توانائی کی بچت اور قومی رویہ

537

جب کبھی متوسط طبقے کے گھرانوں میں معاشی بحران آتا ہے تو گھر کے بڑے سر جوڑ کر بیٹھتے ہیں اور کچھ بچت کے اقدامات کرتے ہیں، کچھ اسراف سے بچنے کے اور کچھ آمدنی میں اضافے کے۔ یہی معاملہ اگر کسی کے بزنس کے ساتھ ہو تو وہ اول نمبر پر آمدنی بڑھانے کے اقدامات کرتا ہے اور پھر بچت کے اقدامات۔ یہی معاملہ ملکوں کا بھی ہے اگر کسی ملک کو معاشی سختی درپیش ہے تو وہ بھی آمدن کے ذرائع بڑھانے اور اخراجات میں کمی کے اقدامات کرتے ہیں اور بچت کی اسکیمیں متعارف کراتے ہیں۔ چناں چہ پاکستانی حکومت نے بھی توانائی بچت کے منصوبے کا اعلان کردیا۔ جس کے تحت بازار رات ساڑھے 8 بجے بند کرنے اور شادی ہال رات دس بجے بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے بتایا ہے کہ اوقات کار کی پابندی کرنے سے سالانہ 62 ارب روپے کی بچت ہوگی۔ ان فیصلوں میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ یکم جولائی سے زیادہ بجلی سے چلنے والے پنکھے فیکٹریوں میں تیار نہیں کیے جائیں گے۔ اسی طرح زیادہ بجلی لینے والے بلب بھی تیار نہیں کیے جائیں گے۔ پنکھے اور بلب کے استعمال میں تبدیلی سے 22 ارب روپے کی بچت ہوگی۔ اسی طرح الیکٹرک موٹر سائیکل پر منتقل کیا جائے گا۔ موٹر سائیکلوں پر 3 ارب ڈالر کا ایندھن استعمال ہوتا ہے۔ ان فیصلوں پر متوقع ردعمل پنجاب اور کے پی کے حکومت کا تھا وہ یہی تھا کہ وہ اسے مسترد کردیں گے، جب کہ انجمن تاجران پاکستان نے بھی ان فیصلوں کو مسترد کرکے دو ٹوک انداز میں کہا ہے کہ ہم دکانیں رات 10 بجے اور ریسٹورنٹ 11 بجے سے قبل بند نہیں کریںگے۔ تنظیم کے صدر اجمل بلوچ نے کہا کہ معاشی پہیہ رُوک کر توانائی بچانا عقل مندی نہیں۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ سرکاری اداروں میں گرمیوں میں ائرکنڈیشنز اور سردیوں میں ہیٹر اندھا دھند استعمال کیے جاتے ہیں۔ حکمران اور بیوروکریٹ پروٹوکول ختم کیا جائے اور مفت بجلی اور مفت پٹرول ختم کیا جائے۔ اجمل بلوچ نے کاروباری طبقے کو مہنگی ترین بجلی
فروخت کرنے پر بھی تنقید کی اور مطالبہ کیا کہ کاروباری طبقے کو سستی بجلی فراہم کی جائے۔ اسی طرح انہوں نے بجلی اور گیس چوروں کو گرفتار کرکے جیل بھیجنے کا بھی مطالبہ کیا۔
