ہمارے سب بیوروکریٹس اور سیاست دان اپنے آپ کو پارسا اور اپنے مخالفین کو خرابیوں کا مجموعہ سمجھتے ہیں، حالانکہ انصاف پسند نظر سے دیکھا جائے تو اس حمام میں سب ننگے ہیں، کسی کے عیوب کم ہیں تو کسی کے زیادہ، لیکن پارسا کوئی نہیں ہے، دنیا میں احتساب کے لیے ادارے بنائے گئے ہیں، ہمارے ہاں بھی ایک ’’قومی ادارۂ احتساب‘‘ ہے، لیکن کہا جاتا ہے: درحقیقت وہ ’’قومی ادارۂ انتقام‘‘ ہے، دراصل احتساب (Accountability) اور انتقام (Victimization) میں نہایت لطیف اور خفیف سا فرق ہے، نیب دراصل معتوب سیاستدانوں اور بیوروکریٹس وغیرہ کو پھنسانے، مرعوب سیاستدانوں کو غلامی میں لانے اور ہائی برِڈ یعنی مخلوط النسل نظامِ اقتدار قائم کرنے کے لیے بنایا گیا تھا اور اس نے یہ کام نہایت احسن طریقے سے انجام دیا، اس پر غریب قوم کے خزانے سے اربوں روپے خرچ ہوچکے ہیں اور اس کا خَراج بھی بیرسٹر شہزاد اکبر کے توسط سے کئی ملین ڈالرز کی صورت میں براڈ شیٹ نامی ادارے کو ادا کیا جاچکا ہے۔ جنرل امجد شعیب، جنرل خالد مقبول اور منیر حفیظ اس کے چیئرمین رہے، بعد میں عدالت عظمیٰ کے جج بننے والے شیخ عظمت سعید اس کے پراسیکیوٹر جنرل رہے۔ جنرل امجد شعیب بعد میں میڈیا پر پاکستان کے ’’مُصلحِ اعظم‘‘ بن کر رونق افروز ہونے لگے۔ جسٹس جاوید اقبال نے تو اپنی بشری کمزوریوں کے سبب بلیک میل ہوکر نیب کے سارے وقار واعتبار کو خاک میں ملادیا، ایسا لگتا تھا کہ عدل کا اُن سے کوئی واسطہ نہیں رہا، بس وہ صرف استعمال ہوتے رہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’میں قیامت کے دن کی قسم فرماتا ہوں اور بہت ملامت کرنے والے نفس کی قسم فرماتا ہوں، کیا انسان یہ گمان کرتا ہے کہ ہم اس کی ہڈیوں کو جمع نہیں کریں گے، کیوں نہیں! (یقینا) ہم اس بات پر قادر ہیں کہ اُس کی (انگلیوں کے) پور بھی درست کردیں گے، بلکہ انسان یہ چاہتا ہے کہ وہ بدی کا سلسلہ جاری رکھے، پوچھتا ہے: قیامت کا دن کب ہوگا، پھر جب آنکھ چندھیا جائے گی اور چاند بے نور ہوجائے گا اور سورج اور چاند جمع کردیے جائیں گے، اُس دن انسان کہے گا: آج فرار کی جگہ کہاں ہے، (کہا جائے گا:) ہرگز نہیں! کوئی جائے پناہ نہیں، اُس دن آپ کے رب کے پاس ہی ٹھیرنے کی جگہ ہوگی، اُس دن انسان کو بتادیا جائے گا: اُس نے کیا آگے بھیجا ہے اور کیا پیچھے چھوڑا ہے، بلکہ انسان اپنے نفس کے (خیر وشر کے) بارے میں خوب آگاہ ہے، خواہ وہ کتنے ہی عذر تراشتا رہے‘‘۔ (القیامہ: 1-15) ان آیاتِ مبارکہ کا مقصد یہ ہے کہ انسان خود اپنا احتساب بہتر طور پر کرسکتا ہے، اللہ تعالیٰ کی عدالت میں جھوٹے عذر بہانے کسی کام نہ آئیں گے اور نہ کوئی یہ کہہ سکے گاکہ وہ بے خبر رہا۔
اللہ تعالیٰ نے نفسِ لوّامہ (اِسے اردو میں ضمیر اور انگریزی میں Conscience کہتے ہیں) کی صورت میں ایک کسوٹی اور خیروشر میں تمیز کرنے کا ملکہ انسان کے نفس میں پیدا کیا ہے، جو اُسے ہر وقت ٹوکتا رہتا ہے، خوابِ غفلت سے بیدار کرتا رہتا ہے، اب یہ خود انسان پر منحصر ہے کہ اپنے ضمیر کی تنبیہات (Warnings) پرکان دھرے یا انہیں نظر انداز کردے، حدیث پاک میں ہے:
