آج کل ہر وقت ہر جگہ یہی شور ہے کہ کہیں پاکستان اقتصادی طور پر دیوالیہ ( ڈیفالٹ) نہ ہوجائے۔ اپوزیشن کے سیاست دانوں کا تویہ مقبول بیان بن گیا ہے کہ پاکستان دیوالیہ ہونے جارہا ہے ایک بھیڑ چال ہے ہر ایک یہی بیان دے رہا ہے۔ حکومتی سیاست دان بھی اس موضوع پر اپنی جوابی بیانات داغ رہے ہیں۔ لیکن اگر خدا نخواستہ پاکستان دیوالیہ ہوا تو حکومت کے ساتھ ساتھ اپوزیشن کے لیڈرز بھی اس سانحے کے ذمے دار ہوں گے۔ پنجاب اور خیبر پختون خوا میں تحریک انصاف کی حکومت ہے۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی تو بلوچستان میں تحریک انصاف کی اتحادی بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کی حکومت ہے۔ یعنی پاکستان کی ہر بڑی سیاسی جماعت کسی نہ کسی شکل میں اقتدار میں موجود ہے۔ ممکنہ طور پر پاکستان کے دیوالیہ ہونے کے امکان کا یہ سبب بیان کیا جارہا ہے کہ زرمبادلہ کے ذخائر کم ہوگئے ہیں۔ بیرونی اور اندرونی قرضوں کا بوجھ بڑھ گیا ہے۔ اخباری رپورٹس کے مطابق 2022 میں معاشی کساد بازاری کا سب سے بڑا شکار ٹیکسٹائل انڈسٹری اور اس سے منسلک شعبے ہوئے ہیں۔ زراعت، درآمدی مواد پر مبنی صنعتیں اور آٹوموبائل بھی زوال پزیر رہے ہیں۔ اس صورت حال کی وجہ سے ملک میں بڑے پیمانے پر بے روزگاری کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔
تاجروں نے 2022 کو پاکستان کی معیشت کے لیے بدترین کارکردگی کا سال قرار دیا ہے۔ امریکی ڈالر کے مقابلے ملک کی کرنسی 49.31 روپے گر گئی اور شرح سود بڑھ کر 16 فی صد ہو گئی جو 1998-1999 کے بعد سب سے زیادہ ہے۔ مزید برآں، افراط زر بھی 9 فی صد سے بڑھ گیا ہے، جبکہ کنزیومر پرائس انڈیکس (سی پی آئی) فی الحال 25 فی صد کے قریب ہے۔ مالی سال 2023 کے پہلے پانچ مہینوں میں، اوسط حساس قیمت اشاریہ تقریباً 28فی صد پر ہے۔ حالات کے پیش نظر، اب وقت آگیا ہے کہ سیاسی جماعتیں، 2023 کے عام انتخابات سے پہلے، کم از کم 15 سال کے لیے’’میثاقِ معیشت‘‘ پر متفق ہو جائیں، تاکہ تاجر برادری اور عوام کو معلوم ہو کہ ہم کس طرف جا رہے ہیں۔ یہ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنے مفادات سے بھی بالاتر ہوکر سوچیں۔ لیکن یہ سب کچھ ہوتا نظر نہیں آرہا ہے۔ اپوزیشن کے رہنما مرکزی حکومت کو لعن طعن کرتے نظر آرہے ہیں۔ اور مرکزی حکومت جوابی کارروائیوں میں مصروف ہے۔ ہر طرف الزام تراشیوں کا بازار گرم ہے۔ کوئی بھی اس بحران کے اصل سبب کی طرف نہیں آتا اور کسی کو بھی اس بحران کے حل کرنے میں دلچسپی نہیں ہے اور نہ ہی اس بحران کے اصل اسباب جاننے کے لیے کوئی رپورٹ تیار کی گئی ہے۔ جبکہ 2021 میں اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کی جانب سے ایک چشم کشا رپورٹ آئی تھی جس پر بھی کسی کی آنکھیں نہیں کھلیں۔
