بھولے بھالے معصوم حکمران

526

پاکستان میں اب تک جتنے بھی حکمران آئے، خواہ پس ِ آئینہ والے ہوں یا سرِ آئینہ والے، وہ سارے کے سارے نہایت معصوم، بھولے بھالے اور بے قصور ہی آئے۔ ملک و ریاست کے خلاف جو کچھ بھی ہوتا رہا وہ سب کچھ ان سے پہلے والوں کی مجرمانہ غفلتیں ہی رہیں۔ کبھی کسی حکمران نے یہ نہیں کہا کہ ملک میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے، اس ’’ہونے‘‘ میں اس کا ذرہ برابر ہی سہی، قصور ہے۔ بے شک پہلے کیے ہوئے غلط کاموں میں نئے آنے والے حکمران کا قصور نہیں رہا ہوگا لیکن یہ کیسے ممکن ہے کہ جو کچھ خود ان کے اپنے دورِ اقتدار میں ہو رہا ہو اس میں بھی سابقین کا قصور نکل آئے۔ یہ ہے وہ بات جو ہم جیسے کم عقلوں کو سمجھ میں نہیں آ سکتی۔ یہ سنتے آنے کا ایک طویل دورانیہ ہے کہ ہر آنے والا حکمران اپنی نا اہلیوں کا قصوروار بھی ہمیشہ اپنے سے پہلے والوں کو گردانتا رہا ہے۔ اگر کسی کے دورے حکومت میں ڈالر کی اڑان کا تیر سیدھا ہو جاتا ہے، اسٹاک مارکیٹ زمین بوس ہونے لگتی ہے، روپیا غمزدہ جھنڈوں کی طرح سر نگوں ہو جاتا ہے، مہنگائی کا تیر آسمان کی جانب محو ِ پرواز ہوجاتا ہے اور بے روزگاری میں ہوش روبا اضافہ دیکھنے میں آنے لگتا ہے تو حاضر حکمرانوں کی جانب سے فوراً یہ بیان داغ دیا جاتا ہے کہ ہم سے پچھلی حکومت نے حالات ہی ایسے پیدا کر دیے تھے، جس کی وجہ سے آج قوم کو یہ دن دیکھنے پڑ رہے ہیں۔
جسارت میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق ’’وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ مہنگائی کا بوجھ عوام پر منتقل کرنا مجبوری ہے۔ اسلام آباد میں شمسی توانائی کے حوالے سے منعقدہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ مسائل کا پہاڑ 8 ماہ میں ختم نہیں ہو سکتا‘ حکومت کو مزید وقت درکارہے، بجلی کی مد میں گردشی قرض 2 ہزار 500 ارب ہوچکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیلاب متاثرین کو سبسڈی دینے کے لیے بھی ہمیں آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑتا ہے، مختصر مدت میں ہمارے پاس کوئی آپشن نہیں، آئی ایم ایف کا پروگرام مکمل کرنا ہے جو آئندہ جون تک ختم ہوگا۔ وزیراعظم نے کہا کہ جب گیس سستی تھی تو پی ٹی آئی نے نرخ کم نہیں کیے، وقت پر سستا تیل اور گیس نہ خرید کر مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا‘‘۔ اس کانفرنس میں شہباز شریف نے ایک ہی سانس میں جتنا رونا ہو سکتا تھا رو دیا اور ان کے رونے کا ما حاصل وہی سب کچھ تھا جو ان سے پہلے سارے حکمرانوں کا رہا ہے۔ اگر گیس کی قلت ہے، ملک میں مہنگائی ہے یا بے روزگاری کا جن بے قابو ہوتا جا رہا ہے تو ان سے پہلی حکومت کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے ہے۔ اس کانفرنس سے پہلے بھی وہ یہ بات کہہ کر قوم کو حیران کر چکے ہیں کہ وزارتِ عظمیٰ کا حلف اٹھانے سے پہلے انہیں اس بات کا اندازہ ہی نہیں تھا کہ ملک معاشی اعتبار سے اتنی خراب حالت میں ہے کہ اس کو سنبھالنا جوئے شیر لانے سے بھی زیادہ مشکل کام ہے۔ اسی قسم کی بات اس سے قبل کئی حکمران کر چکے ہیں۔ جنرل ضیا نے ایک موقع پر فرمایا تھا کہ انہیں اس بات کا علم نہیں تھا کہ جرائم پیشہ اور دولت کو لوٹنے والوں کے خلاف ہاتھ ڈالنا بھڑ کے چھتے میں ہاتھ ڈالنا جیسا کام ہوگا۔ بقول ان کے ہم جس پھوڑے کو معمولی نوعیت کا سمجھ کر آپریشن کرتے ہیں وہ کینسر کا پھوڑا ثابت ہوتا ہے۔
شہباز شریف کی طرح عمران خان بھی کہتے رہے ہیں کہ مجھے تو معلوم ہی نہیں تھا کہ پاکستان میں معاشی صورت حال اس درجہ خراب ہے۔ ان کو ویسے بھی بے شمار خبروں کا علم یا تو ٹی وی سے ہوتا تھا یا بیوی سے۔ اب کوئی بتائے کہ جب ملک کا حکمران ہی اتنا معصوم، بھولا بھالا اور جلیبی کی طرح سیدھا سادہ ہو اور اسے تخت ِ اقتدار سنبھالنے سے پہلے ملک کی حالات کا علم ہی نہ ہو تو ظاہر ہے کہ وہ اقتدار سنبھالنے کے بعد پہلے حالات کو سمجھے گا یا ان کی خرابیوں کو دور کرنے بیٹھ جائے گا۔
عمران خان پر سات خون معاف اس لیے کہ وہ تو اگر تخت ِ اقتدار پر پہنچا بھی دیے گئے تھے تو وہ اور ان کی ٹیم کے بے شمار ارکان تو پہلی پہلی بار اقتدار تک پہنچے تھے لیکن شہباز شریف کے منہ سے یہ بات نکلنا کہ انہیں معاشی صورت ِ حال کا اندازہ ہی نہیں تھا، کچھ اچھا نہیں لگ رہا۔ جو شخص ایک طویل عرصہ پاکستان کے تینوں صوبوں سے بھی بڑے صوبے کا وزیر اعلیٰ رہا ہو اور جس کی جماعت مرکز میں تین بار حکومت بنا چکی ہو، وہ یہ کہے کہ میں دودھ گلاس یا پیالی سے نہیں پی سکتا میرے منہ میں دودھ کی بوتل دو تو کیا اس کی معصومیت پر حیرت نہیں ہونی چاہیے۔
سویلین حکمرانوں کو کھینچ کھینچ کر اقتدار کی کرسی پر بٹھانے والوں سے بھی یہ سوال پوچھا جانا چاہیے کہ ان سب کو ملک و قوم سے آخر وہ کون سی دشمنی ہے جس کا بدلہ وہ 1958 سے لیتے آ رہے ہیں۔ پہلے خود ہی ساری توڑ پھوڑ کے بعد اقتدار پر قابض ہوتے رہے۔ جب دنیا نے ڈکٹیٹر شپ پر ناگواری کا اظہار کیا تو کٹھ پتلیوں کو نچانا شروع کر دیا اور پھر مسلسل نااہلوں اور ناکاراؤں کو کرسی اقتدار پر بٹھا بٹھا کر ملک کو تباہی و بربادی کے اس غار کے کنارے لا کھڑا کیا جہاں سے واپسی کی کوئی امید و آس بھی نظر نہیں آتی۔ اس وقت ملک گردن تک دلدل میںدھنسا ہوا ہے لیکن دل دہلادینے والی بات یہ ہے کہ نہ تو کوئی ادارہ اسے اس دلدل سے نکالنے کے لیے سر گرم دکھائی دیتا ہے اور نہ ہی رہنمایانِ قوم میں اتنی صلاحیت نظر آ رہی ہے کہ وہ اس ملک کو دلدل سے باہر نکال سکیں۔ تمام ادارے، سیاسی پارٹیاں اور رہنما ایک دوسرے پر الزام ترشیوں میں مصروف ہیں اور حالات کی خرابی کا ذمے دار ایک دوسرے کو قرار دینے میں لگے ہوئے ہیں۔ جب انتشار و افتراق کا ایسا عالم ہو جائے تو پھر یا تو معجزے نمودار ہوتے ہیں یا سانحات۔ دیکھیں آنے والے ماہ و سال ان دونوں میں سے کیا دکھائی دیتا ہے۔