نیچے جاتی معیشت، اوپر جا تی مہنگائی

657

ملکی معیشت کی ابتر صورتحال کسی سے مخفی نہیں، آئے روز کوئی ایسی نئی خبر سامنے آ جاتی ہے جو ڈیفالٹ کے خطرے کی گونج میں اضافے کا سبب بنتی ہے۔ یہ خبر کہ متحدہ عرب امارات کے بینکوں کا قرضہ لوٹانے کے بعد ملکی زرِمبادلہ کے ذخائر مزید کم ہو کر محض ساڑھے چار ارب ڈالر رہ گئے ہیں نہ صرف معاشی خدشات کو دوچند کرنے کا سبب بن رہی ہے بلکہ پوری قوم اس کے سبب اضطراب میں مبتلا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اب ادویات، خوراک اور توانائی جیسی اہم اشیا کی ادائیگیاں بھی نہیں کی جا سکیں گی۔ ایسے میں وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ پاکستان کے زرِمبادلہ کے ذخائر 4نہیں 10 ارب ڈالر ہیں کمرشل بینکوں کے پاس موجود 6 ارب ڈالر بھی پاکستان کے ہیں۔ غالباً وزیر خزانہ زمینی حقائق سے آگاہ نہیں ہیں کہ انٹربینک اور اوپن مارکیٹ کے واضح تفاوت کے بعد اب بینک بھی تمام بین الاقوامی لین دین اوپن مارکیٹ ریٹ پر کرنے بارے غور کر رہے ہیں۔
ملکی معیشت کا المیہ اگر ایک نکتے میں بیان کیا جائے تو وہ یہی ہے کہ طویل المدت پالیسی کے بجائے جز وقتی اقدامات پر انحصار کیا جاتا ہے۔ گزشتہ ساڑھے سات دہائیوں کی ملکی تاریخ میں معاشی اصلاح کا بھاری پتھر اٹھانے کے بجائے محمود کی پگڑی حامد کے سر کے مصداق مزید غیر ملکی قرضے لے کر پرانے قرضے اتارنے کی ڈنگ ٹپائو پالیسی اپنائی جاتی رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ بیرونی قرض جو 2015ء میں 65ارب ڈالر تھا محض سات سال میں بڑھ کر دو گنا ہو چکا ہے۔ اماراتی بینکوں کا قرض اتارنے سے ایک مشکل مرحلہ تو حل ہو گیا ہے مگر یہ ایک دریا کے بعد اک اور دریا کا سامنا تھا والا معاملہ ہے۔ اس وقت کراچی کی بندرگاہ پر ہزاروں شپنگ کنٹینرز رکے ہوئے ہیں کیونکہ بینک غیر ملکی زرِمبادلہ کی ادائیگیوں کی ضمانت دینے سے قاصر ہیں۔ حکومت یہ تسلیاں دے رہی ہے کہ ڈیفالٹ کا کوئی خطرہ نہیں ہے مگر سوال یہ ہے کہ پُرتعیش اشیا پر تو پابندی لگائی جا سکتی ہے ضروری طبی سامان اور جان بچانے والی ادویات کی درآمد کو کب تک روک کر رکھا جا سکتا ہے؟ گزشتہ دو ماہ سے اوپن مارکیٹ میں ڈالر ناپید ہو چکا ہے۔ چند ہفتے قبل وزیر مملکت برائے خزانہ عائشہ غوث پاشا نے زرِمبادلہ کے پائپ لائن میں ہونے کی نوید سناتے ہوئے کہا تھا کہ جنوری میں بیرونی سرمایہ کاری شروع ہو جائے گی سعودی عرب اور چین کے ساتھ معاملات آگے بڑھ رہے ہیں، تاہم ابھی تک ایسی کوئی پیش رفت سامنے نہیں آ سکی۔ اگر برآمدات اور ترسیلاتِ زر کے نتیجے میں کچھ زرِمبادلہ آ رہا ہے تو اسے بھی مارکیٹ سے غائب کیا جا رہا ہے۔ ایسا کیونکر ہو رہا ہے اس کے پیچھے کون سے عناصر کام کر رہے ہیں حکومت کو ان امور کا پتا لگانا چاہیے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ڈنگ ٹپائو پالیسیوں کے بجائے طویل المدت اصلاحی ایجنڈا بروئے کار لایا جائے۔ نئے قرضے لے کر معیشت کی گاڑی کو زیادہ دیر تک نہیں گھسیٹا جا سکتا۔
