ظلم اور اس کا انجام

2266

ابوقلابہ سے مروی ہے کہ: میں نے شام کے بازار میں ایک آدمی کی آواز سنی جو ’’آگ آگ‘‘ چیخ رہا تھا۔ میں قریب گیا تو میں نے دیکھا کہ اس کے دونوں ہاتھ اور دونوں پیر ٹخنوں سے کٹے ہوئے ہیں اور دونوں آنکھوں سے اندھا منہ کے بدل زمین پر پڑاگھسٹ رہا ہے اور ’’آگ آگ‘‘ چیخ رہا ہے۔ میں نے اس سے حال دریافت کیا تو اس نے کہا کہ ’’میں ان لوگوں میں سے ہوں جو عثمانؓ کے گھر میں گھسے تھے۔ جب میں ان کے قریب گیا تو ان کی اہلیہ چیخنے لگیں‘ میں نے ان کے منہ پر طمانچہ مارا۔ عثمانؓ نے کہا: تجھے کیا ہو گیا ہے‘ عورت پر ناحق ہاتھ اٹھاتا ہے۔ خدا تیرے ہاتھ پاؤں کاٹے‘ تیری دونوں آنکھوں کو اندھا کرے اور تجھے آگ میں ڈالے! مجھے بہت خوف معلوم ہوا اور میں نکل بھاگا۔ اب میری یہ حالت ہے جو تم دیکھ رہے ہو‘ صرف آگ کی بددعا باقی رہ گئی ہے‘‘۔
نیرو کے نام سے ہم میں سے اکثرلوگ واقف ہوں گے۔ روم کا یہ بدنام زمانہ حکمران ایک لے پالک بچہ تھا۔ جب اس کے باپ کی وفات ہوئی تو وہ بادشاہ بنا۔ تخت سنبھالنے کے بعد شروع شروع میں اس نے اپنی ظالمانہ فطرت کا کوئی مظاہرہ نہیں کیا، لیکن اقتدار کے ماہ و سال گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی طبیعت میں ایک مجنونانہ اشتعال کی سی کیفیت بڑھنے لگی۔ سب سے پہلے اس نے اپنی ماں ’’ایگریپینا دی ینگر‘‘ (Agrippina The Younger) کو قتل کیا۔ کچھ عرصے بعد اس نے اپنی دونوں بیویوں کو بھی باری باری قتل کردیا۔ نوبت یہاں تک جاپہنچی کہ اس نے پورے روم کو آگ لگانے کا منصوبہ بنایا تاکہ وہ پرانے شہر کی جگہ پر ایک نیا شہر بنا سکے۔ یہ آگ ’’دی گریٹ فائر آف روم‘‘ کہلاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جب روم جل رہا تھا تو نیرو آرام سے بیٹھا بانسری بجا رہا تھا۔ وہ یہیں تک محدود نہیں رہا بلکہ اس نے روم کے بچ جانے والے شہریوں پر ہی آگ لگانے کی سازش کا الزام لگا دیا اور ان پر مقدمات چلانے کے بعد بہت سوں کو شدید تشدد کروا کے مروا دیا۔ اس کی یہ ذہنی کج روی بالآخر اتنی بڑھی کہ اس نے خودکشی کرکے اپنی بھی جان لے لی۔
کنگ جان کو انگلستان کی تاریخ کا سب سے زیادہ ظالم بادشاہ کہا جاسکتا ہے۔ یہ 24 دسمبر 1166ء کو پیدا ہوا اور 19 اکتوبر 1216ء کو وفات پائی۔ وہ 1199ء سے لے کر اپنے انتقال تک تخت نشین رہا۔ بادشاہت کے حصول کے لیے اس نے اپنے ہی بھائی کے خلاف فرانس کے بادشاہ کے ساتھ مل کر سازش کی۔ جب اس کے مخالفین نے اس کے راستے میں رکاوٹیں ڈالنے کی کوشش کی تو اس نے انہیں قلعے میں قید کرواکر بھوکا پیاسا مار دیا۔ اس نے بادشاہ بننے کے بعد ایک بہت بڑی بری و بحری فوج تشکیل دی اور اس کے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے عوام پر بھاری محصولات عائد کیے، معززین کی جائدادیں ضبط کرلیں اور امراء کو قید میں ڈال کر ان پر تشدد کے ذریعے ان کی دولت ہتھیالی۔ بالآخر 1216ء میں وہ پیچش کے مرض میں کئی سال زندگی و موت کی کشمکش میں مبتلا ہوکر دنیا سے گزرگیا۔
