اعترافات ہی آگے بڑھنے کا سبب بن سکیں گے

453

ہر وجود کا نقطہ آغاز ’’لا‘‘ ہی ہوا کرتا ہے۔ اللہ کے مالک و خالق ہونے کا اعلان بھی ’’لا‘‘ سے اس لیے کیا جاتا ہے کہ کائنات کو تخلیق کرنے والا کوئی بھی نہیں سوائے اللہ کے۔ اسی طرح قرآن میں جا بجا ہر حاصل کو نفی یعنی لا ہی سے شروع کیا گیا ہے جیسے ’’انسان کے لیے کچھ بھی نہیں سوائے جس کے لیے وہ کوشش کرے‘‘۔ اگر آج سال 2022 کے سب سے آخری دن یعنی 31 دسمبر بروز ہفتہ 2022 میں شائع ہونے والے اخبارِ جسارت کے اداریے پر غور کیا جائے تو میرے نزدیک اس کا نچوڑ ہی یہی ہے کہ اگر ہم آگے کی جانب بڑھنا چاہتے ہیں اور آج رات 11 بجکر 60 ویں منٹ کے اختتام کے فوراً بعد 2023 میں اس اعتراف کے بعد داخل ہونا چاہتے ہیں کہ 2022 اور اس سے قبل جتنے بھی ماہ و سال گزرے ہیں وہ ہم نے اللہ کے دین سے بغاوت میں گزارے ہیں اور اب ہم سچے دل سے اللہ کی جانب رجوع کرتے ہوئے نہ صرف اس سے اپنے گناہوں، غفلتوں اور نا فرمانیوں کی معافی کے طلب گار ہیں بلکہ 75 سال قبل کیے گئے وعدوں کی جانب پلٹ کر ملک و قوم کی خدمت کرنا چاہتے ہیں تو اس کی رحمت سے توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ نہ صرف ہمیں معاف کردے گا بلکہ ساتھ ہی ساتھ ہمیں ایک موقع اور دے گا کہ ہم وہ خطہ زمین جس کو اللہ کے نام پر حاصل کیا تھا، اس پر اس کے رسول محمدؐ کے لائے ہوئے دین کو نافذ کر کے رہیں گے خواہ یہ بات دنیا پرستوں کو کتنی ہی ناگوار کیوں نہ گزرے۔ اگر ہم اپنی ساری غلطیوں اور غفلتوں کا من حیث القوم اعتراف کرنے کے بعد نہایت مخلص ہو کر اس بات کا عہد کر لیں گے کہ اس سلسلے میں کسی بھی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم اپنی منزل پانے میں کامیاب نہ ہو سکیں۔
صاحب اداریہ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ ’’دہشت گردی کے خاتمہ کے نام پر امریکا کی افغانستان کے خلاف بیس برس تک جاری رہنے والی جارحیت کے تحفہ کے طور پر پاکستان پر مسلط ہونے والی دہشت گردی کے سبب پاکستان کو کھربوں روپے کا مالی نقصان برداشت کرنا پڑا جب کہ ہزاروں جانوں کی قربانی اس کے علاوہ تھی۔ امریکا کے پندرہ اگست 2021ء کو شکست فاش کا داغ پیشانی پر سجائے بے نیل مرام افغانستان سے نکلنے کے بعد بڑی مشکلات آزمائشوں اور قربانیوں کے ذریعے دہشت گردی کے اس جن کو بوتل میں بند کیا گیا تھا مگر افسوس کہ دشمن اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کی خاطر اس جن کو آزاد کرانے میں بڑی حد تک کامیاب ہوتا دکھائی دے رہا ہے‘‘۔ جس جنگ کو امریکی جنگ قرار دیا جا رہا ہے وہ واقعی صرف اور صرف امریکی مفادات ہی کے لیے لڑی گئی تھی کیونکہ جب روس افغانستان سے بھاگ جانے پر مجبور ہو گیا تھا اور امریکا پاکستان کے زینے پر چڑھ کر افغان سرحد کی دیوار پھلانگ کر افغانستان میں داخل ہوا تھا تو پھر ہر مجاہد کو یہ بات سمجھانے کی کوشش کی جا رہی تھی کہ اب جو کچھ افغانستان میں ہو رہا ہے وہ جہاد نہیں قتال ہے۔ اس کے بعد جب مجاہدین نے حکومت پاکستان سے کچھ اور نہیں صرف یہ مطالبہ رکھا کہ وہ پاکستان میں اسلامی قوانین کو نافذ العمل بنائے تو ان کی بات پر غور کرنے کے بجائے ان پر آہن و فولاد کی بارش شروع کردی اور یہ سمجھ لیا کہ اب کسی جانب سے ایسی گستاخانہ آواز کبھی نہیں ابھرے گی۔
