طالبان مودی کی گودی میں

1177

افغانستان میں پاکستان اور چین کے خلاف ہونے والی کارروائیوں نے طالبان کی حکومت کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کردیے ہیں کہ ان دونوں ممالک کے خلاف ایک ہی ماہ میں ایک ہی نوعیت کے دہشت گردی کے واقعات اور ان کی ذمے داری بھی ایک ہی دہشت گرد تنظیم نے قبول کی ہے، یعنی داعش (آئی ایس آئی ایس) نے۔ ایک شبہ تو یہی ہے کہ طالبان کی نئی حکومت کیا امریکا نے بنائی ہے؟ دوحا میں ہونے والے مذاکرات میں طالبان کے 5 رہنما گوانتا ناموبے کی جیل کے قیدی رہ چکے تھے۔ جن میں سے 4 اب طالبان کابینہ کے وزیر ہیں۔ ملا خیر اللہ خیر خواہ وزیر اطلاعات و ثقافت ہیں، عبد الحق واثق ڈائریکٹر انٹیلی جنس ہیں، ملا فضل مظلوم نائب وزیر دفاع ہیں، ملانور اللہ نوری وزیر سرحدی و قبائلی امور ہیں اور محمد نبی قمری کے بارے میں علم نہیں ہے کہ وہ کیا ہیں۔ یہ تمام افراد دوحا مذاکرات میں شریک تھے۔
برطانوی تھنک ٹینک ’’انٹر نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسٹرٹیجک اسٹیڈیز‘‘ نے اپنی تازہ ترین رپورٹ ’’اسٹرٹیجک سروے 2022‘‘ میں انکشاف کیا ہے کہ افغان طالبان اور بھارت دونوں باہمی اور پر اعتماد تعلقات قائم کرنے کے لیے بے چین ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ طالبان تین وجوہات کی بناء پر بھارت کے ساتھ تعلقات میں دلچسپی رکھتے ہیں، کیونکہ انہیں امید ہے کہ بھارت کے ساتھ قریبی سیاسی اور اقتصادی تعلقات کی وجہ سے غیر ملکی سرمایہ کاری آئے گی اور علاقائی تجارت کو فروغ ملے گا۔ برطانوی انٹیلی جنس رپورٹ کے مطابق بھارت کے ساتھ رشتہ استوار کرنے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ طالبان اپنی حکومت کے لیے ہر طرح کے خطرات کا خاتمہ چاہتے ہیں اور تیسری وجہ یہ ہے کہ بھارت ان کی حکومت کو تسلیم کرلے گا تو اس کے ساتھ اچھے تعلقات کی وجہ سے افغانستان کو انسانی امداد اور ترقی میں مدد ملے گی۔
طالبان کے ساتھ بھارت کے روابط میں تیزی جون 2022 کے بعد آئی جب بھارتی وزارت خارجہ کے ساتھ طالبان کے مذاکرات شروع ہوئے۔ اسی سال دسمبر میں طالبان نے اعلان کیا کہ وہ بھارت کو افغانستان میں اس کے نامکمل منصوبے دوبارہ شروع کرنے کی اجازت دے رہے ہیں۔ بھارت اور طالبان میں اس محبت کی کیا وجہ ہے؟ بھارت تو طالبان کا دشمن تھا اور اس نے ان کے خلاف کئی فلمیں بھی بنائی ہیں جن میں طالبان کا مضحکہ اڑایا گیا ہے۔ لیکن اب طالبان بھارت کو اس کے نامکمل 20منصوبے مکمل کرنے کی اجازت دے رہا ہے، بھارت نے اشرف غنی کے دور میں افغانستان میں 3 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی تھی اور پاک افغان سرحدی علاقوں میں غیر ضروری طور پر قونصل خانے کھولے تھے۔ اب طالبان بھارت کو اس کے ادھورے ایجنڈے کو مکمل کرنے کی اجازت دے رہے ہیں۔ بھارت نے طالبان کو یہ لالچ دی ہے کہ وہ انہیں تسلیم کرے گا تو دنیا انہیں تسلیم کرے گی۔
