اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان ہمیشہ ہی سے احسان فراموش رہے ہیں۔ جس جس کی کشتی میں بیٹھے یا جس جس کی تھالی میں کھایا اسی کو چھیدنے کے علاوہ کبھی کچھ نہیں کیا۔ عمران خان کی سیاست کا پورا ماضی اٹھا کر دیکھ لیں، نہ جانے کتنے سیاسی نکاح کرتے اور انہیں طلاقین دیتے چلے آئے ہیں۔ یہ بات اچھی طرح جانتے ہوئے بھی کہ ان کو اقتدار تک لانے کے لیے اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ نے کیا کیا کچھ نہیں کیا، مسلم لیگ ن کی کمر توڑی گئی، پی پی پی کا بھٹا بٹھایا گیا، کراچی میں ایم کیو ایم میں تباہی مچادی گئی لیکن جب بھی ’’لاڈلا‘‘ قومی اسمبلی میں اتنی بڑی تعداد حاصل نہ کر سکا کہ اس کے حوالے عنانِ حکومت تھمائی جاتی تو جہانگیر ترین کے اے ٹی ایم اور ہوائی جہاں کو اشارہ کیا گیا حرکت میں لاؤ، تب جاکر بڑی مشکل سے عمران خان نہایت سادہ اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکے۔ ان مہربانیوں کے صلے میں عمران خان نے بھی کوئی فورم ایسا نہیں چھوڑا جہاں اس وقت کے آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کا نام شد و مد کے ساتھ نہ لیا جاتا ہو بلکہ گمان یہ ہونے لگا تھا کہ عمران خان اپنے آپ کو اللہ کے بجائے آرمی چیف کا خلیفہ قرار نہ دے بیٹھیں۔ آج وہی عمران خان ہیں کہ ان کا بس نہیں چل رہا کہ وہ سابق آرمی کے سارے کپڑے ہی پھاڑ کر رکھ دیں۔ ایک جانب سابق وزیر اعظم عمران خان کی احسان فراموشی کا یہ عالم کہ اپنے محسن کی ہر ہر فورم پر ہتک پر ہتک اور توہین پر توہین کیے جا رہے ہیں تو دوسری جانب اس وقت کے پنجاب اسمبلی کے وزیر ِ اعلیٰ چودھری پرویز الٰہی کا بس نہیں چل رہا کہ وہ سابق آرمی چیف قمر باجوہ کے تلوے چاٹ چاٹ کر ان کو گھس ہی ڈالیں۔ چودھری پرویز الٰہی ہوں یا عمران خان، دونوں ہی، آرمی چیف ہوں یا آئی ایس آئی کے سربراہ، دونوں کی بوٹ چاٹ بہت شوق سے کھاتے رہے ہیں۔
عوام نے پاکستان کے کسی بھی سیاسی رہنما، خواہ وہ کوئی کونسلر ہی کیوں نہ ہو، ان کو آج تک اس لیے کبھی ووٹ نہیں دیا کہ وہ شب و روز کتنی بوٹ چاٹ ’چٹ‘ کر سکتا ہے۔ عام آدمی تو جس کی جانب بھی دیکھتا ہے اور ووٹ کرتا ہے تو وہ صرف اور صرف اس لیے کہ اس کے مسائل حل ہوں، اس کی مشکلات میں کمی آ سکے لیکن اس کے برعکس عمران خان کے سابقہ بیانات ہوں، حالیہ خیالات یا اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب کے ’’چٹخارے‘‘، وہ سب اس بات کی غمازی کر رہے ہیں کہ عوام ان کو جس مقصد کے لیے بھی ووٹ دیں، ان کو اس سے کبھی کوئی مطلب نہیں ہوتا، ان کا کام عام لوگوں کی مسائل کے حل کے لیے ووٹ مانگنے کے بعد بوٹ چاٹ کے ’چٹخارے‘‘ لینے کے سوا کبھی کوئی اور مطلب ہوا ہی نہیں کرتا۔
