بھوکا بنگالی، غدار بنگالی، بوجھ بنگالی

619

ساٹھ کی دہائی میں بنگالیوں کو یہ القابات بلکہ تضحیک بھرے لہجے میں طعنے دینے والے پاکستان کی اشرافیہ کے منہ پر طمانچہ ہیں۔ وہی بھوکے غدار بوجھ… آج ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے ایشین ٹائیگر بن گئے ہیں۔ بنگالیوں نے سبق بھی سکھا دیا اور یہ باور کرادیا کہ بنگالی نہ بھوکا تھا، نہ غدار تھا، نہ بوجھ تھا حالانکہ اسی بنگالی نے پاکستانی معیشت کو سہارا دے رکھا تھا جبکہ مغربی پاکستان کے تمام اسٹیک ہولڈرز یہ سمجھنے سے قاصر رہے کہ آخر کیا وجہ تھی کہ جب مشرقی پاکستان ہمارے ساتھ تھا تو ملکی ترقی میں اس کا کتنا بڑا حصہ تھا۔ مغربی پاکستان کی اشرافیہ یہ سمجھتی رہی کہ ہمارے پاس دنیا کا بہترین نظام آبپاشی ہے تو پھر فکر کس بات کی، ہم ایک زرعی ملک ہیں ہمارے پاس کھانے کو بہت کچھ ہے اس لیے مشرقی پاکستان کو بوجھ کہنا شروع کردیا۔ تاریخی حقائق سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ مغربی پاکستان کی اشرافیہ کے ایک بہت بڑے طبقے نے مشرقی پاکستان کو دل سے تسلیم ہی نہیں کیا تھا اور وہ روز اوّل ہی سے اس سے جان چھڑانا چاہ رہے تھے۔ اور یہی وجہ تھی کہ دنیا کا کمزور ترین انتظامی و عسکری ڈھانچہ تشکیل دیا کہ ساری دنیا حیران رہ گئی۔ مقصد یہ تھا کہ بھارت کا خونخوار درندہ کسی بھی وقت اس میمنے کو ہڑپ کرجائے۔ اور ہوا بھی اس کے عین مطابق۔
پاکستان سے محبت کرنے والی اسلامی جماعتوں کو پیچھے دھکیل کر ایک نومولود پیپلز پارٹی کو آگے لایا گیا جس نے اسکرپٹ کے مطابق اپنا کردار ادا کرتے ہوئے مشرقی پاکستان کی علٰیحدگی کی بنیاد ڈالی۔ انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ جتنی بھی کتابیں مضامین و مقالے سقوط ڈھاکا پر لکھے جا رہے ہیں ان لکھنے والوں میں دہریے، سیکولر، فوجی غیر فوجی، صحافی، دانشور، اسلامی ذہن کے مذہبی اکابرین شامل ہیں سب ایک صف میں کھڑے نظر آتے ہیں اور سب کی سوئی بارہ سے شروع ہو کر گیارہ پر ختم ہوجاتی ہے مطلب کہنے کا یہ ہے کہ سقوط ڈھاکہ اور علٰیحدگی کی کہانیاں صرف تین تا پانچ سال یعنی 1968 تا1971کے درمیان ہی گھومتی نظر آتی ہیں جو تاریخ کو مسخ کرنے کے مترادف ہے بلکہ آنے والی نسلوں کو یہ باور کرانا مقصود ہے کہ مشرقی پاکستان سے مغربی پاکستان کا کوئی تعلق سرے سے تھا ہی نہیں حالانکہ پاکستان کی جنم بھومی بنگال ہی میں تھی۔ مگر گزشتہ پچیس سال جب تک مشرقی پاکستان ہمارا دست و بازو بنا رہا اس دوران وہاں کیا کچھ ہوتا رہا، کیسی کیسی سازشیں ہوتی رہیں، بنگال کی نوجوان نسل کی ذہنی ساخت کس طرف جاتی رہی، اس نسل کا جھکائو کس طرف ہوتا رہا، وہ کس طرح بھارتی سانچے میں ڈھلتا رہا، اسکولوں کالجوں اور یونیورسیٹیوں میں بھارت کے ایجنٹ کس طرح پاکستان کے خلاف بنگالیوں کی ذہن سازی کرتے رہے۔ نہ کسی محب وطن حلقے نے نہ کسی مذہبی طبقے نے اس طرف توجہ دی یا دلائی نہ ہی حکومت میں شامل ایک مخصوص ’’محب وطن‘‘ لابی نے اس کے ازالے کے لیے کچھ کرنے کی زحمت گوارہ کی۔ کیا جان بوجھ کر ایسا کیا گیا کہ بھارت جو کھیل کھیلنا چاہے کھیلتا رہے تاکہ اس بوجھ کو اتارنے میں آسانی ہو تو کیا یہ مجرمانہ غفلت نہیں اور اس وقت کے اسٹیک ہولڈرز کو تاریخ کے کٹہرے میں نہیں لا کھڑا کرنا چاہیے۔
ایک اور نکتے کی بات یہ ہے کہ بنگالی نوجوانوں، بنگالی دینی طبقوں، بنگالی دانشوروں پر مغربی پاکستان کے دروازے بند تھے مطلب یہ کہ کوئی مشترکہ سیمینار، پروجیکٹ، طلبہ کے پروگرام، سرکاری و نجی سطح پر کسی قسم کی تقریب، کاروباری وصنعتی ہم آہنگی کے لیے مل بیٹھنے کی کوئی نشست یہاں تک کہ مذہبی و دینی طبقات کی تقریبات بھی منعقد نہیں ہوا کرتی تھیں۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ جس بنگال میں مسلم لیگ اور پاکستان کے حق میں پہلا ووٹ پڑا اور شیخ مجیب الرحمن مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کا چیف پولنگ ایجنٹ بنا اسی بنگالی کو مغربی پاکستان میں اچھوت بنا دیا گیا جس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ پڑھے لکھے طبقے میں بنگالیوں کے بارے میں کوئی مثبت رائے قائم نہ ہو سکی بلکہ منفی پروپیگنڈے کے ذریعے ان بنگالیوں کی کمتر سطح کی منظر کشی کی جاتی رہی۔ جب پڑھے لکھے طبقے کو بنگالی کے خلاف کردیا گیا تو غیر پڑھے لکھے اور کم تعلیم یافتہ طبقے سے بنگال کی قربت کی رسی ڈھیلی پڑتی گئی اس لیے سقوط ڈھاکہ پر ماسوائے جماعت اسلامی یا معدود چند دینی فکر رکھنے والے طبقے کے ہر ایک نے اس سانحہ عظیم پر کسی قسم کا رد عمل ظاہر نہیں کیا۔
آج لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ جس بنگالی کو بھوکا، غدار اور نہ جانے کن کن القابات سے نوازا جاتا رہا اور بھپتیاں کسی جاتی رہیں وہ آج ایشین ٹائیگر بن گیا ہے اور جو خون ناحق مغربی پاکستان کی محلاتی سازشوں کے طفیل بہایا گیا وہ خون آج رنگ دکھا رہا ہے۔ مظلوموں کی آہیں عرش کو ہلا رہی ہیں کہ مغربی پاکستان روٹی کے لیے در بدر مارا مارا پھر رہا ہے۔ کل وقتی فقیر، بھکاری، عالمی گداگر کی حیثیت سے دنیا کی ٹھوکروں میں پڑا ذلیل و رسوا ہورہا ہے۔ یہ بھی تاریخ کا افسوسناک سبق ہے کہ بھائی پر ظلم کرنے اور کرانے والا کبھی سکھی نہیں رہ سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ مشرقی پاکستان کی علٰیحدگی کے بعد سے پاکستان بری طرح زوال پزیر ہے اور آج دنیا کے نقشے پر تضحیک اور ذلت بھرے وجود کے ساتھ نظر آتا ہے۔