فُحْش، فَاحِشَۃ، فَوَاحِشْ و فَحْشَاء کے الفاظ عام طور پر بدکاری اور عملِ قومِ لوط کے لیے استعمال ہوتے ہیں، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اور زنا کے قریب (بھی) نہ جاؤ، کیونکہ وہ بے حیائی کا کام ہے اور بہت ہی بُرا راستہ ہے‘‘۔ (بنی اسرائیل: 32) اس آیت میں زنا کو ’’فاحشہ‘‘ سے تعبیر فرمایا ہے، نیز دوسرے مقام پر عملِ قومِ لوط کوبھی فاحشہ سے تعبیر کیا گیا ہے: ’’اور لوط نے جب اپنی قوم سے کہا: کیا تم ایسی بے حیائی کا کام کرتے ہو جو تم سے پہلے جہاں والوں میں سے کسی نے نہیں کیا‘‘۔ (الاعراف: 80) لیکن یہ اصطلاح وسیع تر معنوں میں بھی استعمال ہوتی ہے، ان میں بے حیائی، عریانی، بدکاری، حیاسوز فلمیں اور ڈرامے، برہنہ تصاویر، مجالس میں نسوانی بدن کی نمائش، عورتوں اور مردوں کا اختلاط اور بوس وکنار سب شامل ہیں، قرآنِ کریم میں ہے: ’’کہہ دیجیے: میرے رب نے عَلانیہ اور پوشیدہ بے حیائی کو حرام قرار دیا ہے‘‘۔ (الاعراف: 33) علامہ ابن اثیر جزری لکھتے ہیں: ’’ہر وہ گناہ اور معصیت جس کی قباحت وشناعت زیادہ ہو، اس کو فُحْش، فَحْشَاء اور فَاحِشَۃ کہتے ہیں اور فَاحِشَۃ اگرچہ بکثرت زنا کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، لیکن ہر قبیح قول وفعل کو فَاحِشَۃ کہا جاتا ہے اور کسی کی بات کا سختی اور جارحیت سے جواب دینے کو بھی فُحش کہتے ہیں‘‘۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’بے شک جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ایمان والوں میں بے حیائی کی بات پھیلے، ان کے لیے دنیا اور آخرت میں درد ناک عذاب ہے‘‘، (النور: 19) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بے حیائی کی ایک جھوٹی خبر کی اشاعت وترویج کو بھی بے حیائی سے تعبیر فرمایا ہے اور اِسے دنیا وآخرت میں دردناک عذاب کا باعث قرار دیا ہے، پس جب بے حیائی کی ایک جھوٹی خبر کی اشاعت اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس قدر بڑا جرم ہے، تو آج کل جدید میڈیا کے ذریعے شب وروز مسلم معاشرے میں جو بے حیائی پھیلائی جارہی ہے، اللہ کے نزدیک یہ کس قدر بڑا جرم اور گناہ ہوگا۔ اسلام کی بنیادی تعلیمات میں اخلاقی اصلاح اور ماحول کی پاکیزگی کے علاوہ اُن تمام محرکات کو دور کرنا بھی شامل ہے جن سے فحش رویوں کو تقویت حاصل ہوتی ہے، اِسی اُصول کی بنا پر اسلام برائی اور بے حیائی کے واقعات کی تشہیر سے منع کرتا ہے، رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’میری تمام اُمت معاف کردی جائے گی، سوائے اُن لوگوں کے جو عَلانیہ گناہ کریں اور عَلانیہ گناہ کرنے کی ایک صورت یہ بھی ہے: ’’کوئی شخص رات کو کسی گناہ کا ارتکاب کرے اور اس کی صبح اس حال میں ہو کہ اللہ نے اس کے گناہ پر پردہ ڈالے رکھا ہو اور وہ (کسی سے کہے): میں نے کل رات یہ یہ گناہ کیا تھا، جبکہ اس کی رات اس حال میں گزری تھی کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے گناہ پر پردہ ڈالے رکھا، لیکن صبح ہوتے ہی وہ خود اپنے بارے میں اللہ کے پردے کو چاک کرنے لگا‘‘۔ (بخاری)
