گھر ایک ایسی جگہ ہوتی ہے جس کے آغوش میں ہر انسان سکون و اطمینان پاتا ہے۔ امیر ہو یا غریب یہاں تک کے جھونپڑا نشین کو بھی اپنے گھر سے پیار ہوتا ہے۔ کسی کے لیے بھی یہ بڑی اذیت کی بات ہوتی ہے کہ اس کے گھر کو بلا کسی جواز کے تباہ کیا جائے۔ اسرائیل اس بات سے اچھی طرح آگاہ ہے لہٰذا وہ فلسطینیوں کے گھر کو ایک عرسے سے بلڈوز کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ اسرائیلی حکام پچھلے ماہ کے دوسرے عشرے میں تباہی پھیلانے والے بلڈوزر اور دوسری مشینیں لے کر غزہ کی سرحدی پٹی پر چڑھ دورے ان کے ساتھ فوجی ٹینک بھی تھے۔ ان کا ہدف فلسطینی کسانوں کے کھیت تھے۔ انہوں نے فصلوں میں تباہی مچائی قابل کاشت زرعی اراضی کو کھود کر ناقابل کاشت بنادیا۔ اسرائیلی فوجوں نے یہ کارروائی سرحد کے کافی اندر آکر کی۔ ان کا مقصد زمینوں پر قبضہ ہے۔ کسی طرح فلسطینی کسان اپنی زمین سے دست بردار ہوجائیں اور زمین پر ان کا قبضہ ہوجائے۔ لہٰذا وہ بار بار فصلیں تباہ کرتے ہیں اور فلسطینی کسانوں کو معاشی نقصان پہنچاتے رہتے ہیں۔ مسلم دشمنی میں بھارت کے وزیراعظم نے اب اسرائیل کی شاگردی اختیار کرلی ہے۔ اور لگتا کچھ یوں ہے کہ اسرائیل کے سرپرستوں نے بھارت کے سر پر بھی ہاتھ رکھنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ لہٰذا بھارت تسلسل کے ساتھ وہی ہتھکنڈے کھلے عام استعمال کررہا ہے۔ گزشتہ چند ماہ کے دوران مودی کی جنتا پارٹی کی حکمرانی والی ریاستوں میں سرکاری سرپرستی میں مسلمانوں کے گھروں دکانوں اور دیگر کاروباری جگہوں کو بلڈوزر چلا کر گرانے کی شروعات کی گئی ہے یہ صرف اس جرم میں کیا جارہا ہے کہ شبہ تھا کہ وہ مسلمان حکومت مخالف مظاہروں میں شریک ہوئے ہیں۔
ایک خاص مثال جواہر لال نہرو یونیورسٹی کی طالبہ آفرین فاطمہ کی ہے کہ شہریت کے نئے بھارتی قانون کے خلاف دیے گئے دھرنوں میں اس نے خطاب کیا تھا۔ لہٰذا اس کے گھر کو مسمار کردیا گیا۔ مسلمانوں کے گھروں کو بلڈوز کرنے کی اس پالیسی کو ان ریاستوں میں وزرا اعلیٰ نے اپنی انتخابی مہم میں فخریہ طور پر مشتہر بھی کیا یہ کھلے عام ہندو مجرمانہ ڈھٹائی اور فسطائیت کا اظہار ہے۔ وہ مسلمانوں کو جو ان کے ملک کی ایک بڑی اکائی ہے اپنا دشمن نمبر ایک قرار دے رہے ہیں۔ آج کا بھارت ایک ایسی سیاسی پالیسی کا حامی نظر آتا ہے کہ جس کے تحت ہر اس چیز کو تباہ کردیا جائے جس کو اُن کا دشمن نمبر ایک اپنے فائدے کے لیے استعمال کرسکے۔ لہٰذا بھارتی حکومت چار سو چینلوں، لاتعداد ویب سائٹ اور پرنٹ میڈیا کے ذریعے مذہبی فرقہ واریت اور نفرت کو ہوا دیتی رہتی ہے، زہر افشانی کرکے آگ بھڑکانے کا کام انجام دیتی ہے۔ آج کے ہندو نوجوان اس بے بنیاد پروپیگنڈے کے دور میں پروان چڑھ رہی ہے۔ لہٰذا نفرت کی آگ کے شعلے سرچڑھ بھارت میں پہلے بھی مسلمانوں کو سزا دینے کے لیے ان کے خلاف فسادات کرائے جاتے تھے، اُن کا قتل عام ہوتا، بھیڑ ان کو پیٹ پیٹ کر مارتی، نشانہ بنا کر قتل کرتی، حراست میں حکومتی نگرانی میں ان کو مار دیا جاتا یا جھوٹے مقدمات میں انہیں قید کیا جاتا۔ اب ان کے خلاف ایک نیا ہتھیار استعمال کرنا شروع کیا گیا ہے وہ بلڈوزر ہے جس کے ذریعے مسلمانوں کی جائدادوں کو بلڈوز کے ذریعے گرایا جارہا ہے۔ اس کی ابتدا یوپی کے وزیراعلیٰ یوگی ادیتا ناتھ نے چند برس قبل شروع کی تھی جب شہریت کے متعلق مودی حکومت کے متنازع قانون کے خلاف مسلمانوں نے احتجاج شروع کیا تھا۔ پھر اس سال اس کا سب سے زیادہ استعمال کیا گیا جب توہین رسالت کے خلاف مظاہروں میں شرکت کے جرم میں مسلمانوں کی جائدادوں کو بلڈوز کیا گیا۔
بھارت میں خصوصاً کشمیری مسلمانوں کے خلاف حکومتی سرپرستی میں ماورائے عدالت ہر طرح کے اقدامات ہونے عام ہیں۔ البتہ بلڈوزر کا استعمال کشمیر میں ایک طرح سے بالکل نیا حربہ ہے۔ اس سے پہلے کشمیر میں آزادی پسندوں کے گھروں کو منہدم کرنے اور جلانے کا طریقہ عام تھا۔ کہا جاسکتا ہے کہ بلڈوزر سے گھروں کو نشانہ بنانے کا یہ ایک نیا رجحان ہے۔ کیا اُن کا مسلمانوں کو یوں دیوار سے لگانے کا عمل ایک کامیاب پالیسی ہے؟ اس کا جواب ہاں میں دینا خود بھارتی تجزیہ نگاروں کے لیے بھی مشکل ہے کیوں کہ اپنی آبادی کے ایک اتنے بڑے حصے کو مستقل دہشت کی فضا میں رکھنا انہیں اپنی حفاظت کے لیے مزید سوچ بچار پر مجبور کرنا ہے۔ لہٰذا ہندوستان کے مسلمانوں کو جس بات پر سوچنے کی ضرورت ہے وہ یہ کہ ہم اس سے کیسے بچ سکتے ہیں؟۔