امریکا افغانستان سے مجبوراً نکلا ہے اب وہ دوسرے انداز سے افغانستان پر قابض ہونا چاہتا ہے۔ اس کے لیے وہ افغانستان کے مغربی تعلیم یافتہ طبقے کو طالبان کے مقابلے کے لیے تیار کررہا ہے۔ اس کے لیے وہ ہر طرف سے حملوں کی تیاریاں کررہا ہے۔ امریکا نے دانستہ افغانستان کو ایسی حالت میں چھوڑا کہ وہاں پر لوگوں کو کوئی فیصلہ کرنے کا موقع نہ مل سکے امریکا کے حامی اور طالبان مخالف افغان عوام کی توقع کے خلاف امریکا راتوں رات افغانستان سے نکل گیا۔ دوسری جانب طالبان کا انتہا پسندانہ رویہ لوگوں کو ان سے بد دل کررہا ہے۔ جیسے خواتین کی تعلیم پر مکمل پابندی لگانا نہ صرف دنیا بلکہ مسلم دنیا کے لیے ناقابل برداشت ہے۔ اس بار امریکا ان کو بھارت کے ذریعے ٹریپ کررہا ہے یہی وجہ ہے کہ امریکا نے بھارت کو افغانستان میں کئی منصوبے دیے ہیں۔ افغانستان میں بھارت کا مستقل سفیر نہیں ہے لیکن بھارتی ناظم الامور بھارت کمار کی سرگرمیاں بہت تیز ہیں اسی نے طالبان کے وزیر اربن ڈیولپمنٹ و ہاؤسنگ حمداللہ نورانی سے ملاقات کی ہے کہ بھارت کے نامکمل منصوبوں کو اگر مکمل کیا گیا تو اس کے نتیجے میں افغانستان میں روزگار پیدا ہوگا۔ جبکہ چین نے طالبان کو اس سے بڑی پیش کش کی تھی بھارت کے تین ارب ڈالر کے مقابلے میں چین کی سرمایہ کاری ایک کھرب ڈالر کی ہے، امریکا چاہتا ہے کہ افغانستان سے چین کی سرمایہ کاری نکل جائے۔ چین نے امریکا کی افغانستان میں موجودگی ہی میں افغانستان میں بہت سرمایہ کاری کی ہے، لیکن طالبان کی آمد کے بعد چین نے واخان کی پٹی پر تجارتی شاہراہ تعمیر کرنے کی پیش کش کی ہے۔ (واخان جسے واخان کوریڈور، واخان پٹی اور واخان راہداری بھی کہا جاتا ہے پاکستان کے انتہائی شمالی علاقے یعنی گلگت بلتستان، چینی صوبہ سنکیانگ، افغانی بدخشان اور تاجکستان کے درمیان واقع ہے اور علاقہ افغانستان کے صوبے بدخشان کا ایک دور افتادہ ضلع ہے جہاں زندگی کی بنیادی سہولتیں بہت کم میسر ہیں۔ دراصل واخان ایک ایسا پہاڑی علاقہ ہے جو ان ممالک کے درمیان تنگ دروں پر مشتمل ہے۔ اس پٹی کی لمبائی مشرق سے مغرب تک 310 کلو میٹر اور چوڑائی 13 کلو میٹر ہے اور ایک مقام پر سکڑ کر 10 کلو میٹر رہ جاتی ہے، واخان کا دریا آب پنجہ کہلاتا ہے جو واخجیر گلیشیر سے نکلتا ہے اور دریائے آمو سے جا ملتا ہے۔ واخان سے کئی درے دوسرے علاقوں اور ملکوں تک جاتے ہیں۔ ان میں سے چار درے ایسے ہیں جو واخان کو پاکستان سے ملاتے ہیں۔ درہ بروغل واخان کو چترال اور یاسین سے ملاتا ہے (جبکہ درہ پاس چترال کو بدخشان سے ملاتا ہے)، درہ قرمبر ضلع غذر کی تحصیل اشکومن کو واخان سے جوڑتا ہے جبکہ درہ ارشاد ہنزہ اور واخان کو ایک دوسرے سے قریب لاتا ہے۔ یہ درے صدیوں سے ان علاقوں کے درمیان آمد و رفت کا ذریعہ رہے ہیں۔1893ء میں برطانوی حکومت ہند، زار شاہی حکومت روس اور افغان حکومت کے درمیان ایک معاہدہ ہوا، اس معاہدے کے تحت واخان کو ایک غیر جانبدار علاقہ قرار دیا گیا اس تقسیم کو ڈیورینڈ لائن کہا جاتا ہے۔)