آگے چل کر صاحب اداریہ لکھتے ہیں کہ ’’وطن عزیز کو پچھلا پورا سال شدید نوعیت کے سیاسی بحران کا سامنا رہا جس کی ذمے داری موجودہ و سابقہ حکمرانوں اور اسٹیبلشمنٹ کے سوا کسی اور پر عائد نہیں کی جا سکتی‘‘۔ یہ ایک ایسی اٹل حقیقت ہے کہ اس سے مفر ممکن نہیں لیکن جن جن پر ذمے داریاں عائد کی جا رہی ہیں بات اس سے بھی آگے کی ہے۔ اس ملک کی تباہی و بربادی میں صرف حکمرانوں اور اسٹیبلشمنٹ ہی کا ہاتھ نہیں کیونکہ ملک کی تمام سیاسی پارٹیاں خواہ وہ کسی بھی الیکشن میں کوئی بھی سیٹ حاصل نہ کر سکی ہوں یا چند ارکان کو ایوانوں کی زینت بنا سکی ہوں، وہ سب بھی اور اس سے بڑھ کر ملک کی ساری دینی جماعتیں، مذہبی گروہ اور ہزاروں کی تعداد میں دینی مدارس، سب ہی اس ملک کو کفر و الحاد کی جانب لے جانے میں کسی سے پیچھے نہیں رہے۔ اگر ہزاروں دینی مدارس میں لاکھوں طالب ِ علم دینی علم حاصل کر رہے ہوں، لاکھوں مساجد ہوں، کروڑوں افراد مکمل مذہبی و نیم مذہبی جماعتوں کو ماننے والے اور ان کی آواز پر جلسے جلوسوں اور ریلیوں میں نکل آنے والے ہوں تو پھر مذہبی، نیم مذہبی جماعتوں اور لاکھوں کروڑوں فارغ التحصیل ہونے والے ان طالب ِ علموں کا کیا مصرف ہے جن کو اس بات کی پروا ہی نہیں ہے کہ یہ ملک صرف اور صرف اسلام کے لیے حاصل کیا گیا تھا۔ یہاں یہ بات بھی غور طلب ہے کہ ہر سیاسی، نیم سیاسی و مذہبی اور خالص دینی جماعت ہونے کے دعویدار جماعتیں، سب کی سب اپنے سوا ہر دوسری جماعت کو ملک کی تباہی و بربادی کا ذمے دار ٹھیراتی نظر آتی ہے جبکہ مختلف ادوار میں ملک کی ہر قسم کی جماعتیں ان جماعتوں کے ہاتھ پاؤں مضبوط کرتی چلی آئی ہیں جو حکومتیں بناتی رہی ہیں۔ اگر وہ ماضی ہی نہیں، حال میں بھی اپنا محاسبہ کرنے کے لیے تیار نہیں تو یہ ایک قومی المیے کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ اسی بات کو ڈھکے چھپے انداز میں صاحب اداریہ کچھ یوں بیان کرتے ہیں کہ ’’روز افزوں دہشت گردی، سیاسی بحران اور عدم استحکام کے ساتھ ساتھ معاشرہ اس وقت ناقابل بیان اخلاقی انحطاط سے بھی دو چار ہے، دین سے دوری نے لوگوں کو اخلاقی اقدار اور معاشرتی روایات سے بے گانہ کر دیا ہے‘‘۔ ان سب بیان کردہ باتوں کو سامنے رکھا جائے تو اس بات میں کوئی شک باقی نہیں رہنا چاہیے کہ ہم میں سے ہر ہر فرد، جماعت اور گروہ اس ملک کو اس حالت میں پہنچانے میں برابر کا شریک ہے۔ سانحے پر سانحہ یہ ہے کہ ہم میں سے ہر کوئی تباہی و بربادی کی ذمے داری قبول کرنے کے بجائے سامنے والے کی جانب انگلیاں اٹھا اٹھا کے چلا رہا ہے لیکن ان تین انگلیوں کی جانب نظر بھرنے کے لیے تیار نہیں جو خود اس کی جانب اشارہ کر رہی ہیں۔
بہت سیدھی سادی بات یہ ہے کہ اگر 2023 شروع ہونے کے ساتھ ہی ہم نے اپنے آپ کا آغاز ’’لا‘‘ سے نہیں کیا تو ہم جتنا بھی یہ سمجھیں کہ ہم ’’ہیں‘‘ تو یقین مانے ہم شاید ہی ’’ہیں‘‘ میں شمار کیے جا سکیں لہٰذا ضروری ہے کہ ہر فرد اور جماعت اپنا آغاز ’’نہیں‘‘ سے کرے تاکہ ہر آنے والے ماہ و سال ’’ہاں‘‘ میں تبدیل ہوتے چلے جائیں۔