ضرورت ہے درست ترجیحات کی، اخلاصِ نیت اور ایمان داری کی، بس اب موقع ملا ہے تو اس کو ہرصورت استعمال کرنا ہے، کسی بھی وجہ سے ضائع نہیں کرنا۔ پاکستان کو بدلنا ہے تو کراچی کو بدلیں۔ کراچی بدل گیا تو پاکستان بدل جائے گا۔ کراچی کی تعمیر نو پاکستان کے لیے اُمید ہے، اور پاکستان کی تعمیر نو ہے۔ پی ٹی آئی کی حکومت آئی تو عمران خان نے بڑے بڑے دعوے اور وعدوں کے ساتھ اہل کراچی کو اُمید دلائی تھی، ٹرانسفارمیشن آف پاکستان کے خواب دکھائے، افسوس کے اس خواب کی تعبیر عین اُسی طرح نکلی جیسی کہ پی پی اور مسلم لیگ (ن) کے دکھائے گئے خوابوں کی تعبیر نکلی تھی۔ کراچی جو عروس البلاد کہلاتا تھا خوبصورت صبحوں، مہکتی شاموں اور جگمگاتی راتوں سے سجا یہ شہر لوگوں کے خوابوں کا مرکز تھا۔ اس شہر کے مکین اس پر فخر کرتے، ہر ایک ماں کی طرح تحفظ فراہم کرتا۔ یہاں کوئی بھوکا نہیں سوتا، محنت کرنے والا بھرپور معاوضہ پاتا، ہر ایک کے لیے روٹی بھی تھی اور تحفظ بھی تھا، پھر تعصب کے زہر نے اس کی فضا کو زہریلا کردیا، روز دسیوں لاشیں گرتیں، عالم یہ کہ حکومت میں بیٹھی جماعتیں ایک دوسرے پر قتل و غارت گری کا الزام لگاتیں، ایک دوسرے کے خلاف بیان دیتیں اور دوسرے دن گلے لگ کر مفادات سمیٹیں، مال و مفاد کا ایلفی ایسا کہ جوڑ ٹوٹ نہیں پاتا اور حکومت کی چھتری تلے متحد رہنے پر مجبور رکھتا۔ مفاہمت کی یہ سیاست ایسی سفاک کہ جس میں کلیم کی جانے والی لاشوں کی گنتی سب سے اہم ہوتی معاملہ کچھ یوں تھا کہ ؎
ترا پیشہ ہے سفاکی، مرا پیشہ ہے سفاکی
کہ ہم قزاق ہیں دونوں تو وفاقی میں صوبائی
یہ علٰیحدگی کی دھمکی دیتے اور وہ آپریشن کی دھمکی، لیکن معاملہ کراچی کے عوام کے گلے میں اٹکا رہتا، اس دوران عوام کا شکار چڑیوں کی طرح جاری رہتا۔ مرحوم رحمن ملک نائن زیرو پر آکر مفاہمت کا بین بجاتے اور دہشت گردی کے کالے ناگ کو کچھ دن کے لیے ٹوکری میں بند کرنے میں کامیاب ہوجاتے، لیکن چند ہی دن میں وہ پھر باہر ہوتا اور مطالبات کی ایک طویل فہرست ہاتھوں میں لیے کوئے اقتدار کے چکر لگنے لگتے، پھر ٹی وی اسکرین پر ایک دوسرے کے ڈیتھ اسکواڈ کا انکشاف کیا جانے لگا۔ ساتھ ساتھ ہی عوام کی تشدد زدہ لاشیں ایک دوسرے کے علاقوں میں گرائی جانے لگتیں۔ یہ عوامی رہنما سیکورٹی فورسز کے ایک جم غفیر میں سڑکوں پر نکلتے کہ ایک دوسرے کے ہیڈ کوارٹروں میں مفاہمت پر مذاکرات ہوتے لیکن ان مذاکرات سے عوام کو کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ انہیں تو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا جاتا۔ شہر کراچی نے ایک طویل عرصہ یوں گزارا کہ لوگ قتل ہوئے، بھتے کے ذریعے رقوم سمیٹی جاتی، اغوا برائے تاوان کے مجرم تاجروں کو دھمکاتے، خوف و دہشت کا عفریت چھایا رہتا۔ اس میں معیشت کا بُرا حال ہوتا پھر آپریشن کا غلغلہ اُٹھتا۔ ایک طویل تاریخ ہے کہ انتہا درجے کی بدامنی، قتل و غارت، ہڑتالوں اور دہشت گردی کے بعد آپریشن ہوتا۔ مجرم اِدھر اُدھر ہوجاتے، شہری اور تاجر خوش ہوتے کہ ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ رُکا۔ بھتے کی پرچیاں آنی بند ہوئیں، شہر میں گہما گہمی شروع ہوتی بازار کھلتے اور کاروبار کچھ چل نکلتے، لیکن یہ عارضی ہوتا جلد ہی مجرم اپنے مقاصد کو پورا کرنے کے لیے دوبارہ میدان میں ہوتے۔ پس پردہ سیاسی عناصر اپنے اپنے مفادات سمیٹ کر پھر اپنی سیاست چمکانے میں لگ جاتے اور وہی سارے سلسلے دوبارہ چل نکلتے۔ قزاقوں کے روپ میں کراچی کے مسیحا زخموں سے لہولہان کراچی کا ماتم کرتے میڈیا پر آکر خوب سوالات اُٹھاتے۔ مثلاً کون مجرموں کو تحفظ دیتا ہے؟ کراچی کی زمینوں پر کس کا حق ہے؟ اور کون قبضے کررہا ہے؟ کراچی کا پانی کہاں جارہا ہے اور کس کو استعمال کرنا چاہیے؟ یہ سوال تو میڈیا کو ان ہی سے پوچھنے تھے جو عشروں حکومت میں بیٹھے تھے لیکن میڈیا کی ہمت بھلا کہاں؟ اب پھر یہی مفادات سمیٹنے والے پھر کوئی نئی برانڈ کی ایلفی اور صمد بونڈ لے کر نکلے ہیں کہ کراچی پر اس ٹولے کو دوبارہ اقتدار میں لانا ہے لیکن اب نہیں۔ اب کراچی کے عوام حافظ نعیم الرحمن کے ساتھ ہیں یہی کراچی کے عوام کا اعلان ہے۔