چین سنکیانگ سے کابل اور پاکستانی علاقوں تک اس راہداری میں ایک تجارتی شاہراہ تعمیر کرنا چاہتا ہے۔ لیکن اس کا طالبان سے صرف ایک ہی مطالبہ ہے کہ طالبان ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ کے جنگجوؤں کو پناہ نہ دے۔ جبکہ امریکا چین کے خلاف مسلسل یہ پروپیگنڈہ کررہا ہے کہ ’’چین سنکیانگ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کررہا ہے اور مسلمانوں کو اس نے مذہبی آزادی دینے سے انکار کررکھا ہے‘‘۔ جبکہ امریکا یہ بات فراموش کررہا ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کو اپنے مذہبی عقیدے کے مطابق ذبیحے کی مکمل آزادی نہیں ہے۔ امریکا نے افغانستان میں اس وقت تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ (ای ٹی ایم ) اسلامک موومنٹ آف ازبکستان (آئی ایم یو) اسلامک جہاد یونین، جماعت انصار اللہ، جند اللہ، اور ترکستان اسلامک پارٹی (ٹی آئی پی) کی عملاً سرپرستی کررہا ہے۔ اس لیے کہ چین میں ابتری پھیلائی جاسکے،
امریکا نے ان تنظیموں کو اسلامک اسٹیٹ آف خراسان کا شوشا دیا ہے۔ جس کا دائرہ سنکیانگ سے افغانستان کے بدخشان صوبے اور تاجکستان کے کچھ حصوں پر مشتمل ہو۔ افغانستان کے صوبہ بدخشان میں اس وقت ایغور جنگجوؤں کی تربیت ہورہی ہے امریکا نے افغانستان پر اپنے قبضے کے دوران ان گروپوں کی خوب مدد کی ہے۔
افغان طالبان نے امریکا سے اپنے ملک کی آزادی کی جنگ لڑی ہے ان کا یہی کردار ہے کہ انہوں نے کسی دوسر ے ملک میں مداخلت نہیں کی ہے لیکن وہ اسلامی احکامات اور اپنی روایات میں فرق نہیں کر پا رہے ہیں خواتین کا اسلامی معاشرے میں کلیدی کردار ہے انہیں تعلیم سے دور نہیں رکھا جاسکتا خواتین کے تعلیم حاصل کرنے پر پابندی کا طالبانی حکم اسلام کے اور اللہ کے رسولؐ کے حکم کی صریح خلاف ورزی ہے۔ اب رہی چین کی بات چین سے سنکیانگ کے مسلمانوں کی مذہبی آزادی کے حوالے سے بات چیت کی جاسکتی ہے لیکن ان کے ملک میں امریکی ایجنڈے کے تحت ابتری پھیلانے والوں کی مدد کرنا درست نہیں ہے۔ طالبان خطے میں ہونے والی تبدیلیوں پر بھی نظر رکھیں، سعودی عرب اور چین کے روابط بڑھ رہے ہیں جس پر امریکا اور بھارت کو تشویش ہے، اب امریکا کے لیے افغانستان ہی رہ گیا ہے جہاں وہ چین اور پاکستان سے بدلہ لے سکتا ہے۔ پاکستان میں اسلام آباد کا حالیہ خود کش حملہ، بنوں میں انسداد دہشت گردی کے مرکز میں حملہ، بھارت کی چین کے ساتھ سرحدی جھڑپ جو 9 دسمبر کو ارونا چل پردیش کی سرحد پر ہوئی جس میں بھارت نے الزام لگایا کہ چینی بھارتی علاقے میں داخل ہورہے تھے جبکہ اس جھڑپ میں 6 بھارتی فوج زخمی ہوئے تھے۔ پھر 12 دسمبر کو کابل میں نامعلوم مسلح افراد نے اس ہوٹل پر حملہ کیا جس میں چینی باشندے ٹھیرے ہوئے تھے۔ حملے میں کئی چینی باشندے زخمی ہوئے اس حملے کی ذمے داری آئی ایس آئی ایس یعنی داعش قبول کرتی ہے جس کی سرپرستی امریکی سی آئی اے کررہی ہے۔ اس سے قبل اسی تنظیم نے 2 دسمبرکو پاکستانی سفارت خانے پر حملہ کیا جس میں پاکستانی سیکورٹی گارڈ زخمی ہوا، اور اصل نشانہ سفارت خانے کے انچارج تھے۔ ان واقعات سے یہ ثابت ہورہا ہے کہ ان واقعات کے پیچھے امریکا اور بھارت ہیں جو پاکستان اور چین کے لیے مشکلات کھڑی کرنا چاہتے ہیں۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے خلاف بیان دینے پر پاکستانی وزیر خارجہ بلاول زرداری کے سر کی قیمت بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈروں نے 2 کروڑ روپے لگائی ہے۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی ایک عالمی دہشت گرد تنظیم ہے۔ لیکن امریکا جو پہلے نریندر مودی کو بوچر آف گجرات کہہ چکا ہے لیکن اب اسے بھارت اور کشمیر میں مودی اور اس کی پارٹی کی دہشت گردی نظر نہیں آتی۔ اب یہ ثابت ہورہا ہے کہ دنیا کی مستند دہشت گرد تنظیموں سے بھارت کے رابطے ہیں جن میں سر فہرست ٹی ٹی پی اور ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ خاص طور پر شامل ہیں۔ طالبان چین کی دوستی کو ٹھکرا کر اب امریکا کے بنائے ہوئے جال میں پھنس رہے ہیں، طالبان نے دنیا بھر کی نام نہاد جہادی تنظیموں کو پناہ دے رکھی ہے یہ جانے بغیر کہ ان کا ایجنڈا کیا ہے؟ طالبان کو دیکھنا چاہیے کہ پاکستان ان کا پڑوسی ہے جس نے برسوں ان کی مدد کا الزام سہا ہے اور پاکستان میں ان کی سرگرمیوں سے صرف نظر بھی کیا ہے۔ طالبان کو سمجھنا چاہیے کہ افغانستان کی ٹرانزٹ ٹریڈ کا واحد راستہ پاکستان ہے، پاکستان اور افغانستان کی تجارت کا سالانہ حجم تقریباً 2 ارب ڈالر ہے۔ چین نے افغانستان میں ایک کھرب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے جس میں کان کنی کے کئی منصوبے ہیں۔ جبکہ بھارت کی کل سرمایہ کاری 3 ارب ڈالر تھی جس کا مقصد افغانستان سے بیٹھ کر بھارت کے پڑوسی ممالک کی جاسوسی کرنا ہے۔ جبکہ چین اور پاکستان کے لیے پر امن افغانستان ہی ان کی اقتصادی ترقی کی ضمانت ہے امریکا اور بھارت کے لیے اس بات کی کوئی اہمیت نہیں ہے کہ افغانستان میں امن ہویا نہ ہو البتہ چین اور پاکستان میں کسی صورت امن قائم نہ ہو یہ ان دونوں ممالک کی خواہش ہے۔ اس لیے طالبان ہوش کے ناخن لیں اور اپنے پڑوسیوں کو دوست بنائیں نہ کہ ان کے دشمنوں کے ساتھ دوستی بڑھائیں۔