ظالم لوگ اپنے اَنجام سے بے خوف ہوکرظلم وزیادتی کرتے، دھمکیاں دے کر لوگوں سے رقم کا مْطالبہ کرتے ہیں، لوگوں کے مال وجائداد پر قبضہ کرتے ہیں، چوری، ڈکیتی، رہزنی، لوگوں کے حقوق سلب کرنا، مظلوموں کو تکلیف دینا، دہشت گردی اور قتل و غارت گری جیسے گناہوں میں مبتلا ہوکرنہ جانے کس کس انداز سے اپنے جیسے مسلمانوں کے حقوق پامال کررہے ہیں۔ لیکن یادرکھیے! ظلم کا انجام بہت ہی بھیانک اور خطرناک ہے، ہم دنیا میں چاہے کسی پر کتنا ہی ظلم کرلیں اور بے خوف ہوکر گْھومتے پھریں، مگر یہ بھی یاد رہے کہ مرنے کے بعد ہر ظلم کا حساب دینا ہوگا۔ بہت سے ایسے ظالم وجابر لوگ گزرے، جن کا شمار دنیا کے طاقتور افراد میں ہوتا تھا، جن کے حکم کی خلاف ورزی گویا موت کو دعوت دینا تھا، جن کے ظلم و جبرکے نہ صرف کارنامے سْن کر بلکہ ان کا نام سْنتے ہی لوگ لرز جاتے تھے، بالآخر موت نے انہیں اپنے شِکنجے میں لیکر ان کا غرور وتکبر ہمیشہ کے لیے خاک میں مِلا دیا۔
ظلم کے خلاف کھڑے ہونا، ظلم برداشت نہ کرنا اور دوسرے لوگوں کو بھی ظلم سے نجات دلانا ہر دور میں مسلمانوں کی پہچان اور ان کی امتیازی شان رہی ہے۔ مسلمان فاتحین جس ملک میں بھی پہنچے انہوں نے اپنا یہ امتیاز باقی رکھا کہ عدل کا نظام قائم کیا، اسی وجہ سے وہاں کے دبے کچلے لوگ جوق در جوق دائرہ اسلام میں داخل ہوئے اور اس کی پناہ میں انہوں نے سکھ چین کا سانس لیا۔ مسلم حکمران ہمیشہ ظلم کے خلاف کھڑے ہوئے ہیں۔ ظالموں کی سرکوبی میں پیش پیش رہے ہیں۔ ایک مظلوم عورت نے ’’وامعتصماہ‘‘ کی دہائی دی تو عباسی خلیفہ معتصم باللہ نے ایک لشکرِ جرّار تیار کیا اور عموریہ پر حملہ کرکے اس عورت کو آزادی دلائی، اندلس کے ایک مقامی حکمران نے اپنے بڑے حکمران کے ذریعے اپنی بیٹی کی آبرو ریزی کی شکایت کی تو طارق بن زیاد نے فوج کشی کی اور اندلس فتح کرلیا۔ سندھ کے لٹیروں نے مسلمان مسافروں کے ایک قافلے کو لوٹ کر مردوں اور عورتوں کو قید کرلیا اور اس وقت کے راجا داہر نے انہیں آزاد کرانے سے اپنی بے بسی ظاہر کی تو محمد بن قاسم نے حملہ کرکے انہیں آزاد کرایا۔ اس سلسلے میں قرآن اور آپؐ کے ارشادات اور قرآن کی آیات ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔
اللہ کے رسولؐ کا ارشاد ہے: ’’مظلوم کی بد دعا سے بچو، اس لیے کہ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی حجاب نہیں ہوتا‘‘۔ (بخاری، مسلم) ’’مظلوم کی بددعا ہر حال میں بارگاہِ الٰہی میں مقبول ہوتی ہے، چاہے وہ فاجر ہو‘‘۔ (مسند احمد) ظلم کا انجام دنیا میں بھی بْرا ہے اور آخرت میں بھی بہت برا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’کتنی ہی ظالم بستیاں ہیں جن کو ہم نے پیس کر رکھ دیا اور اْن کے بعد دْوسری کسی قوم کو اْٹھایا‘‘۔ (الانبیاء: 11) اللہ کے رسولؐ کا ارشاد ہے: ’’ظلم کی سزا اللہ تعالیٰ آخرت میں تو دے گا ہی، بسا اوقات ظلم کرنے والے کو دنیا میں بھی سزا دیتا ہے‘‘۔ (ابوداؤد) اسلام ظلم کی سختی سے مذمت کرتا ہے۔ اور ظلم کا ساتھ دینے کو بھی شدت سے منع کرتا ہے۔ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا: ’’جس شخص نے کسی ظالم کا ساتھ دیا، یہ جانتے ہوئے کہ وہ ظلم کررہا ہے، تو وہ اسلام کے دائرے سے نکل گیا‘‘۔ (بیہقی، طبرانی) ’’جس شخص نے کسی جھگڑے میں ظلم کرنے والے کی مدد کی اس پر اللہ کا غضب نازل ہوگا‘‘۔ (ابو داؤد) اسلام نے تاکیدی حکم دیا ہے کہ کسی پر ظلم ہورہا ہو تو ظالم کا ہاتھ پکڑا جائے اور مظلوم کی حمایت کی جائے۔ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا ہے: ’’لوگ جب کسی کو ظلم کرتے ہوئے دیکھیں، پھر بھی اس کا ہاتھ نہ پکڑیں تو عین ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی سزا تمام لوگوں کو دے‘‘۔ (ابوداؤد، ترمذی)
ایک مرتبہ آپؐ نے فرمایا: ’’اپنے بھائی کی مدد کرو، چاہے وہ ظالم ہو یا مظلوم‘‘، صحابہ نے عرض کیا: ’’مظلوم کی مدد کرنا تو ہماری سمجھ میں آتا ہے، یہ ظالم کی مدد کرنے کا کیا مطلب ہے؟‘‘ آپؐ نے فرمایا: ’’اس کا ہاتھ پکڑ لو اور اسے ظلم کرنے نہ دو، یہ اس کی مدد ہے‘‘۔ (بخاری) ۔ظلم کہتے ہیں کسی چیز کو اس کی جگہ سے ہٹاکر دوسری جگہ رکھنا۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ کسی کو اس کا حق نہ دینا، ناحق طریقے سے کسی کا حق مارنا، بغیر قصور کے کسی پر زیادتی کرنا، معاملات میں ناحق طرفداری کرنا وغیرہ ظلم کہلائے گا۔ یہ ظلم اس قدر بھیانک جرم ہے کہ اسے قیامت کی تاریکی سے موسوم کیا گیا ہے۔ نبیؐ کا فرمان ہے: تم ظلم سے بچو کیونکہ یہ قیامت کی تاریکیوں سے ہے یعنی ظالم کو قیامت کے دن بوجہ تاریکی اور اندھیرے کے راہ نہ ملے گی۔ (مسلم)
