مجھے اب اس بات کا یقین ِ کامل ہو چکا ہے کہ ہم تاقیامت اپنی تمام تر خرابیوں کے ساتھ ہی زندہ رہیں گے۔ اسی طرح لڑتے جھگڑتے، ایک دوسرے پر کیچڑ اُچھالتے، ایک دوسرے پر الزامات کی بارش کرتے اور ایک دوسرے کو غدار غدار کہتے سفرِ آخرت پر روانہ ہو جائیں گے۔ جب تک برِصغیر انڈو پاک ایک تھا، ہم پورے برِصغیر کے مسلمان صرف مسلمان تھے۔ ہم میں لیگیں نہیں تھیں، مذہبی بنیادوں پر لڑائیاں کٹائیاں نہ ہونے کے برابر تھیں اور پورا برِصغیر نظریاتی بنیاد پر صرف دو دھڑوں ہی میں تقسیم نظر آتا تھا۔ کبھی کبھی یہ بھی ہوتا تھا کہ یہ منقسم دو دھڑے بھی ایک ہو کر فرنگیوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے تھے لیکن بنیادی طور پر پوری آبادی مسلم اور غیر مسلم کی واضح پہچان کے ساتھ ایک دوسرے کے خلاف نبرد آزما رہا کرتی تھی اور یہی تفریق برِصغیر کی تقسیم کا باعث بنی۔ برِصغیر کی تقسیم تو دو قومی نظریے کی بنیاد پر ہوئی تھی لیکن جونہی یہ تقسیم عمل میں آئی ویسے ہی یہ راز کھلا کہ مسلم یک جہتی کے سارے دانے تو ہندو تفاوت کی ڈور میں پروئے ہوئے تھے لہٰذا جیسے ہی ان سے علٰیحدگی حاصل ہوئی، دانے ایک ایک کرکے بکھرنا شروع ہو گئے۔
پاکستان بننے کے کچھ عرصے بعد سب سے پہلے جس بیماری نے کینسر کی شکل اختیار کی وہ لسانی عصبیت کی تھی اور اس بیماری نے ایسے عفریت کی شکل اختیار کی کہ جسم کا آدھا دھڑ ہی کاٹنا پڑ گیا۔ خیال تھا کہ تاریخ سے سبق سیکھتے ہوئے باقی بچ جانے والے جسم کو اتنی خطرناک بیماریوں میں مبتلا نہیں ہونے دیں گے لیکن افسوس کہ جس طرح کینسر کے پھوڑے کو چھیڑ دیا جائے تو اس کی جڑیں اور بھی تیز رفتاری کے ساتھ ہر جگہ سے پھوٹنے لگتی ہیں بالکل اسی طرح لسانیت اور علاقائیت کا زہر پورے بدن میں اتنی شدت کے ساتھ پھیلنا شروع ہو گیا کہ وہ تقسیم جو صرف ’’دو قومی نظریے‘‘ کی بنیاد پر عمل میں آئی تھی، درجنوں نظریات میں تقسیم ہو کر رہ گئی۔
پاکستان بن جانے کے بعد پاکستان میں عموماً مسالک کی بنیاد پر ایک دوسرے سے دوریاں دیکھنے میں آتی تھیں لیکن ان کی شدت اتنی نہیں تھی جس سے بہت بڑا فتنہ پیدا ہونے کا ڈر پیدا ہو لیکن اس کے بعد لسانیت اور علاقائیت کے نعرے زور پکڑتے چلے گئے۔ بات شاید یہاں آکر بھی رک جاتی تو پھر بھی ان کے درمیان کہیں کہیں ’’پاکستان‘‘ نظر آتے رہنے کا امکان ہوتا لیکن اس دور کا سب سے بڑا فتنہ عوام کا سیاسی بنیادوں پر تقسیم ہونا بن کر رہ گیا ہے۔ پاکستان بننے سے لیکر تا حال مسلکوں کی یا لسانیت کی بنیاد پر اتنا خون خرابہ نہیں ہوا ہوگا جتنا اب پوری قوم لسانیت، علاقائیت، مسالک اور مذہب کو بھول کر سیاسی گروہ بندیوں کی وجہ سے ایک دوسرے کو جان سے مار دینے پر تیار و آمادہ دکھائی دیتی ہے۔دنیا کی تاریخ میں جتنی بھی بڑی بڑی جنگیں ہوئی ہیں ان میں بنیادی محرک ہمیشہ مذہب ہی دکھائی دیا ہے۔ یہی وہ فرق تھا جو پاکستان بننے کا سبب بنا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جس قوم نے بھی کسی خطے کو فتح کیا اس پر اپنے مذہب اور اپنی روایات کو رائج کیا۔ ایسے تمام مفتوحہ علاقے جو نظریے کی بنیاد پر حاصل کیے گئے، جب تک اسی نظریے کے مطابق چلائے جاتے رہے، ان میں فتنہ و فساد سر نہ ابھار سکے۔ پاکستان بھی اگر اسی نظریے کے مطابق چلایا جاتا تو کبھی تباہی و بربادی کا شکار نہ ہوتا۔
مسلکوں، لسانیتوں اور علاقائیتوں کی تقسیم کے بعد اب سیاسی نفرتوں نے اس پاکستان کو ایک ایسی جگہ لا کھڑا کیا ہے جہاں سے واپسی کی کوئی امید دور دور تک دکھائی نہیں دیتی۔ پاکستان میں بسنے والا ایک ایک فرد اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ ہم معیشت کی تباہی اور سیاسی عدم استحکام کے اس دہانے پر کھڑے ہیں جہاں ایک ہلکا سا جھونکا بھی ہمیں قعرِ مذلت کی دہکتی ہوئی آگ میں دھکیل سکتا ہے لیکن قوم کی غفلتوں کا عالم یہ ہے کہ وہ اسمبلیاں ’’توڑوں کہ نہ توڑوں‘‘ کی گردان میں لگی ہوئی ہے۔ ہر سیاسی گروہ دوسرے سیاسی گروہ کو غدار غدار کہنے میں لگا ہوا ہے اور کوئی بعید نہیں کہ کسی بھی وقت ملک خانہ جنگی کا شکار ہو جائے۔ مسئلہ یہ نہیں کہ اسمبلیوں کو توڑ دیا جائے یا نہیں، مسئلہ یہ ہے کہ کیا اسمبلیوں کو توڑ دینے یا برقرار رہنے سے ملک میں استحکام آ جائے گا؟۔ کیا جلد انتخابات ملک کی معاشی حالت کو بدل دینے کا سبب بن جائیں گے؟۔ یہ ہیں وہ سوالات جس پر نہ تو ادارے غور کرنے کے لیے تیار ہیں اور نہ قوم کے رہبران۔
ایک آزاد مبصر ہونے کے ناتے میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ اس وقت جو پارٹی فوری انتخاب کا مطالبہ کر رہی ہے، اپنی جیت کے علاوہ کسی انتخاب کو شفاف کہنے کے لیے تیار ہی نہیں، اس کی جو بات 2008 سے سامنے آ رہی ہے وہ ریلیاں، جلسے، جلوس، ہڑتالیں، اور 126 دن کے دھرنے یہی سمجھاتے آئے ہیں کہ ہر حکومت انتخابی دھاندلیوں کی نتیجے میں ایوان اقتدار تک پہنچی ہے۔ 2018 کی کامیابی کے بعد پہلی مرتبہ اس کی جانب سے یہ کہا گیا کہ اس بار شفاف الیکشن ہوئے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ الیکشن کمیشن کی شان میں قصیدے بھی پڑھے گئے۔ جس پارٹی کو الیکشن میں شفافیت اپنی کامیابی ہی کی صورت میں دکھائی دیتی ہو، کیا فوری الیکشن کے بعد وہ اپنی ہار کے بعد دوبارہ سڑکوں پر نہیں آ جائے گی اور جلسوں جلوسوں اور دھرنوں کے سلسلہ دوبارہ شروع نہیں کر دے گی۔ بات مختصر یہ ہے کہ پاکستان کے حالات نہ تو کسی الیکشن سے ٹھیک ہوتے نظر آ رہے ہیں اور نہ ہی شدید ترین ڈکٹیٹر شپ حالات کو اپنے قابو میں کر سکتی ہے۔ اب تو کوئی معجزہ ہی ہوگا جو پاکستان کو آگے کی جانب لے جا سکتا ہے۔ بس اسی لیے ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ
تم سرِ راہ آپس میں لڑتے رہو
رہنماؤ ہمیں راستہ چاہیے