’’نواس بن سمعان انصاری بیان کرتے ہیں: میں نے رسول اللہؐ سے نیکی اور گناہ (کی پہچان) کے بارے میں پوچھا تو آپؐ نے فرمایا: نیکی اچھے اخلاق کا نام ہے اور گناہ وہ ہے جو تمہارے دل میں کھٹکے اور تجھے یہ بات ناپسند ہو کہ لوگوں کو اس کا پتا چل جائے‘‘۔ (مسلم) یہ بھی تب ہے کہ ضمیر زندہ ہو، اُس میں خیر وشر میں تمیز کی صلاحیت بدستور فعال ہو، ورنہ جب ضمیر مرجاتا ہے، خیروشر کی تمیز سے محروم ہوجاتا ہے، بلکہ بعض اوقات شر اُس کے لیے زیادہ مرغوب اور پسندیدہ بن جاتا ہے، تو پھر حالت یہ ہوتی ہے جو قرآنِ کریم نے قومِ لوط کے بارے میں فرمایا: ’’اور ہم نے لوط کو بھیجا، جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا: کیا تم ایسی بے حیائی کرتے ہو جو تم سے پہلے دنیا میں کسی نے نہیں کی، بے شک تم عورتوں کو چھوڑ کر مردوں کے پاس نفسانی خواہش پوری کرنے آتے ہو، بلکہ تم تو (حیوانوں کی) حد سے (بھی) تجاوز کرنے والے ہو‘‘، (الاعراف: 80-81) ’’اور لوط کو یاد کیجیے! جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا: بے شک تم بے حیائی کا کام کرتے ہو جو تم سے پہلے دنیا بھر میں کسی نے نہیں کیا، کیا تم مردوں سے غیرفطری فعل کرتے ہو اور سرِ راہ ڈاکا زنی کرتے ہو اور اپنی عام مجلسوں میں بے حیائی کے کام کرتے ہو‘‘۔ (العنکبوت: 28-29)
الغرض جب کوئی قوم اخلاقی زوال کے اس درجے کو پہنچ جائے کہ عیب، عیب نہ محسوس ہو، جرم، جرم نہ لگے، بلکہ افتخار کا باعث بن جائے تو پھر کھلے عام بے حیائی، برائی اور بدکاری شروع ہوجاتی ہے، اسی کے مَظاہر ہم آج کل جدید میڈیا پر دیکھ رہے ہیں، نہ بیان کرنے والوں کو کوئی حیا آتی ہے اور نہ ارتکاب کرنے والوں کو کوئی ندامت محسوس ہوتی ہے، یہ اخلاقی زوال کی آخری حد ہوتی ہے۔
دینِ اسلام جو معاشرہ تعمیر کرنا چاہتا ہے، اس میں خیر کی اَقدار کا غلبہ ہوتا ہے، جرم کو معیوب سمجھا جاتا ہے اور اگر بشری کمزوری کے تحت کوئی جرم کا ارتکاب کرلے تو وہ منہ چھپائے پھرتا ہے، اُس کی تمنا ہوتی ہے کہ اُس کے عیب پر پردہ پڑا رہے اور اگر کسی کا عیب عیاں ہوجائے تو وہ معاشرے کے سامنے نادم وشرمسار ہوتا ہے، اپنی غلطی پر معافی کا خواستگار ہوتا ہے، لیکن ہمارے ہاں ایسا نہیں ہے، بلکہ سوشل میڈیا پر ایسے جتھے پال رکھے ہیں جو اپنے ممدوح کے جرم کا بھی دفاع کرتے ہیں، شر کو خیر، ظلمت کو نور اور جَہل کو علم بناکر پیش کرتے ہیں، پروفیسر حفیظ تائب نے کہا تھا:
سچ مِرے دَور میں جرم ہے، عیب ہے، جھوٹ فنِّ عظیم آج لاریب ہے
ایک اِعزاز ہے، جہل و بے رہ روی، ایک آزار ہے، آگہی یا نبی
دینِ اسلام عقلِ سلیم اور فطرتِ سلیمہ کا تقاضا کرتا ہے، اسی لیے قرآن نے ہر خیر کو ’معروف‘ اورہر شر کو ’مُنکَر‘ سے تعبیر کیا ہے، یعنی ہر خیر عقلِ سلیم کے لیے جانی پہچانی چیز ہے، مانوس ہے، عقل اُس کی طرف مائل ہوتی ہے اور فطرتِ سلیمہ اُسے قبول کرتی ہے، اس کے برعکس ہر ’مُنکَر‘ عقلِ سلیم کے لیے نامانوس ہے، نا آشنا ہے، فطرتِ سلیمہ اُسے ناپسند کرتی ہے، اُس سے اِباء کرتی ہے، حدیث پاک میں ہے: ’’سیدنا ابواُمامہ بیان کرتے ہیں: (ایک شخص نے) رسول اللہؐ سے پوچھا: گناہ کیا ہے؟، آپؐ نے فرمایا: جو تمہارے دل میں کھٹکے تو اُسے چھوڑ دو، اُس نے عرض کیا: ایمان کیا ہے؟، آپؐ نے فرمایا: جب تمہاری برائی تمہیں بری لگے اور تمہاری نیکی تمہیں (روحانی) سرور بخشے، تو (جان لوکہ) تم مومن ہو‘‘، (مسند احمد) یعنی مومن کا ضمیر زندہ ہے، قلبِ مومن میں خیرو شر میں تمیز کا ملکہ کام کر رہا ہے، اس کی فطرتِ سلیمہ کو خیر سے روحانی تسکین ملتی ہے اور شر سے طبیعت میں قَلَق، اضطراب اور اِنقباض محسوس ہوتا ہے، تو یہ ایمان کی دلیل ہے اور اگر صورتِ حال اس کے برعکس ہو تو پھر اپنے ایمان کی خیر منائو۔ پس اس کے لیے بندۂ مومن کو کسی ٹیسٹنگ لیبارٹری میں جانے کی ضرورت نہیں، بلکہ اپنے آپ، اپنے عقائد ونظریات اور افکار واعمال کو اپنے ضمیر کی عدالت میں پیش کرو، تمہیں جواب مل جائے گا۔
