کراچی والو! سوچ سمجھ کر

685

مجھے لاہور کے دوسری کالونیوں کا تو علم نہیں لیکن میری رہائش جس کالونی میں ہے وہاں ایک بڑی تعداد کراچی سے ہجرت کرنے والے لوگوں کی ہے جو برسوں کراچی میں رہنے کے بعد اپنے گھر بار اور املاک کو چھوڑ کر یا اونے پونے بیچ کر صرف اپنی اور اپنے پیاروں کی زندگیاں بچانے کے لیے لاہور اور پاکستان کے دوسرے صوبے یا شہروں میں پناہ گزیں ہو گئے۔ ہجرت کا عمل نہ صرف جسمانی بلکہ نفسیاتی لحاظ سے بھی دشوارگزار عمل ہوتا ہے اور زیادہ تر ہجرت اس وقت ہی کی جاتی ہے جب ایک جگہ پر نہ صرف مذہب، مال بلکہ جانیں بھی غیر محفوظ ہو جائیں۔ تقریباً یہی صورت حال کراچی میں بھی پیدا کردی گئی تھی۔ اس صورتحال کو پیدا کرنے میں ایجنڈا بے شک دشمنوں کا تھا لیکن ہاتھ ہمارے اپنے لوگوں کے استعمال ہورہے تھے۔ یہ زیادہ دور کی بات نہیں بلکہ قریبی ماضی کی ہے، جب لوگوں نے نمازیں تک گھروں میں پڑھنی شروع کردیں تھیں۔ مساجد میں جاتے بھی تو خوف زدہ ہو کر اور کئی راستے میں غنڈہ گردی کا شکار ہو جاتے۔ لوگوں کی فیکٹریاں بھی جلائی گئیں بلکہ کئی فیکٹریوں میں ساتھ زندہ انسان بھی جلے۔ چوری، ڈکیتی عام ہو گئی، بھتا وصولی عروج پکڑ گئی، جو نہ دیتا وہ مارا جاتا یا پکڑا جاتا۔ اغواہ برائے تاوان اور اغوا برائے جان بھی عام ہوگیا۔ غنڈہ گرد عناصر نے ناصرف پارٹی بلکہ اپنے ذاتی فائدے بھی خوب اٹھائے۔ وہ آپس میں ساز باز کرکے، ایک فرد اپنے ساتھ چند لوگوں کو ملا کر سخت قسم کی دھمکیوں کے ساتھ عوام کو دھمکاتا اور دوسرا فرد ان کی املاک انتہائی سستے داموں خریدنے کے لیے اپنے آپ کو پیش کر دیتا۔ یعنی منفی عناصر نے مال مفت دل بے رحم کی مانند خوب لوٹ کھسوٹ مچائی۔ اس دور میں لوگوں کے مال، جانیں، سب کچھ داؤ پر تھے۔ کراچی کے کچھ لوگوں نے تو ان مصائب کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور جم کر وہیں بیٹھے رہے اور کچھ متاثرین خوفزدہ ہوکر ہجرت کی طرف مائل ہو گئے۔
الحمدللہ پھر کراچی پر اللہ تعالیٰ کا فضل ہوا اور یہ شہر اس سخت گیر گرداب سے آہستہ آہستہ نکلا لیکن کراچی ابھی بھی وہ خوابوں کا شہر نہیں بنا جو بننا اس کا حق ہے۔ کراچی کی اہمیت اپنی تاریخی لحاظ سے بھی واضح ہے۔ اس کے باوجود ابھی بھی یہ شہر بہت سے مسائل میں گھرا ہوا ہے۔ اس کے حالات بھی پاکستان کے دوسرے شہروں سے کچھ مختلف نہیں۔ کراچی کو بابائے قوم کا شہر بھی کہا جاتا ہے۔ اس لیے اس شہر کا حق ہے کہ اس کی تعمیر نو اور اسے گلستان بنانے کے لیے کسی ایسے ذمے دار شخص کے ہاتھ میں اس کا انتظام پکڑائیں جو اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والا ہو، اپنے اختیار کا استعمال اور ذمے داری کی ادائیگی میں سیدنا عمر بن خطاب کے نقشے قدم پر چلنے والا ہو، صرف تاجروں اور سرمایہ کاروں کی فکر میں گھلنے والا نہ ہو بلکہ اسے کسانوں، مزدوروں، مچھیروں، مرد ، خواتین، بچوں، غرض کہ ہر ذی روح کی فکر ہو۔
کراچی میں ان دنوں بلدیاتی انتخابات کی تیاری بھی زور و شور سے جاری ہے۔ اس انتخابات کو پہلے بھی کسی نہ کسی مسئلے کو وجہ بنا کر ملتوی رکھا گیا ہے اور اب بھی کچھ لوگوں کی ملتوی کرنے کی کوشش ہے۔ دوسری طرف ایم کیو ایم نے بلدیاتی الیکشن، نئی ووٹر فہرستوں پر کروانے کی درخواست جمع کرائی تھی جسے الیکشن کمیشن پاکستان نے مسترد کردیا تھا کیونکہ یہ ووٹر فہرستیں من مرضی کے پیش نظر بنائی گئی تھیں۔ اس ضمن میں چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے جماعت اسلامی کی درخواست منظور کر لی اور کہا کہ کراچی، حیدرآباد اور ٹھٹھہ میں بلدیاتی انتخابات 15 جنوری کو پرانی ووٹر فہرستوں پر ہی ہوں گے۔ اب ان شاء اللہ توقع ہے کہ 15 جنوری 2023ء کو یہ انتخابات ہو ہی جائیں گے۔ کراچی کے میئر کے امیدواروں میں امتیازی اور روشن نام ’’حافظ نعیم الرحمن‘‘ کا نظر آرہا ہے جو جماعت اسلامی کراچی کے امیر بھی ہیں۔ اہل ِ کراچی اس سے پہلے جماعت اسلامی کے نعمت اللہ خان کی عوامی خدمت بھی دیکھ چکے ہیں جو اگست 2001ء سے جون 2005ء تک کراچی کے میئر رہے۔ اب حافظ نعیم الرحمن کی لیاقت، صداقت اور خدمات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ حافظ صاحب 2013ء میں جماعت اسلامی کراچی کے امیر بنے۔ وہ الخدمت کراچی کے صدر کی ذمے داریاں نبھاتے ہوئے بے مثال عوامی خدمت کر رہے ہیں۔ مسئلہ اسٹریٹ کرائم کا ہو، منشیات ہو، ناانصافی کی بنا پر بھرتیاں ہوں، عوامی حقوق کی پامالی ہو، اشرافیہ کی بے تکی شاہ خرچیاں ہوں۔ وہ ہر مسئلے کا درد محسوس کرتا ہے اور مسئلے کو حل میں بدلنے کا عزم رکھتا ہے۔ کراچی والو! اللہ تعالی نے تمہیں ایک بار پھر موقع فراہم کیا ہے۔ اپنے میئر کا درست انتخاب کر کے کراچی کو قائد اعظم کا شہر کہلوانے کے لائق بنوا لو۔