یہ ایک ہی مسئلے پر دو مختلف موقف ہیں ان دونوں میں ایک بات پر اتفاق ہے کہ توانائی کی بچت ہونی چاہیے۔ حکومت کی نظر تاجروں کے کاروبار پر اور تاجران کی نظر حکومتی اور اشرافیہ کی شاہ خرچیوں پر ہے۔ اب اس مسئلے کا حل کیا نکالا جاسکتا ہے۔ اجمل بلوچ نے تو دنیا کی مثال دینے سے منع فرمایا ہے لیکن ہمارے حکمرانوں کی طرح وہ بھی دنیا سے واقف نہیں ہیں۔ یہ درست ہے کہ دنیا بھر میں مغرب کے ساتھ ہی مارکیٹیں بند ہوجاتی ہیں۔ ریسٹورنٹس اور فاسٹ فوڈ والے کام کرتے رہتے ہیں۔ اسٹریٹ لائٹس بند ہوجاتی ہیں لیکن ساتھ ہی دنیا کی یہ مثال حکمرانوں کے سامنے نہیں رہتی کہ دنیا بھر کے حکمران سادہ زندگی گزارتے ہیں۔ امریکی صدور کی مدت پوری ہونے کے بعد کی زندگی سے بھی یہ لوگ واقف ہیں اور حکمرانی کے دور کی مصروفیات اور اخراجات سے ناواقف ہیں۔ ہمارے حکمران تو درکنار حکمران پارٹیوں کے ارکان اسمبلی بھی گھروں سے نکلتے ہیں تو چار چار ہزار سی سی کی دس دس گاڑیاں ساتھ ہوتی ہیں۔ ان کا پٹرول، ڈیزل کہاں سے آتا ہے کسی اور ملک کا تو نہیں ہوتا۔ یہ کہنا بھی غلط ہے کہ اپنے پیسوں سے خرچ کررہے ہیں۔ یہ تو ان کے پیسے ہیں بھی نہیں۔ اکثر کے پاس چوری کا پیسہ ہوتا ہے، اس لیے بے دریغ خرچ کرتے ہیں۔ بجلی، پٹرول، گیس مفت میں تو یہ بھر لیتے ہیں، لہٰذا اجمل بلوچ کی یہ بات وزن رکھتی ہے کہ معیشت کا پہیہ جام کرکے توانائی بچانا عقل مندی نہیں لیکن اجمل صاحب تاجروں سے کون کہہ رہا ہے کہ معیشت کا پہیہ روک دیا جائے۔ بس معیشت کا پہیہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے تاجروں کی جانب سے فجر کے بعد کاروبار کے آغاز سے مزید اضافی چلے گا۔ اگر آج کل کے حساب سے ساڑھے سات بجے کاروبار شروع کیا جائے اور شام ساڑھے چھے بجے یا سورج غروب ہوتے ہی بند کردیا جائے تو کاروبار معیشت کا پہیہ 12 گھنٹے چلے گا اور گرمیوں میں یہ پہیہ چودہ گھنٹے تک چلے گا۔ آخر ایک مسلمان تاجر دوپہر بارہ بجے تک سوتے رہنے پر کیوں مصر ہے۔ فجر کے خزانے تو مسلمانوں ہی کے لیے ہیں، اگر تاجر دوپہر ڈیڑھ بجے سے رات دس بجے تک کاروبار پر مصر ہیں تو اس میں تو صرف نو گھنٹے معیشت کا پہیہ چلتا ہے۔ غور کریں 12 گھنٹے کام درست ہے یا آپ کے اصرار پر نو گھنٹے۔ بھائی حکومت ہر بات غلط نہیں کرتی۔ اس کا یہ فیصلہ تو درست ہے بس اس کے اپنے کرتوت اس سے مطابقت نہیں رکھتے۔