ظلم کی پہلی قسم اللہ کے ساتھ شرک کرنا ہے۔ اللہ اس کائنات کا تن تنہا خالق ومالک ہے اور جبکہ لقمان ؑ نے اپنے لڑکے سے فرمایا کہ میرے پیارے بچو! اللہ کے ساتھ شریک نہ کرنا بے شک شرک بڑا بھاری ظلم ہے۔ ظلم کی دوسری قسم بھی حقوق اللہ سے متعلق ہے اور یہاں پر اس سے مراد اللہ کی وہ معصیت ہے جو شرک کے علاوہ ہو: یہ یقینی بات ہے کہ اللہ لوگوں پر کچھ بھی ظلم نہیں کرتا لیکن لوگ خود ہی اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں۔ (یونس: 44) ظلم کی تیسری قسم حقوق العباد سے متعلق ہے یعنی ایک آدمی کسی دوسرے آدمی پر کسی قسم کا ظلم کرے مثلاً لوگوں کا ناحق خون کرنا، باطل طریقے سے کسی کا حق مارنا، کسی کا سامان چھین لینا یا چوری کرلینا، بلاوجہ کسی کوگالی دیدینا، معصوم آدمی پر بہتان لگانا، لوگوں کا دل دکھانا، کسی کی غیبت اور چغلی کرنا، کمزوروں کو پریشان کرنا، حق کے داعیوں کے لیے مشکلات پیدا کرنا اور مظلوم کے خلاف ظالم کی مدد کرنا وغیرہ۔ ظلم کی تینوں اقسام میں یہ وہ بھیانک جرم ہے جس کو اللہ معاف نہیں کرتا اور نہ ہی نماز وروزہ اور حج وعمرہ جیسی نیکی سے تلافی ہوتی ہے۔ نبیؐ کا فرمان ہے: اگر کسی شخص کا ظلم کسی دوسرے کی عزت پر ہو یا کسی طریقہ (سے ظلم کیا ہو) تو آج ہی، اس دن کے آنے سے پہلے معاف کرا لے جس دن نہ دینار ہوں گے، نہ درہم بلکہ اگر اس کا کوئی نیک عمل ہوگا تو اس کے ظلم کے بدلے میں وہی لے لیا جائے گا اور اگر کوئی نیک عمل اس کے پاس نہیں ہو گا تو اس کے (مظلوم) ساتھی کی برائیاں اس پر ڈال دی جائیں گی۔ (بخاری)اس معنی کی ایک مفصل روایت صحیح مسلم میں یوں ہے، نبی کریمؐ فرماتے ہیں: تم جانتے ہو میری امت کا مفلس کون ہے؟ لوگوں نے عرض کیا: مفلس ہم میں وہ ہے جس کے پاس روپیہ اور اسباب نہ ہو۔ آپؐ نے فرمایا: مفلس میری امت میں قیامت کے دن وہ ہو گا جو نماز لائے گا، روزہ اور زکوٰۃ لیکن اس نے دنیا میں ایک کو گالی دی ہو گی، دوسرے پر بدکاری کی تہمت لگائی ہو گی، تیسرے کا مال کھا لیا ہو گا، چوتھے کا خون کیا ہو گا، پانچویں کو مارا ہوگا، پھر ان لوگوں کو (یعنی جن کو اس نے دنیا میں ستایا) اس کی نیکیاں مل جائیں گی اور جو اس کی نیکیاں اس کے گناہ ادا ہونے سے پہلے ختم ہو جائیں گی تو ان لوگوں کی برائیاں اس پر ڈالی جائیں گی آخر وہ جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ (مسلم)
یہ تمام تحریر اصل مجرمانہ خاموشی سے متعلق ہے۔۔۔ اگر تمام جرائم ہمارے سامنے ہوتے رہے اور ہم نے ان پر آواز اٹھانا بھی اپنا فرض نہ سمجھا تو ہم بھی جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ چاہے وہ این ای ڈی کے سامنے اس کے مظلوم، بہادر اور نہتے بلال ناصر کا قتل ہو یا کوئی اور مظلوم اگر اپنے مال کی حفاظت میں جان سے گیا ہے تو وہ شہید ہے۔ ہم سب اپنا جائزہ لیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