حافظ، عالِم اور مجاہد

641

ان تین عناصر میں سے دو عناصر کی تو ہمارے ملک میں بہتات ہے لیکن مجاہد شاید ابھی آسمان پر ہی مقیم ہیں۔ برصغیر سے تعلق رکھنے والے ایک قاری سے متعلق یہ واقعہ سننے کو ملا تھا کہ وہ عرب کی ایک مسجد میں قرأت کے ساتھ تلاوت کررہا تھا کہ اُس کے پاس ایک بدّو آیا اور تلاوت سننے کے لیے بیٹھ گیا۔ قرأت کرتے ہوئے قاری کی نگاہ جب پاس بیٹھے ہوئے بدّو پر پڑی تب اُس نے دیکھا کہ بدّو کی آنکھیں آنسو میں ڈبدبا رہی ہیں: قاری نے اشارے کی زبان میں بدّو سے رونے کا سبب معلوم کیا تب اُس بدّو نے اشارے ہی میں جواب دیا کہ قاری اُس کے رونے کی فکر نہ کرے اور اپنی تلاوت جاری رکھے۔ قاری صاحب غالباً مزید پڑھنا نہیں چاہتے تھے چنانچہ اُنہوں نے چند آیات کی تلاوت کرکے کلام مجید کو طاق میں رکھ دیا اور عربی زبان سے عدم واقفیّت کے باعث بدّو کو اشارہ کرکے اُس سے رونے کا سبب دوبارہ دریافت کیا اور اُس کی حاجت معلوم کرنے کی کوشش کرنے لگے۔ بات یہ تھی کہ قاری صاحب کلام مجید پڑھ تو سکتے تھے لیکن وہ اُسے سمجھ نہ سکتے تھے جبکہ بدّو بیچارہ کلام مجید پڑھ تو نہ سکتا تھا لیکن اُس میں لکھی ہوئی بات کو سمجھتا خوب تھا۔ یہ قصّہ بیان کرنے کا میرا مقصد یہ ہرگز نہیں ہے کہ دنیا کے سارے ہی حفّاظ کلام مجید صرف پڑھ سکتے ہیں اور آیات کو سمجھ نہیں سکتے ہیں۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ جو لوگ کلام مجید پڑھتے بھی ہیں اور آیات کو سمجھتے بھی ہیں لیکن اُن کے عملی مظاہرے یہ بتلاتے ہیں کہ وہ سب کچھ جان بُوجھ کر بھی کچھ نہیں جانتے ہیں۔ ایسی کون سی خرابی ہے جو ہمارے مُلک میں رُونما ہونے سے رہ گئی ہے تاہم علما کرام مسجدو منبر پر بیٹھ کر۔ کھانے پینے کی چیزوں میں ملاوٹ کرنے کا تسلسل بدستور جاری ہے حتّیٰ کہ دواؤں میں بھی دو نمبریاں کی جارہی ہیں اور اُنہیں روکنے ٹوکنے کے لیے کوئی بھی آگے بڑھتا ہُوا دکھائی نہیں دیتا ہے۔ مہنگائی شُتر بے مہار کی طرح چھلانگیں مارتی ہوئی آگے بڑھتی چلی جارہی ہے اور عوام کا کیا کہیے جو لوگ برائی روکنے کا درس دیتے اور لیتے ہیں وہ بھی غافل نظر آتے ہیں۔
زرِمبادلہ بکسے بھر بھر کر ملک سے منتقل کیے جارہے اور ایوان حکومت کو سہارے دینے والے معاوضے لے کر اپنی آنکھیں بند کیے بیٹھے ہوئے ہیں۔ کمالِ بے نیازی یہ دیکھیے کہ وہ لوگ جو یہ حلف اٹھاکر حکومت کا حصّہ بنے ہیں کہ وہ نہ تو خود کوئی ایسا اقدام کریں گے جس سے ملک و ملّت کو کوئی نقصان ہونے کا اندیشہ ہوگا اور نہ وہ کسی فرد کو یا کسی جماعت کو ایسا کرنے کی اجازت دیں گے۔ وہ پیسے پر پیسہ اور باقی کا ایسا تیسا والا کھیل کھیلنے میں مصروف ہیں۔
مَیں اُس وقت ششدر رہ گیا جب ایک دینی جماعت کے سربراہ نے دو بڑی سیاسی جماعتوں کے سربراہان کا نام لے کر کہا کہ عدم اعتماد کی تحریک کے دوران بند کمرے میں دونوں مذکورہ صاحبان نے موصوف کو پیشکش کی تھی کہ وہ بھی تحریک میں شامل ہوجائیں اور اپنا حصّہ لے لیں۔’حصّہ‘ دینے کی پیشکش وضاحت طلب ہونے کے علاوہ قومی امانت بھی ہے کہ سیاسی شاطروں کی جانب سے پیشکش یا رشوت میں پیسے دینے کی بات کی گئی تھی یا وزارت دینے کاوعدہ کیا گیا تھا۔ اِن باتوں کی تشریح عدلیہ بہتر طور پر کرسکتی ہے بشرطِ کہ دعوے دار محض الزام تراشی کرنے تک ہی اکتفا نہ کرے۔
دنیا بھر میں تمام اداروں کی طاقت کا سرچشمہ عدالت ِ عظمیٰ کو تسلیم کیا گیا ہے لیکن ہمارے ملک میں عملی مظاہرے دیکھ کر قوم یہ سمجھنے پر مجبور ہے کہ عسکری قیادت ہی قوت کا منبع ہے۔ اب خیر سے یہ سرچشمہ ایک ایسے جرنیل کے ہاتھوں میں ہے جس کے سینے میں ملفوظات اور احکاماتِ الٰہی موجزن ہیں اور وہ جرنیل بیک وقت حافظ بھی ہے اور مجاہد بھی ہے۔ اب دیکھتے ہیں کہ اُس مجاہد کے ساتھی بے راہ روی کی بیخ کنی کا سلسلہ شروع کرتے ہیں یا وہی مال دو اور مال بناؤ کی روِش پر چلنے والوں کا ساتھ دیتے ہیں۔ قارئین میری اِس رائے سے شاید اتفاق کریں گے کہ سب سے پہلا کام یہ کیا جانا چاہیے کہ خفیہ اداروں میں ایسے لوگوں کو متعّین کیا جائے جن کا نصب اُلعین ایمانداری اور مُلک وملّت سے وفاداری مشروط ہو۔ یہی وہ لوگ ہیں جو ملک وقوم کے حال و احوال سے حکمرانوں کو آگاہ کرتے ہیں اور مرغِ بادنما کا کام سرانجام دیتے ہیں۔ ہمارے ملک میں فی الحال تو یہ کھیل کھیلا جارہا کہ ’’لے کے رشوت پھنس گیا ہے دے کے رشوت چھوٹ جا‘‘۔ سابق حکمران اور سابق جرنیل یہ کھیل کھیلتے رہے ہیں۔