غیروں سے کیا شکوہ

472

ہم اکثر مغرب سے شاکی رہتے ہیں، ان کی تہذیب کو فرسودہ، فحش سمجھتے ہوئے معاشرتی اقدار کو تباہی کے دوراہے پر گامزن خیال کرتے ہیں، حالاں کہ اگر نیک نیتی کے ساتھ مغرب کا جائزہ لیں تو اخلاقی بے راہ روی ان کے ہاں سرائیت کرچکی ہے مگر معاشرتی اعتبار سے انہوں نے خاصی ترقی کی ہے۔ انسانی حقوق اور قانون کی پابندی ان کے یہاں بلند مقام پر ہے۔ سائنسی ترقی کا تو کہنا ہی کیا؟ وہ جو کبھی اقبال کا تصور تھا کہ ’’ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں‘‘۔ اس کی حقیقی تصویر کی دیگر ستاروں اور سیاروں پر کمند ڈالنے کی خبریں آتی ہیں۔ وہ جو کبھی کہا جاتا تھا کہ ’’آسمان پر تھگلی لگائے گا‘‘ اس کا حقیقی روپ آج کی سائنسی ترقی میں دیکھا جاسکتا ہے۔ یہی نہیں بیماریوں کے حوالے سے پنسلین کی ایجاد نے جو انقلاب برپا کیا تھا وہ اب قصہ پارینہ ہے۔ آج تو اینٹی بائیوٹیک کی چوتھی جنریشن عام استعمال میں ہے، البتہ کینسر، ایچ آئی وی ایڈز کے بارے میں تحقیق جاری ہے۔ کمپیوٹر کی ترقی نے دُنیا کو گلوبل ولیج بنادیا ہے۔ ہم ان تمام فوائد کو نظر انداز کرکے مغرب کی کامیوں پر نظر کرتے ہیں۔
سرسید احمد خان نے انگلستان جا کر وہاں کی ترقی کا جائزہ لیا۔ واپسی پر اپنا مشہور رسالہ ’’تہذیب الاخلاق‘‘ جاری کیا جس کے ذریعے وہ اصلاحی اور مقصدی موضوعات پر مضامین پیش کرتے رہے۔ آج بھی سرسید کو جدید اردو نثر کا اولین شہہ سوار جانتے ہوئے اردو کے درسی نصاب میں اہم مقام حاصل ہے۔ ان کی مشہور تحاریر، اپنی مدد آپ، گزار ہوا زمانہ، امید کی خوشی، رسم و رواج کی پابندی کے نقصانات وغیرہ آج بھی درسی نصاب میں شامل ہیں مگر افسوس! ہمارے طلبہ محض امتحانی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کا مطالعہ کرتے ہیں۔ کبھی انہیں سمجھنے اور معاشرے پر ان کا اطلاق کرنے کی ضرورت اور حقیقی کوشش نہیں کی گئی، یہی وجہ ہے کہ ہم پڑھنے اور پڑھ کر گزر جانے کی کیفیت میں رہتے ہیں، کسی چیز کو شعوری طور پر نہ سمجھنے کی وجہ سے ہم اس کے ثمرات سے محروم رہتے ہیں۔ یہ تو محض درسی کتب کی بات ہے۔
ہمارا رویہ مذہبی اعتبار سے بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں۔ اپنے بچوں کو قرآن کریم ناظرہ پڑھانے اور زیادہ سے زیادہ اسے حفظ کرادینے پر اکتفا کرتے ہیں۔ شاید ہی ایسے گھرانے موجود ہوں جہاں قرآن کریم کو باترجمہ یا تفسیر پڑھنے کی روایت ہو جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جب ہمارے نوجوان کسی دوسرے مذہب کی کتب کا مطالعہ کرتے ہوئے اخلاقی روایات اور معاشرتی اقدار پر بات کرتے ہوئے مرعوبیت کا شکار ہوجاتے ہیں تو اس موقع پر ان کی اور ان کے والدین کی کوتاہ اندیشی پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے کہ جن کی غفلت اور لاپروائی انہیں اسلام کے مکمل نظام حیات سے ناواقف رکھنے کا باعث بنی۔ آج بھی ہمارے نوجوان مغرب کی ترقی اور خیرہ کردینے والی چمک دمک میں یا تو آنکھیں موند لیتے ہیں یا چکا چوند کیفیت میں ان کی آنکھیں کھلی تو ہوتی ہیں مگر دیکھنے کی صلاحیت ماند پڑجاتی ہے، نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہم خوبیوں کو بھول کر خامیوں پر انگلی اٹھانے میں عافیت جانتے ہیں۔
کبھی آپ نے غور کیا کہ ہم میں کس قدر معاشرتی برائیاں ہیں؟ جہاں جی چاہتا ہے تھوک دیتے ہیں۔ حد یہ ہے کہ موٹر سائیکل سوار اور بسوں میں بیٹھے مسافر کھڑکیوں سے پان کی پیک تھوک کر پیدل چلنے والے یا پیچھے آنے والوں کے لیے کیا مشکلات کھڑی کرتے ہیں۔ اکثر فلیٹوں سے کوڑا کرکٹ باہر پھینک دینا یا فرش دھو کر گلی میں پانی بہانا ہماری جبلت میں شامل ہے۔ بالخصوص عید سے ایک رات قبل اپنے گھر کو صاف کرکے گلی میں پانی اور گندگی پھیلانا اس تصور سے بالاتر ہو کر کہ صبح انہی گزرگاہوں سے نماز کی ادائیگی کے لیے لوگ نئے نئے کپڑے پہن کر گزریں گے۔ یہ اور ایسی بے شمار اخلاقی کمزوریاں ہماری معاشرتی، سماجی اور تہذیبی اقدار کو تباہ کررہی ہیں، ہم بلاوجہ دوسروں پر تنقید کرنے کے بجائے اپنے اندر وہ اوصاف پیدا کریں جو ہماری اسلامی روایات کی امین ہوں کہ مسلمان صفائی کو نصف ایمان جانتے ہیں اور یہ چیز ہم میں ناپید ہوتی جاتی ہے۔ کیا نصف ایمان کے ساتھ ہم اپنے دین پر عمل پیرا ہونے کے صحیح دعویدار ہوسکتے ہیں؟ کیا شرافت، پاکیزگی اور معاشرتی بھلائی کے کاموں سے روکنے کے لیے اہل مغرب نے ہمارے ہاتھ پکڑے ہوئے ہیں؟ یقینا ایسا نہیں ہے۔ بلکہ ہمارے ہاتھ ترقی کی منازل طے کرنے کے لیے بھی نہیں جکڑے گئے۔ اس وسیع دنیا میں ہر انسان آزاد ہے اور اس کی ماں نے اسے آزاد جنا۔ اس حیثیت میں ترقی اور کامیابی کی راہوں پر گامزن رہنے کے لیے سب کے لیے راستے کھلے ہیں۔ اہل مغرب نے پہلے معاشرے میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون اور دُکھ درد میں ساتھ دے کر اچھی روایات کو فروغ دیا تھا۔ حکومت اور انتظامیہ پر انحصار کرنے کے بجائے اپنے مسائل حل کرنے کے لیے اپنی حد تک کوشش کرنا ان کا طریقہ رہا آج وہ لوگ مہذب اور انسانی حقوق کے علمبردار، قانون کے پاسدار سمجھے جاتے ہیں اور ہم پر دہشت گرد، متعصب اور جاہل ہونے کا دھبہ لگا ہے۔ کیا ہم خود اس سے بچانے کے لیے تیار ہیں؟۔