جب کوئی انسانی گروہ کسی جرم کا عادی ہوجاتا ہے اور جان بوجھ کر جرم کا ارتکاب کرتا ہے تو اس کا طریقۂ کار یہی ہوتا ہے کہ وہ بدی کو نیکی اور برائی کو اچھائی ثابت کرنے کی کوشش کرنے لگتا ہے، آج کل ہم جدید میڈیا کی وجہ سے بڑے پیمانے پر ’’اشاعت ِ فاحشہ‘‘ کے دور سے گزر رہے ہیں اور اس پر ریاست و حکومت کا کنٹرول اور نگرانی کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ کئی مسلمہ اخلاقی برائیاں، تہذیب وثقافت کے نام سے رائج ہوگئی ہیں، جو لوگ ان سے اختلاف رکھتے ہیں، بُرا جانتے ہیں، ان کو تہذیبِ جدید سے ناآشنا، بنیاد پرست اور انتہاپسند جیسے القابات سے نوازا جاتا ہے۔ مغرب میں جہاں ایک حد تک ’’اشاعت ِ فاحشہ‘‘ کسی اخلاقی برائی یا قانونی جرم کے زمرے میں نہیں آتا، کم ازکم اتنا اہتمام ضرور ہے کہ حیا سوز فلمیں اور ڈرامے الیکٹرونک میڈیا پر رات گئے اُس وقت چلائے جاتے ہیں جب اسکول جانے والے بچے سو جائیں، لیکن ہمارے ہاں چوبیس گھنٹے اس پر کوئی پابندی نہیں ہے۔
قرآن وسنت میں بے حیائی کے کاموں سے بچنے اور حیا کی تلقین کی گئی ہے، آپؐ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ سے حیا کرو جیسا کہ اس سے حیا کرنے کا حق ہے، صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم اللہ سے حیا کرتے ہیں اور اس پر اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں، آپؐ نے فرمایا: حیا کا حق یہ نہیں جو تم نے سمجھا ہے، اللہ سے حیا کرنے کا حق یہ ہے کہ تم اپنے سر اور اس کے ساتھ جتنی چیزیں ہیں ان سب کی حفاظت کرو اور اپنے پیٹ اور اس کے اندر جو چیزیں ہیں، ان کی حفاظت کرو اور موت اور ہڈیوں کے سڑجانے کو یاد کرو اور جسے آخرت کی چاہت ہو وہ دنیا کی زینت کو ترک کردے، پس جس نے اسے پورا کیا تو حقیقت میں اُسی نے اللہ تعالیٰ سے حیا کی جیساکہ اُس سے حیا کرنے کا حق ہے‘‘۔ (ترمذی) صفتِ حیا فطرتِ سلیمہ کو جانچنے کی ایک کسوٹی ہے، آپؐ کا فرمان ہے: ’’لوگوں تک گزشتہ نبیوں کا جو کلام پہنچا، اس میں یہ بھی مذکور تھا: جب تم میں حیا نہ رہے تو پھر جو چاہے کرو‘‘۔ (بخاری) حیا ایمان کا ایک اہم شعبہ ہے، احادیث مبارکہ میں ہے: ’’ایمان کے ساٹھ سے زیادہ شعبے ہیں اور حیا بھی ایمان کا ایک شعبہ ہے‘‘، (بخاری:) ’’حیا ایمان کا حصہ ہے اور اہلِ ایمان جنت میں ہوںگے، بے حیائی ظلم ہے اور ظالم جہنم میں جائیں گے‘‘۔ (ترمذی)
اللہ تعالیٰ نے حیا کا ملکہ اور اس کی استعداد روزِ اول سے سیدنا آدم وحواؑ کی جبلت میں پیوست فرمائی تھی، چنانچہ جب آدم وحواؑ کو اِغوائے شیطان کے باعث بے لباس کردیا گیا تو اس کی بابت قرآن کریم میں ہے: ’’پھر شیطان نے فریب سے اُنہیں (اپنی طرف) مائل کرلیا، پس جب اُنہوں نے اس درخت سے چکھا تو ان کا ستر ان پر منکشف ہوگیا اور وہ اپنے جسموں کو جنت کے پتوں سے ڈھانپنے لگے اور ان کے رب نے ان سے پکار کر فرمایا: کیا میں نے تم دونوں کو اس درخت سے منع نہیں کیا تھا اور تم دونوں سے یہ نہیں فرمایا تھا کہ بے شک شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے‘‘۔ (الاعراف: 22) الغرض مُرورِ زمانہ سے صورتیں بدلتی رہتی ہیں، لیکن اولادِ آدم کے خلاف شیطان کا حربہ آج بھی وہی ہے جو ابتدائے آفرینش سے تھا کہ اُسے بے لباس کردے، برہنگی، بے حجابی اور بے حیائی کے کاموں میں مبتلا کردے۔
رسول اللہؐ کا فرمان ہے: ’’جب کسی قوم میں عَلانیہ طور پر بے حیائی فروغ پاجائے تو اُن پر طاعون کو مسلّط کردیا جاتا ہے اور ایسی بیماریوں میں انہیں مبتلا کردیا جاتا ہے جن کا پچھلی قوموں نے نام تک نہیں سنا ہوتا‘‘۔ (ابن ماجہ) اَخلاق باختگی اور حیا سوزی کی وبا بھی جسمانی وبائوں کے مقابلے میں کچھ کم ہلاکت خیز نہیں ہے۔ نبیؐ نے فرمایا: ’’اُس ذات کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے! یہ اُمت اُس وقت تک فنا نہیں ہوگی جب تک وہ سرِ عام عورت سے بدکاری کے ارتکاب کونہ دیکھ لے، (اور اس وقت) اُن میں بہترین لوگ وہ کہلائیں گے جو کہیں گے: کاش! تم نے یہ جرم پردے کے پیچھے کیا ہوتا‘‘۔ (مسند ابویعلی)