ملک آج بالکل ہی تباہی و بربادی کے دہانے پر کھڑا ہوا ہے اور عالم یہ ہے کہ ہلکا سا جھونکا بھی انہیں قعر ِ مذلت میں دھکیل سکتا ہے۔ حکومتی عدم استحکام اپنے عروج پر ہے، ملک اقتصادی طور پر اپنی نمازِ جنازہ کی تیاری کر رہا ہے اور معیشت تباہ و برباد ہو کر رہ گئی ہے لیکن اسٹیبلشمنٹ سمیت، جو اس تمام تباہی و بربادی میں مرکزی کردار کی حیثیت رکھتی ہے، کسی بھی سیاسی جماعت اور ان کے سربراہوں کو اس بات کی نہ تو پروا ہے اور نہ ہی فکر، فکر اگر ہے تو صرف یہی کہ کسی طرح ہم بوٹ چاٹ کی عزت و حرمت پر حرف نہ آنے دیں جس کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ ایک ہی پارٹی کے اتحادی ایک جانب بوٹ چاٹ میں سے کیڑے نکالنے میں مصروف ہیں اور دوسری جانب اسی پارٹی کا ایک اتحادی اس کے ذائقوں پر ضائقے گنائے جا رہا ہے۔
آرمی چیف کے تقرر پر جو بات سیاست دانوں کی جانب سے آ رہی تھی وہ اپنے اپنے منظورِ نظر کے انتخاب کی آ رہی تھی جبکہ آرمی کی جانب سے کہا جا رہا تھا کہ آرمی چیف صرف ’’آرمی چیف‘‘ ہوتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے معافیاں تلافیاں کس کھاتے میں کی جا رہی ہیں۔ کسی کے سامنے ٹوپی تک نہ پہنا کہ سلوٹ نہ کرنا پڑے اور کسی کا یوں استقبال کرنا جیسے ملک کا وزیر اعظم نہیں امریکا کا صدر جی ایچ کیو آ رہا ہے۔ کسی کو سال ڈیر سال میں کان پکڑ کر باہر نکال دینا اور کسی کے لیے کبھی سال اور کبھی دو سال کی مہلتیں مانگنا۔ یہی سب رویے اور باتیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ پی ٹی آئی کا آرمی چیف کے تقرر پر احتجاج غلط نہیں تھا اور پاکستان کی تاریخ بھی اسے قدم قدم پر سچ ثابت کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔
احسان فراموش صرف عمران خان ہی نہیں، اب تک مارشل لا لگانے والے تمام سالار اپنے اپنے محسنوں کے احسانات کے جوابات نہایت ہی سفاکی سے چکاتے چلے آئے ہیں۔ ضیا الحق نے بھٹو کے احسان کا بدلہ پھانسی دے کر چکایا، اس سے پہلے یحییٰ خان نے ایوب خان سے اپنے اوپر کیے گئے احسان کا بدلہ لیا اور خود ایوب خان نے اس وقت کے سول حکمران سے۔ پرویز مشرف نے نواز شریف کا احسان چکایا اور اب باجوہ صاحب اور عمران خان خود ایک دوسرے کے ساتھ احسان فراموشی کی اعلیٰ مثال بنے ہوئے ہیں۔ نہ ہی کوئی یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ وہ گردن گردن تک سیاست کی دلدل میں دھنسا ہوا نہیں اور نہ ہی کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ وہ تخت اقتدار تک بغیر کسی کا احسان اٹھائے پہنچا لیکن مزے کی بات یہ ہے دونوں ہی اپنے اپنے دعوں میں جھوٹے ثابت ہو رہے ہیں۔
پرویز الٰہی ہوں یا عمران خان، یہ دونوں اپنی اپنی جگہ بری طرح ڈسے ہوئے ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ پلٹ کر اپنے دشمنوں کو ڈسنے کے بجائے عوام پر پھنکار بھی رہے ہیں اور ڈس بھی رہے ہیں۔ یہ جن کا رونا رہے ہیں ان کے لیے عوام نے کبھی اپنے کسی رہنما کو یا ان کے نامزد امید واروں کو ووٹ نہیں دیے۔ انہوں نے جب بھی ووٹ دیے اپنے اپنے مسائل کے حل کے لیے دیے لیکن ہر سیاستدان کا بیان بتا رہا ہے کہ ان کو تو ہمیشہ بوٹ چاٹ کا ذائقہ ہی پسند رہا ہے خواہ بعد میں ان کی آنتوں کا ستیاناس ہی کیوں نہ ہو گیا۔ کاش ہمارے سیاستدان اپنے ووٹروں کے ساتھ اور کرتا دھرتا اپنی ریاست کے ساتھ مخلص ہوجائیں تاکہ ریاست کے عوام اپنی اپنی پریشانیوں سے باہر آ سکیں۔