے رہتے ہیں؟ اگر دنیا کی کل آمدنی سب لوگوں میں برابر‘ برابر بانٹ دی جائے تو ہر آدمی لکھ پتی بن جائے گا۔ ان کے پاس تقریباً 65 لاکھ روپے کی جائداد ہوگی۔ ہر آدمی کو تقریباً سوا لاکھ روپے مہینے کی آمدنی ہو جائے گی لیکن اصلیت کیا ہے؟ بھارت میں 50فی صد لوگ ایسے ہیں جن کی آمدنی صرف ساڑھے چار ہزار روپے مہینہ ہے؛ یعنی ڈیڑھ سو روپے یومیہ۔ کروڑوں لوگ ایسے ہیں جن کی آمدنی 100روپے روزانہ بھی نہیں ہے۔ انہیں روٹی، کپڑا، مکان بھی ٹھیک سے دستیاب نہیں ہے۔ تعلیم، علاج اور تفریح تو دور کی بات ہے۔ انہی لوگوں کی محنت کے دم پر اناج پیدا ہوتا ہے، کارخانے چلتے ہیں اور متوسط اور اونچے طبقے کے لوگ ٹھاٹ کرتے ہیں۔ امیری اور غریبی کی یہ کھائی بہت گہری ہے۔ اگر دونوں کی آمدنی اور خرچ کا تناسب ایک اور دس کا ہو جائے تو خوشحالی چاروں طرف پھیل سکتی ہے۔ اب جو نیا بجٹ آنے والا ہے شاید سرکار ان تازہ اعدادو شمار پر توجہ دے گی اور بھارت کے ٹیکس کے نظام میں ضرور کچھ بہتری کرے گی۔ ملک کتنا ہی مالدار ہوجائے لیکن اگر اس میں غریبی اور امیری کی کھائی بڑھتی گئی تو وہ خوشحالی کسی بھی دن ہماری جمہوریت کو انقلاب میں بدل سکتی ہے۔ یہ ہم نے پچھلی دو صدیوں میں فرانس، روس اور چین میں ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔
نفرت انگیز بیانات پر فوراً روک لگے
عدالت عظمیٰ کی سرکار سے یہ درخواست بالکل معقول ہے کہ نفرت انگیز بیانات پر روک لگانے کے لیے وہ فوراً قانون بنائے۔ یہ قانون کیسا ہو اور اسے کیسے لاگو کیا جائے‘ ان مدعوں پر عدالت عظمیٰ نے کہا ہے کہ بھارتیہ پارلیمنٹ، سارے جج اور انصاف پسند اوردیش کے سارے دانشور مل کر غور کریں۔ یہ معاملہ اتنا پیچیدہ ہے کہ اس پر آناً فاناً کوئی قانون نہیں بنایا جا سکتا کیونکہ دیش کے بڑے سے بڑے نیتا، نامی گرامی دانشور، کئی مذہبی پرچم بردار اور ٹی وی پر زبان چلانے ولے دنگل باز‘ سبھی اپنی بے لگام باتوں کے لیے جانے جاتے ہیں۔ کبھی وہ دوٹوک الفاظ میں دوسرے مذاہب، ذاتوں، پارٹیوں اور لوگوں پر حملہ بول دیتے ہیں اور کبھی اتنی گھما پھرا کراپنی بات کہتے ہیں کہ اس کے کئی معنی نکالے جاسکتے ہیں۔ ویسے اخبار تواس معاملے میں ذرا احتیاط برتتے ہیں۔ اگروہ خود حد پار کریں تو انہیں پکڑنا آسان ہوتا ہے لیکن ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا میں حدود کی خلاف ورزی کی کوئی حد نہیں ہے۔ اکیلے اتر پردیش میں صرف پچھلے ایک سال میں ایسے معاملوں میں 400فی صد تک بڑھوتری ہوگئی ہے۔ وہاں اور اتراکھنڈ میں 581 ایسے معاملے سامنے آئے ہیں۔ 2008ء￿ سے لے کر اب تک بھارتی ٹی وی چینلوں پر ایسے قابلِ اعتراض بیانوں پر 4000 شکایتیں درج ہوئی ہیں۔ اخبار میں چھپے ہوئے نفرت انگیز بیانوں سے کہیں زیادہ اثر ٹی وی چینلوں پر بولے گئے بیانوں کا ہوتا ہے۔ کروڑوں لوگ انہیں سنتے ہیں اور اس پر ان کا ردِعمل فوراً ہوتا ہے۔ اْدے پور میں ایک درزی کا قتل کیسے ہوا‘ اور کچھ ریاستوں میں دنگے کیسے بھڑکے؟ یہ سب بھارت کے ٹی وی چینلوں کی مہربانی کی وجہ سے ہوا۔ زیادہ تر بھارتیہ ٹی وی چینل اپنے ناظرین کی تعداد بڑھانے کے لیے کوئی بھی دائو پیچ اختیار کر لیتے ہیں۔ انہیں نہ قومی مفاد کی فکر ہوتی ہے اور نہ ہی وہ سماجی نظم کی پروا کرتے ہیں۔ ایسے بے ضمیر چینلوں کو سزا دینے کے لیے کڑے قانون بنائے جانے چاہئیں۔ اگر ایسے قانون بن گئے تو یہ چینلز ہر چرچا کو ریکارڈ کرکے پہلے نیوٹرل کریں گے اور پھر اسے اپنے ناظرین کو دکھائیں گے۔ اس سے بھی زیادہ افسوسناک کہانی نام نہاد سماجی میڈیا (سوشل میڈیا) کی ہے۔ اس کا نام ’سماجی‘ ہے لیکن یہ سب سے زیادہ ’غیرسماجی‘ ہو جاتا ہے۔ اگرچہ یہ اظہارِ خیال کی آزادی کا بے مثال فورم ہے لیکن اس کا جتنا غلط استعمال ہوتا ہے‘ کسی اور ذریعے کا نہیں ہوتا۔ اس کو کنٹرول کرنے کے لیے بھی کئی تدابیر کی جا سکتی ہیں۔ سرکار نے فحاشی کے خلاف توکچھ قابلِ تعریف قدم اٹھائے ہیں لیکن نفرت انگیز بیانات کے خلاف بھی سخت کارروائی کی ضرورت ہے۔ (بشکریہ: روزنامہ دنیا)