حقیقی اور مکمل احتساب تو آخرت میں اللہ تعالیٰ کی عدالت میں ہوگا، جہاں نہ کوئی مکرو فریب کام آئے گا، نہ کوئی حیلہ وتدبیر کارگر ہوگی اور نہ اپنے جرائم سے انکار کیا جاسکے گا، اقرار واعتراف کے بغیر چار نہیں ہوگا، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’آج ہم ان کے مونہوں پر مہر لگادیں گے اور ان کے ہاتھ ہم سے کلام کریں گے اور ان کے پاؤں اُن کاموں کی گواہی دیں گے جو وہ کرتے تھے‘‘۔ (یٰسٓ: 65) یعنی انسان کے اپنے اعضاو جوارح جو آج جرائم کی لذتوں سے لطف اندوز ہورہے ہیں، قیامت کے دن وہی اللہ تعالیٰ کی عدالت میں سلطانی گواہ (Approver) بن جائیں گے، نیز فرمایا: ’’اور جس دن اللہ کے دشمنوں کو آگ کی طرف لے جایا جائے گا، تو انہیں (سب کے جمع ہونے تک) روک دیا جائے گا، حتیٰ کہ جب وہ دوزخ کی آگ تک پہنچ جائیں گے، تو ان کے کان اور اُن کی آنکھیں اور اُن کی کھالیں اُن کے خلاف اُن کاموں کی گواہی دیں گی جو وہ دنیا میں کرتے تھے اور (وہ حیرت زدہ ہوکر) اپنی کھالوں سے کہیں گے: تم نے ہمارے خلاف گواہی کیوں دی، (تم تو گویائی پر قادر نہیں تھے)، وہ جواب دیں گی: ہمیں اُسی اللہ نے گویائی بخشی، جس نے ہرچیز کو گویائی کی صلاحیت عطافرمائی‘‘۔ (حم السجدہ: 21)
سو انسانی معاشرے کو گناہوں اور جرائم کی آلودگی اور ہلاکتوں سے بچانے کا ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ ہے آخرت کی جزاوسز ا پر ایمان، خَشیتِ الٰہی اور خوفِ خدا، اگر یہ ہے تو انسان کی اصلاح ممکن ہے، ورنہ دنیا اور آخرت کی بربادی اس کا مقدّرہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اور ہم نے ہر انسان کا اعمال نامہ اُس کے گلے میں لٹکا دیا ہے اور ہم قیامت کے دن اُس کا اعمال نامہ نکالیں گے جس کو وہ کھلا ہوا پائے گا، (اس سے کہا جائے گا:) آج اپنا اعمال نامہ پڑھ لو، آج تم خود اپنا احتساب کرنے کے لیے کافی ہو‘‘، (الاسراء: 13-14) ’’مومن کا صحیفۂ اعمال اُس کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا، تو وہ (فخر سے) کہے گا: آؤ! میرا نامۂ اعمال پڑھو، مجھے یقین تھا کہ مجھے احتساب کا سامنا کرنا ہوگا، پس وہ بلندو بالا باغ میں پسندیدہ زندگی میں ہوگا، جس کے پھلوں کے خوشے جھکے ہوئے ہوں گے، (اُس سے کہا جائے گا) اُن نیک کاموں کے عوض، جو تم نے (دنیا کی) گزشتہ زندگی میں (آخرت کے لیے) بھیجے تھے، خوب مزے سے کھاؤ اور پیو۔ اور جس کا اعمال نامہ اُس کے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا تو وہ (حسرت کے مارے) کہے گا: کاش! میرا اعمال نامہ مجھے نہ دیا ہوتا اور مجھے اپنے حساب کی بابت کچھ پتا ہی نہ چلتا، کاش! موت کے ساتھ ہی میرا قصہ تمام ہوجاتا، میرا مال تو میرے کسی کام نہ آیا، نہ ہی میری حجت بازی میرے کسی کام آئی، (حکم صادر ہوگا:) اسے پکڑ کر گلے میں طوق پہناؤ، پھر اسے جہنم میں جھونک دو، پھر اسے ستر ہاتھ لمبی زنجیر میں جکڑ دو، بے شک یہ بڑی عظمت والے اللہ پر ایمان نہیں لاتا تھا‘‘۔ (اَلْحَاقَّہ: 19-33)