اب آجائیں حکومتی اقدامات کی جانب۔ یہ بات بار بار تجربے سے ثابت ہوچکی ہے کہ حکومت کی جانب سے مارکیٹیں بند کرنے کے اوقات مقرر کرنے کی پابندی نہیں ہوسکتی۔ کیوں کہ پولیس اور سرکاری اہلکار خود اس کو ناکام بناتے ہیں۔ پولیس کھڑی ہوتی ہے اور دکانیں کھلی رہتی ہیں۔ یہی اہلکار سارا بھتا اپنی جیبوں میں نہیں ڈالتے بلکہ ان حکومتی اداروں میں باقاعدہ ریٹ طے ہیں کہ کس چیز کے کیا ریٹ ہیں۔ دکانوں کے الگ، ٹھیلوں کے الگ اور فیکٹریوں کے الگ۔ یہ لوگ ان سے بھتے لے کر کام کی اجازت دیتے ہیں، دکانوں کو کہا جاتا ہے کہ باہر کی لائٹس نہیں جلانا، بس پھر کافی ہوجاتا ہے۔ کبھی شکایت آجائے تو چھاپے سے قبل خود اطلاع کردیتے ہیں کہ چھاپا پڑنے والا ہے۔ نمائشی طور پر کسی کا شوکیس کسی کا ٹھیلا اٹھا کر بھی لے جاتے ہیں اسے واپس کرنے کے ریٹ الگ ہیں۔ اور یہ سارا بھتا اوپر اور بہت اوپر تک جاتا ہے۔ کورونا کے دنوں میں تو جگہ جگہ ٹھیلوں، دکانوں، مال اور فیکٹریوں کے ریٹ کے مطابق کام کی اجازت دی جاتی تھی جو توانائی کے ضیاع سے زیادہ انسانی جان کے لیے خطرناک تھا۔
یہ بات بھی درست ہے کہ حکومت کی ہر بات غلط نہیں ہوتی لیکن یہ بھی درست ہے کہ اس کی ہر بات صحیح بھی نہیں ہوتی۔ جو نمائشی اقدام وفاقی کابینہ کے اجلاس کے لیے کھڑکیوں کے پردے کھول کر کیا گیا تھا کیا وہ حکمران اپنی ذاتی زندگی میں بھی کریں گے۔ اور یہ پنکھوں کی تیاری بند کرنا تو پاکستانی برآمدات پر بھی حملہ ہے۔ پاکستانی پنکھے دنیا بھر میں برآمد کیے جاتے ہیں۔ ایل ای ڈی بلب تک تو بات سمجھ میں آتی ہے لیکن تمام سرکاری دفاتر کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے کے لیے پیسے کون دے گا۔ یہ کام کرنا ہے تو ہر ادارہ اپنے بجٹ کے اندر رہتے ہوئے رفتہ رفتہ منتقلی کرے، حکومت کوئی اضافی رقم نہ دے۔ مفت بجلی اور مفت پٹرول ختم کرے اور ہاں بجلی کمپنیوں کو اضافی پیداوار پر مجبور کیوں نہیں کیا جاتا۔ انہوں نے جو وعدے کررکھے ہیں جن کی بنیاد پر کے الیکٹرک نے قبضہ کرکے پورے شہر کو یرغمال بنا رکھا ہے اس کو بجلی کی پیداوار میں اضافے پر مجبور کیوں نہیں کرتے۔ صنعتوں میں دو شفٹیں لگائیں تا کہ روزگار اور پیداوار دونوں بڑھیں اور صنعتوں کو اپنی بجلی پیدا کرنے کی اجازت بھی دی جائے۔ پاکستانی برآمدکنندگان کو سہولتیں دی جائیں، بلدیاتی انتخابات کروائے جائیں، ایماندار لوگوں کو لا کر سرکاری افسر بنایا جائے، تب ہی تو نظام بھی ٹھیک ہوگا اور توانائی کی بچت کے اعلانات کار آمد ہوں گے۔ حکمران اور تاجر ایک جگہ بیٹھیں حکمران اپنا طرزِ زندگی بھی بدلیں اور تاجروں کو سمجھائیں کہ 12 گھنٹے پہیہ چلنے سے زیادہ پیداوار ہوگی اور 9 گھنٹے سے توانائی ضائع ہوگی۔ دونوں کسی نہ کسی نتیجے پر پہنچ ہی جائیں گے۔ سرکاری اداروں سے زبردستی نفاذ کا مطلب کھانے پینے کا نیا کھاتا کھولنا ہے۔