جمہوریت، آمریت اور معیشت

663

وزیراعظم شہباز شریف نے 10 معاونین خصوصی کو وزرائے مملکت کا درجہ دینے کی منظوری دے دی ہے اور کابینہ ڈویژن نے انہیں وزیر مملکت کا منصب عطا کرنے کا نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا ہے۔ وزیراعظم کے اس احسن اقدام سے ملک و ملت کو کتنا فائدہ ہوگا اس کا ذکر ہم آگے چل کر کرتے ہیں پہلے جمہوریت کی بات ہوجائے کہ یہی ہمارے ملک کی بنیاد ہے۔ آئین پاکستان میں ملک کا نام ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ درج ہے لیکن گزشتہ ستر پچھتر سال میں نہ تو ملک میں اسلامی نظام نافذ ہوسکا اور نہ ہی جمہوریت پنپ سکی، کیوں کہ بقول سیاست دانوں کہ ملک پر گاہے گاہے جمہوریت پر شب خون مار کر فوج اقتدار پر قابض ہوگئی جب کہ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سیاست دانوں کی غلطیاں ہی فوج کو دعوت فکر فراہم کرتی ہیں مگر اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ملک پر جب جب فوج نے اقتدار سنبھالا عوام الناس کی طرف سے انہیں پزیرائی ہی ملی اور پھر وہ عوام کے تعاون ہی سے اقتدار کو طول دیتے گئے۔ پاکستان میں جمہوری دور بلکہ عوامی جمہوری دور کی ابتدا ستر کی دہائی سے ہوتی ہے یا پھر یوں کہہ لیں کہ یہی ہمارا سن بلوغت بھی ہے مگر ہمارے پیش رو مانتے ہیں کہ سن ساٹھ کی دھائی میں فیلڈ مارشل جنرل محمد ایوب خان نے بھی صدارتی الیکشن کرائے تھے۔ اور ان کے مدمقابل بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح متحدہ حزب اختلاف کی مشترکہ امیدوار تھیں جب کہ آج کے دور کے جمہوری چمپئن کے آبائو اجداد نے جنرل ایوب خان کا کھل کر ساتھ دیا، صرف بانی جماعت اسلامی مولانا مودودی کے علاوہ سندھ سے جی ایم سید، سرحد (موجودہ کے پی) کے سرخ پوش لیڈر خان عبدالغفار خان اور مشرقی پاکستان سے شیخ مجیب الرحمن نے مادر ملت کا ساتھ دیا، نتیجے میں محترمہ فاطمہ جناح کو دھونس دھاندلی کے ذریعے انتہائی قلیل اکثریت سے شکست سے دوچار ہونا پڑا، مگر جلد ہی وہ عوام کے سیلاب کے سامنے اپنے اقتدار کو ڈوبتا دیکھ کر مارشل لا کے تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے جنرل یحییٰ خان کو اقتدار سونپ کر رخصت ہوئے۔
دسمبر 1970ء میں جنرل آغا محمد یحییٰ خان نے ملک میں پہلے صاف اور شفاف انتخابات کراکے تاریخ میں ایسا نام درج کرالیا مگر ان کی اس پرُخلوص کوشش کو پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے سبوتاژ کردیا اور محض 60 نشستوں کی بنیاد پر شیخ مجیب کی 160 کی برتری کی راہ میں ایسی رکاوٹیں ڈالیں کہ ملک ہی دولخت ہوگیا اور پھر بچے کھچے پاکستان کے خود پہلے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنے، پھر صدر اور آئین کی تکمیل کے بعد وزیراعظم پاکستان کہلائے۔ وزیراعظم بھٹو نے اعلیٰ کارکردگی اور ذہانت سے عوام کا تو اعتماد حاصل کرلیا مگر اپنے چند نادان دوستوں کی نادانیوں کی وجہ سے ناصرف اقتدار سے بلکہ جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑے اور یوں ملک پر ایک بار پھر ’’میرے ہم وطنوں‘‘ نے اقتدار کی مسندر سنبھالی۔ چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل ضیا الحق نے پہلے تو سیاست دانوں کی مشاورت سے مجلس شوریٰ کے ذریعے ملک چلانے کی کوشش کی پھر اقتدار کو طول دینے کی خاطر ’’غیر جماعتی‘‘ بنیاد پر انتخابات کراکے ملک کو جمہوریت کے راستے پر ڈال دیا۔ اس ’’غیر جماعتی‘‘ انتخابات میں ملک کی تمام ہی سیاسی جماعتوں نے نام بدل کر حصہ لیا۔ جنرل ضیا الحق ایک ہوائی حادثے میں شہید ہوئے تو اس وقت کے چیف آف اسٹاف جنرل اسلم بیگ نے مارشل لا کو تسلسل دینے کے بجائے اس وقت کے سینیٹ کے چیئرمین غلام اسحاق خان کو عہدہ صدارت پیش کردیا اور یوں جمہوریت کا سفر جاری رہا مگر اس کے بعد کا دور جمہوری تو ضرور تھا مگر یہ صرف دوشخصیات کے درمیان ’’میوزک چیز گیم‘‘ تھا کبھی بینظیر بھٹو وزیراعظم بنتی تو کبھی نواز شریف کرسی سنبھالتے اور آخر کار نواز شریف سے ایک سنگین غلطی ہوئی اور اقتدار پھر سے میرے ہم وطنوں کے ہاتھ آگیا۔
جنرل مشرف نے اقتدار سنبھالا تو پہلے ملک کو ’’مقامی حکومتوں کا نظام‘‘ سے چلایا پھر جنرل الیکشن کے بعد اقتدار کو طول دیتے گئے۔ اور یوں جمہوریت کی گاڑی چلتی رہی مگر کمانڈ جنرل کے ہاتھ میں رہی۔ اقتدار سے دوری سیاست دانوں کو اختلافات بھلانے کا موقع دیتی ہے۔ چناں چہ ملک سے مفرور دو شخصیات نے ’’میثاق جمہوریت‘‘ پر دستخط کیے اور جنرل کو گھر بلکہ ملک سے باہر جانا پڑا اور ملک پھر سے جمہوری راہ پر گامزن ہوگیا۔ سیاست دان فوجی دور کی جمہوریت کو آمریت کا نام دیتے ہیں جب کہ سیاست دانوں کی حکومت عوامی جمہوریت ہوتی ہے مگر ماہرین کا تجزیہ ہے کہ فوجی آمریت کے مقابل عوامی جمہوریت ملک کی معیشت پر بوجھ ثابت ہوئی ہے، کرپشن کا بازار گرم ہوجاتا ہے، عوامی نمائندوں کی کھلے عام فروخت اور بڑے بڑے سرکاری اداروں کی خریدو فروخت اور لوٹ مار سے عوام غربت کی سطح سے نیچے آتے چلے گئے اور حکمران بیرون ملک اثاثے بناتے گئے۔ حکمرانوں نے اقتدار سے چمٹنے کے لیے نئے نئے اتحاد بنائے اور پھر اقتدار کے تحفظ کی خاطر وزارتوں کی رشوت دی جاتی رہی۔ عمران خان کے دور میں کابینہ نے نصف سنچری مکمل کی تھی اور بیرون ملک سے مشیر امپورٹ کیے جو عمران خان کے اقتدار کو تو نہ بچا سکے البتہ معیشت کو تباہ و برباد کرکے واپس لوٹ گئے۔ پھر ایک تین رکنی (نواز لیگ، پیپلز پارٹی، جمعیت علما اسلام) اتحاد نے 10 چھوٹی موٹی پارٹیوں کو جمہوریت پر جمہوری انداز میں ’’شب خون‘‘ مارا اور اقتدار پر قابض ہوگئے۔ اقتدار ہاتھ میں آیا تو اتحادیوں نے مطالبات کے ڈھیر لگادیے اور یوں کابینہ کا حجم بڑھتا چلا گیا اور اس وقت کابینہ 75 افراد پر مشتمل ہے اور ابھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال فرماتے ہیں کابینہ بڑی نہیں ہے۔ صرف معاونین خصوصی کی تعداد زیادہ ہے مگر ہم انہیں کوئی زائد مراعات نہیں دے رہے تو پھر 10 معاونین خصوصی کو وزرائے مملکت کا درجہ دینے کی کیا ضرورت؟۔ وزیر مملکت کا درجہ دینے کا مطلب اب ان کو بھی مراعات ملیں گی، اس وقت ایک وزیر کا سالانہ خرچہ 16 کروڑ بنتا ہے جب کہ مفت کی بجلی، گیس، فون، موبائل بیلنس اور رہائش کے لیے سرکاری بنگلہ (اگر آپ سرکاری رہائش نہیں لینا چاہتے تو اس کے مساوی کرایہ مکان) مفت ہوائی ٹکٹ (جن کو ان کے لواحقین بھی استعمال کرسکتے ہیں) بیرون ملک فائیو اسٹار ہوٹل میں طعام و قیام کا انتظام بھی۔ ہم احسن اقبال سے صرف یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ کیا وہ ان 34 معاونین خصوصی کے شعبہ جات جانتے ہیں، یقین نہیں کہ یہ صرف سیاسی رشوت ہے جو بڑے لوگوں کو دی جاتی ہے اور ورکرز کے لیے مالیاتی اسکیمیں تیار کی جاتی ہیں۔ عمران خان نے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ہوتے ہوئے بھی احساس پروگرام جاری کیا تا کہ کارکنوں کو دوری کا احساس نہ ہو۔ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام میں ہزاروں جعلی اکائونٹ کی شہادت کے باوجود یہ نوازنے کا سلسلہ جاری ہے کیوں کہ پیپلز پارٹی کو اس پروگرام کے ذریعے غریب دیہاتیوں کے ووٹ خریدنے میں آسانی ہوتی ہے۔
اب ذرا اس ماہر معاشیات کی بات ہوجائے جو آئے تو تھے ملک کی معیشت درست کرنے مگر اپنی ساری توانائی اپنی عاقبت سنوانے میں لگادی اور نتیجے میں حکومت پاکستان نے ان کے اشتہاری مدت کی تنخواہ مبلغ 70 کروڑ روپے ان کو ادا کردیے۔ عدلیہ نے ان کے تمام قصور معاف کردیے اور نیب نے تمام اثاثے، بنگلے، جاگیریں، بینک اکائونٹس اور بقایا جات پر پابندیاں اٹھالیں۔ یہ ہیں ہمارے ملک کے امپورٹڈ وزیر خزانہ اسحاق ڈالر (ڈار) جو آئے تو تھے ڈالر کو استحکام دینے مگر خود مستحکم اور شاد آباد ہیں۔
یہ ہے جمہوریت کا حسن پھر بھی ہم کہتے ہیں کہ اگر جمہوریت سیاست دانوں کی مجبوری ہے تو پھر ملک سے پارلیمانی نظام (یعنی ڈبل ایوان) کے بجائے صدارتی نظام بحال کیا جائے اور سینیٹ کو تو ختم ہی کردینا چاہیے کہ پچاس سال میں یہ کوئی قابل قدر کارنامہ انجام نہ دے سکی، سوائے عوامی نمائندوں کی خریدو فروخت کے، اس عمل سے کچھ سیاستدان بیروزگار ضرور ہوں گے مگر ملکی معیشت پر اس کے مثبت اثرات پڑیں گے کہ اس وقت فی سینیٹر 4 لاکھ روپے ماہانہ کے علاوہ لاکھوں کی مراعات بھی لے رہا ہے اور اگر یہ بھی ممکن نہیں تو اراکین کی عمر کی حد اور تعلیم کا پیمانہ مقرر کیا جائے۔ بلدیاتی ادارے جمہوریت کی نرسری کہلاتے ہیں چناں چہ بلدیاتی کونسلر کی تعلیم مڈل چیئرمین وائس چیئرمین کی تعلیم میٹرک اور عمر 40 سال سے زائد نہ ہو۔ صوبائی اسمبلی کے رکن کی عمر 50 سال سے زائد نہ ہو اور تعلیم انٹر ہونی چاہیے۔ اراکین قومی اسمبلی کی عمر 60 سال سے زائد نہ ہو اور تعلیم گریجویٹ ہونا چاہیے۔ معزز ایوان سینیٹ جس کو ایوا بالا بھی کہا جاتا ہے اس کے ارکان کی عمر 50 اور 70 سال کے درمیان ہونی چاہیے اور ایوان کے وقار کے مدنظر تعلیم ماسٹر (MA) کی ڈگری لازمی شرط ہو، کیا یہ ممکن ہے نہیں تو پھر یہ سب باتیں لفاظی ہی ہیں مگر ہم اپنے قلم کے ہاتھوں مجبور ہیں کہ: جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے۔