گزشتہ برسوں میں بدفعلی اور بدکاری کے پروگراموں کو نہایت نمایاں کر کے نشر کیا جاتا رہا، خاص طور پر کم عمر بچیوں کے واقعات کو بار بار نشر کیا جاتا رہا، اس سے شعوری عمر میں داخل ہونے والے نوخیز لڑکے اور لڑکیاں متاثر ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں جنرل پرویز مشرف کے دور میں اچانک جدید میڈیا کا بازار سجا، اب تو مختلف زبانوں میں نجی ٹیلی ویژن چینلوں کی تعداد پچاس سے زائد ہوگی۔ مغربی دنیا میں ارتقائی عمل سے گزرتے ہوئے جدید میڈیا موجودہ دور تک پہنچا، لیکن ہمارے ہاں ایسا لگتا ہے کہ پلک جھپکتے ہی میڈیائی انقلاب برپا ہوگیا۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے بچہ پیدا ہوتے ہی بالغ ہوگیا ہو، اللہ تعالیٰ کی صفاتِ جلیلہ میں سے ایک ’’رَبّ‘‘ ہے، ربوبیت کے معنی ہیں: ’’کسی چیز کو نقطۂ آغاز سے لے کر بتدریج مرتبۂ کمال تک پہنچانا‘‘، انسان کی تخلیق میں بھی قدرت نے اپنی شانِ ربوبیت کی جلوہ گری فرمائی اوراس کے متعدد تخلیقی مدارج قرآنِ کریم میں بیان فرمائے، پیدائش کے بعد پھر تدریجی ارتقائی عمل سے گزار کر کامل الخِلقت انسان بنانا،اس کے لیے قرآنِ کریم میں فرمایا: ’’حَتّٰی بَلَغَ اَشُدَّہٗ‘‘ (حتیٰ کہ جب وہ اپنی پوری قوت کو پہنچا)، اسی طرح جسمانی بلوغت کے ساتھ ساتھ جنسی بلوغت بھی ارتقائی مراحل سے گزرتی ہے، اللہ تعالیٰ کی صفات میں ایک صفت ’’حکیم ‘‘ بھی ہے اور عربی کا مقولہ ہے: ’’حکیم کا کوئی فعل حکمت سے خالی نہیں ہوتا‘‘، جب اللہ تعالیٰ کی ذات کے لیے حکیم بولا جائے تو اس کے معنی ہوں گے: ’’ایسی دانش کہ جس کی کوئی حدّ وانتہا نہیں ہے‘‘۔
ہماری عاجزانہ گزارشات کا مقصد یہ ہے کہ میڈیا مالکان، پالیسی سازوں، پروگرام ڈائریکٹرز اور اینکر پرسنز کے لیے تربیتی نشستوں کا اہتما م ہونا چاہیے، جن میں انہیں وطنِ عزیز کی دینی، اخلاقی اور معاشرتی اَقدار کا شعور دیا جائے اور ماہرینِ نفسیات کا بھی اس میں کردار ضروری ہے کہ کسی سانحے، حادثے یا جرم کو کس طرح پیش کیا جائے کہ ہماری نئی نسل اس کے برے اثرات سے ممکن حد تک محفوظ رہے۔
اسلام نے اخلاقی مفاسد اور جرائم کے سدِّباب کے لیے مقاصدِ شرعیہ میں ’’سدِّ ذرائع‘‘ کی حکمت کو اختیار کیا ہے اور اس کی شریعت میں کئی مثالیں موجود ہیں، رسول اللہؐ نے بعض اوقات دین کی عظیم تر حکمت کی خاطر مستحب اور اَولیٰ کام کو بھی ترک فرمایا ہے، بعض اوقات کسی رخصت ِ شرعی پر عمل کرنے میں صحابۂ کرام کو تحفظ یا تردُّد ہو تا تھا، تو رسول اللہ ؐنے رخصتِ شرعی کو مشروع کرنے کے لیے خلافِ اَولیٰ کام بھی کیا، یہ بحیثیت ِ شارع آپ ؐپر واجب تھا، جیسے سفرِ جہاد میں عصر کے بعد سرِعام رمضان کے روزے کو توڑنا۔ آج ہمیں جو مسئلہ در پیش ہے اس کے بارے میں رسول اللہؐ نے یہ احتیاطی حکم جاری فرمایا: ’’جب تمہاری اولاد سات سال کی ہو جائے تو انہیں نمازکا حکم دو اور جب وہ دس سال کے ہو جائیں تو ان کے بستر الگ کر دو‘‘۔ (سنن ابو داؤد)۔
غور کا مقام ہے کہ جب بہنوں اور بھائیوں کے بارے میں بھی رسول اللہ ؐ نے اتنی احتیاط برتنے کی تعلیم فرمائی ہے، تو اجنبی نوجوانوں، لڑکوں اور لڑکیوں کا بے حجاب اختلاط اور بے تکلّفی کس قدر اخلاقی مفاسد کا سبب بنے گا۔