ایشیائی ترقیاتی بینک پاکستان میں معاشی ترقی کی شرح کے 1.4فی صد رہنے کا تخمینہ پیش کر رہا ہے جبکہ پوری دنیا میں مہنگائی کی شرح مزید بڑھنے کی تنبیہ بھی کی جا رہی ہے۔ آنے والے دن مزید دشوار ہو سکتے ہیں اس لیے ضروری ہے کہ ابھی سے پیش بندی کی جائے اور ایسی دیرپا اور مستحکم پالیسیاں اپنائی جائیں جو چھوٹے موٹے دھچکوں کو برداشت کرنے کے قابل ہوں۔ وگرنہ اشیائے خورونوش کی آسمان سے باتیں کرتی قیمتیں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ یہ کہ اشیائے خورو نوش کی مہنگائی کو اگر اس وقت قومی مسئلہ قرار دیا جائے تو یہ غلط نہ ہو گا۔ آٹا جو ہمارے ہاں خوراک کا بنیادی جز ہے اس کے دام روزانہ کی بنیاد پر بڑھ رہے ہیں۔ حکومت کی جانب سے عوام کو رعایتی نرخوں پر آٹا فراہم کرنے کے انتظامات کہنے کو موجود ہیں مگر عملاً ان کی افادیت کہیں نظر نہیں آ رہی بازار میں آٹے کے نرخ سرکاری مقررہ نرخوں سے دوگنا ہو چکے ہیں۔ حکومت فلور ملوں کو سبسڈی پر گندم فراہم کر رہی ہے تو فلور ملوں سے آٹا کیوں نہیں مل رہا؟ اور اگر فلور ملیں آٹا دے رہی ہیں تو وہ کہاں جا رہا ہے؟ البتہ گندم کے کوٹے اور آٹے کی سپلائی میں بدعنوانی کے شواہد پر مبنی خبریں تقریباً روزانہ کی بنیاد پر آ رہی ہیں۔
حالات اچانک یہاں تک نہیں پہنچے۔ مگر پچھلے سال بھر سے سیاسی ترجیحات میں عوامی مفاد کسی درجے میں نظر نہیں آتا۔ اس عرصے میں سیاسی جوڑ توڑ سیاستدانوں کی ترجیح رہی ہے اور اسی اُدھیڑ بن کے نتائج عوام کو خوراک بے پناہ مہنگائی کی صورت میں بھگتنا پڑ رہے ہیں۔ ملکی معیشت روزانہ کی بنیاد پر تحلیل ہو رہی ہے اور بنیادی ضروریات عوامی پہنچ سے نکل چکی ہیں مگر سیاسی رہنماؤں کے لیے ان مسائل کی اہمیت سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے مواد سے بڑھ کر نہیں۔ آج آٹے کا جو بحران شدت اختیار کر چکا ہے اس کی جڑیں گزشتہ برس گندم کی کم پیداوار میں ملیں گی۔ گزشتہ برس دو کروڑ 89لاکھ ٹن گندم کی پیداوار کا ہدف مقرر کیا گیا تھا مگر ہدف سے قریب بیس لاکھ ٹن کم گندم پیدا ہوئی یہ کمی درآمدی گندم سے پوری کی جانی تھی مگر یوکرین جنگ کی وجہ سے گندم کی عالمی مارکیٹ متاثر ہوئی اور 2021ء کے مقابلے میں گزشتہ برس عالمی سطح پر گندم کی اوسط قیمت 15.6فی صد زیادہ رہی جبکہ اس دوران ہمارے ملک کے مالی حالات بھی غیر مستحکم رہے؛ چنانچہ ملکی ضرورت کی گندم کی خریداری کا عمل متاثر ہوا۔ بہرحال آٹے کا بحران ہمارے زرعی معیشت کے دعووں کی قلعی کھولتا ہے۔ زراعت حکمرانوں کی ترجیحات میں ہمیشہ بہت پست درجے میں رہی ہے اور اس کا نتیجہ خوراک کے بحران اور مہنگائی کی صورت میں نکلتا ہے۔ ہمارا کاشت کار گندم کی کاشت کے دنوں میں کھاد سے محروم ہوتا ہے تو پیداوار پر اس کا اثر پڑنا یقینی ہے۔ اس وقت خوراک اور توانائی کی مہنگائی عوامی معیشت کا سب سے بڑا مسئلہ ہے اور یہ دونوں شعبے انتظامی صلاحیت اور شفافیت کے متقاضی ہیں۔ خوراک کے نرخوں کے تعین میں اگر حکومت اپنا کردار ادا کرے جس طرح دنیا بھر کی حکومتیں کرتی ہیں تو بے یقینی کی یہ صورت بڑی حد تک سلجھ سکتی ہے جبکہ توانائی کے معاملے میں بھی ضیاع اور چوری روکنے اور وصولی کے نظام کو بہتر بنا کر مسائل میں کمی کی جا سکتی ہے۔