اقوام متحدہ کی اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کی اشرافیہ اقتصادی مراعات کی مد میں ساڑھے 17 ارب ڈالرسالانہ خرچ کرتی ہے۔ جو ملکی معیشت کا 6 فی صد سے بھی زیادہ ہے۔ اس میں فوجی افسران کی مراعات پر 2 ارب ڈالر سالانہ خرچ ہوتا ہے۔ 2018 اور 2019 میں پاکستان کی آمدنی 315 ارب ڈالر سے زیادہ ہوئی تھی اس آمدنی کا 9 فی صد حصہ ایک فی صد امیر طبقے نے مراعات کے ضمن میں استعمال کیا تھا۔ ان کے مقابلے میں ایک فی صد غریب طبقے کے حصے میں 0.15فی صد آیا یعنی انہیں مجموعی آمدنی کا ایک فی صد بھی نہیں ملا۔ مجموعی طور پر، 20 فی صد امیر ترین پاکستانی قومی آمدنی کا 49.6 فی صد حاصل کر لیتے ہیں، جبکہ غریب ترین 20 فی صد، کے پاس صرف 7 فی صد ہے۔ اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کی قومی انسانی ترقی کی رپورٹ 220 ملین آبادی والے جنوبی ایشیائی ملک پاکستان میں عدم مساوات کے مسائل کی نشاندہی کرتی ہے۔ پاکستان میں مراعات یافتہ طبقات کی مراعات میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے جس کے نتیجے میں 2009 میں متوسط طبقے کی آبادی 42 فی صد سے کم ہوکر 2019 میں 36 فی صد ہوگئی۔ کسی ملک میں متوسط طبقے میں کمی واقع ہونا اس بات کی علامت ہے کہ ملک میں غربت بڑھ رہی ہے۔
پاکستان میں ججوں کی تنخواہیں 15 سے 20 لاکھ روپے ماہانہ ہیں اور ان کی بجلی مفت ہے، ان کو گیس کی فراہمی مفت ہے، ان کو ماہانہ 600 لیٹر سے زائد پٹرول دیا جاتا ہے مکان کا کرایہ بھی سرکار کی طرف سے ادا کیا جاتا ہے۔ اس کے باوجود لاکھوں مقدمات زیر التواء ہیں۔ یہی حال بیوروکریسی کے اعلیٰ افسران کا ہے ان کی تنخواہوں میں ہر بجٹ میں اضافہ ہوتا ہے ان کا بجلی کا بل، گیس کا بل، مکان کا کرایہ اور 300 لیٹر ماہانہ پٹرول بھی حکومت ادا کرتی ہے۔ اراکین پارلیمنٹ کی بھی تنخواہیں لاکھوں میں ہیں ان کو بھی طرح طرح کی مراعات دی جاتی ہیں، جہاز اور ریلوے کے ٹکٹوں میں انہیں غیر معمولی رعایت ملتی ہے۔ افواج پاکستان کے افسران بھی ہوائی جہاز اور ریل کے سفر میں یہ رعایت حاصل کرتے ہیں۔ جبکہ یہ رعایت نان کمیشنڈ فوجیوں اور افسران تک محدود کردینی چاہیے۔ جبکہ بھارت میں دہلی اور بھارتی پنجاب میں 300 یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والے صارفین سے بجلی کا بل نہیں لیا جاتا۔ یہ بجلی کی بچت کا نہایت کامیاب طریقہ ہے جس میں صارف خود احتیاط کرتا ہے کہ اس کا بل 300 یونٹ سے بڑھنے نہ پائے۔ اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان کا طبقہ اشرافیہ اپنی مراعات میں کمی لائے اپنی بجلی گیس ٹیلی فون کا بل خود ادا کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے مکان کا کرایہ بھی اپنی ہی تنخواہ سے ادا کرے۔ جیسا کہ نجی شعبے کے لوگ کرتے ہیں۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ بتاتی ہے کہ طبقہ اشرافیہ اپنی مراعات پر ساڑھے 17 ارب ڈالر سالانہ اُڑاتا ہے اگر وہ اپنی مراعات میں کمی کرلے تو پاکستان سالانہ کم ازکم 10 ارب ڈالر کی بچت کرسکتا ہے۔ پاکستان کے اراکین پارلیمنٹ کی تنخواہیں اتنی پر کشش ہیں کہ تحریک انصاف کے اراکین پارلیمنٹ اپنی نشستوں سے استعفا دینے سے کترا رہے ہیں۔ یہ لوگ عوامی نمائندے ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن عوام کے ٹیکسوں کی رقم پر عیاشی کرتے ہیں، موٹی موٹی تنخواہیں وصول کرتے ہیں، ان کے بجلی، گیس اور ٹیلی فون کے بل حکومت ادا کرتی ہے۔ سرکاری اداروں میں گرمیوں میں ائرکنڈیشنڈ کی سہولت ہمہ وقت رہتی ہے۔ سردیوں میں اسلام آباد کے سرکاری دفاتر میں بجلی کے ہیٹر جلتے ہیں ان سب کا خرچ حکومت اٹھاتی ہے۔ دفاتر میں آئے دن فرنیچر تبدیل ہوتا رہتا ہے جس پر لاکھوں روپے بلاوجہ خرچ ہوجاتے ہیں۔ سرکاری گاڑیاں مفت پٹرول ملنے کے باوجود اعلیٰ سرکاری افسران کے ذاتی استعمال میں رہتی ہیں اور جن میں لاکھوں روپے کا سرکاری پٹرول استعمال ہوتا ہے اور انہی لوگوں کو اس وقت اعتراض ہوتا ہے جب حکومت پٹرول کی قیمت کم کرتی ہے۔ کیونکہ یہ لوگ مفت ملنے والے پٹرول کی رقم اپنی تنخواہوں میں شامل کرلیتے ہیں۔ ان کو مفت پٹرول کے واؤچر دیے جائیں اور پٹرول پمپوں کو پابند کیا جائے کہ وہ ان سے پٹرول نہ خریدیں بلکہ ان کی پٹرول کے لیے رجسٹرڈ گاڑی ہی میں پٹرول ڈالیں اور ان افسران کے بجلی اور گیس کی ایک حد مقرر کی جائے کہ اس حد تک ان کے بل حکومت ادا کرے گی اور یہ بھی طے ہوجائے کہ اس حد سے اگر تجاوز ہو تو سارا بل اس سرکاری ملازم کو ادا کرنا ہوگا۔ اگر ایسا نہیں ہوسکتا تو کم از کم یہ کیا جائے کہ مفت بجلی گیس اور پٹرول استعمال کرنے والے سرکاری ملازمین کے بل سوشل میڈیا پر جاری کیے جائیں تاکہ قوم کو معلوم تو ہوکس نے کتنے یونٹ مفت بجلی استعمال کی کس نے کتنے مکعب فٹ گیس جلائی اور کس نے ماہانہ کتنے لیٹر مفت پٹرول استعمال کیا اور اس نے ان سب مراعات اور سہولتوں کے عوض قوم کی کیا خدمت کی۔ ایک بہت بڑی مد میڈیکل الاؤنس کی ہے اس کا بھی احتساب ہونا چاہیے کیونکہ مفت طبی سہولت ہر پاکستانی کا حق ہے صرف سرکاری ملازمین اس کے مستحق نہیں ہیں۔
سچ تو یہ ہے کہ جب یہ ناانصافیاں ہوتی ہیں تو اللہ تعالیٰ وہ نعمت چھین لیتا ہے جو اس نے پوری قوم کے لیے دی ہوتی ہے۔ پاکستان بھی اس لیے دیوالیہ ہوگا کہ مراعات یافتہ طبقہ عوام کو ان کا حق دینے کے لیے تیار نہیں ہے اور خدانخواستہ یہ نوبت آگئی تو خانہ جنگی کے خطرات ہیں۔ اب طبقہ اشرافیہ کی باری ہے کہ وہ اپنی مراعات کی قربانی دیں اور سیاسی جماعتیں ملکی سلامتی کے لیے کوئی قدم اٹھائیں۔