دکھی انسانیت کی خدمت یا انسانیت کو دکھی کرنے کی نیت

670

کہا جاتا ہے کہ ایک فلاحی مملکت میں صحت اور علاج کی سہولتیں ہر ایک کے لیے میسر ہوتی ہیں۔ لیکن پاکستان میں تعلیم اور صحت کا شعبہ تجارت بن کر رہ گیا ہے۔ ایک زمانہ تھا جب سرکاری اسکولوں سے ڈاکٹر عبد القدیر خان جیسے طالب علم نکلتے تھے اور دنیا میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواتے تھے۔ لیکن اب تعلیمی ادارے تو بہت ہیں لیکن ڈاکٹر عبدا لقدیر کوئی نہیں ہے۔ کیونکہ اب پاکستان میں تعلیم بھی تجارت بن گئی ہے اور صحت بھی تجارت ہے۔ صحت کے شعبے میں نئی نئی پیش کش کی جارہی ہیں کہیں لیزر کے ذریعے سے عینک اتارنے کی پیش کش اور کہیں مصنوعی دانت کی امپلانٹیشن اور خرچ لاکھوں روپے۔ کہیں سر پر دوبارہ بال اگانے کے اشتہار آرہے ہیں تو کوئی کینسر کے شافی علاج کا دعویٰ کررہا ہے اور اس کے لیے بھاری فیس وصول کررہا ہے۔ اور جو مستند اسپتال ہیں وہاں کی فیس اور اخراجات تو کسی فائیو اسٹار ہوٹل سے بھی زیادہ ہیں۔ لیکن سہولتیں کسی معمولی ہوٹل سے بھی کم ہوتی ہیں۔ ڈاکٹر کی فیسوں پر کوئی کنٹرول نہیں ہے؟ دوائیں جو دی جارہی ہیں ان کی اصل قیمت کیا ہے؟ کسی کو نہیں معلوم کہ ان دواؤں پر کتنا منافع وصول کیا جارہا ہے؟ اور مریض کے جو ٹیسٹ کیے جارہے ہیں ان سے مریض کی صحت کو کیا کیا نقصانات ہوسکتے ہیں؟ خود ہمیں جب گردے میں پتھری کی تکلیف ہوئی تو پتھری خود بخود تکلیف کے ساتھ نکل گئی۔ لیکن اسپتال والوں نے کہا کہ یہ معلوم کرنے کے لیے کہ ابھی پتھری ہے یا نہیں اس کے لیے بیریم ٹیسٹ ہوگا لیکن انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ اس ٹیسٹ سے گردے ناکارہ بھی ہوسکتے ہیں۔ اسی طرح کئی اقسام کے ریڈی ایشن نقصان دہ ہوتے ہیں جو مریض کے مرض میں اضافہ کردیتے ہیں لیکن ڈاکٹر اس بارے میں مریض کو آگاہ نہیں کرتے کیونکہ انہیں اپنی آمدنی میں اضافے کے ساتھ ساتھ اس لیبارٹری کی آمدنی بھی بڑھانی ہوتی ہے۔ ڈاکٹروں کا وہ عہد کیا ہوا جو انہوں نے دکھی انسانیت کی خدمت کے لیے کیا تھا؟ دکھی انسانیت کی خدمت کرنے کی یا انسانیت کو دکھی کرنے کی نیت ہے۔ یہی حال تعلیمی اداروں کا ہوتا ہے وہاں سبجیکٹ اسپشلسٹ تو موجود نہیں ہوتا لیکن غیر نصابی سرگرمیوں کے نام پر طرح طرح کی فیس وصول کی جاتی ہے اور اسکولوں کالجوں اور نجی یونیورسیٹوں کی فیس لاکھوں روپے وصول کرنے کے باوجود یہ لوگ ٹیکس کی مد میں کچھ دینے سے یہ لوگ انکار کرتے ہیں۔ صحت اور تعلیم یہ دونوں شعبے اتنا بڑا بزنس بن گئے ہیں کہ ملک کے کئی ٹی وی چینلز کے مالکان کا اصل کاروبار تعلیم کی تجارت ہے۔ اسی طرح پاکستان میں مفت علاج کے نام پر کئی بڑے بڑے ادارے زکوٰۃ اور خیرات بھی بٹورتے ہیں اور جب علاج کروانے جاؤ تو بھاری بھرکم فیس بھی وصول کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ غریب عوام اسی وقت اسپتال یا ڈاکٹر کا رخ کرتے ہیں جب مریض کی حالت ناگفتہ بہ ہوجاتی ہے اور ڈاکٹر کے بس میں بھی کچھ نہیں رہتا۔ اس وقت مریض کے علاج پر ان کی ساری بچت خرچ ہوجاتی ہے۔ اگر لوگوں کو سستی ابتدائی طبی امداد ملتی رہے یا صحت کے حوالے سے انہیں یہ احساس ہو کہ کچھ گڑبڑ ہورہی ہے تو وہ فوراً اپنے طبیب کے پاس پہنچیں، وہ ڈاکٹر ہوسکتا ہے، حکیم ہوسکتا ہے، ہومیوپیتھ ہوسکتا ہے۔ لیکن ان تینوں کو مستند یعنی سند یافتہ ہونا چاہیے اور اس کا تعین کون کرے گا صوبائی یا بلدیاتی محکمہ صحت ہی مستند طبیبوں کو لائسنس جاری کرسکتا ہے لیکن اتائی ڈاکٹر اور حکیم دھڑلے عام لوگوں کی جانوں کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں ’’ہیلتھ اکنامکس‘‘ یعنی صحت کی معاشیات ایک الگ شعبہ ہے۔ لیکن ترقی پزیر ممالک میں صحت کے مسائل قدرے مختلف ہیں، لیکن ہیلتھ اکنامکس کے اصول دونوں میں یکساں طور پر لاگو ہوتے ہیں۔ پاکستان کم درمیانی آمدنی والا ملک ہے۔ اس میں پچھلے کچھ سال سے صحت کے نظام سے توقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ وزارت صحت زندگی کے معیار کو فروغ دینے میں اپنا نمایاں کردار ادا کررہی ہے۔ لیکن پھر بھی صحت سے متعلق بہت سے مسائل ہیں جن پر توجہ دینے اور سنجیدگی سے حل کرنے کی ضرورت ہے۔ صحت کی بہت سی پالیسی اور منصوبہ بندی صحت کے بجائے بیماریوں پر مرکوز ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ لوگوں کو کم سے کم لاگت کے ساتھ بہتر علاج کی سہولت فراہم کرے۔ تا کہ لوگ ملک کی ترقی میں بھر پور حصہ لے سکیں۔ ہیلتھ اکنامکس سے نہ صرف پاکستان میں صحت کی دیکھ بھال کی موثر فراہمی میں مدد ملے گی بلکہ حکومت صحت کی مناسب پالیسی بھی تشکیل دے سکتی ہے۔ مقامی شہریوں میں صحت کی خرابی کے بڑھتے ہوئے مسائل دیکھتے ہوئے، حکومت عوام کو بہتر علاج فراہم کرنے میں ناکام نظر آتی ہے۔ لوگ اپنے گھریلو بجٹ میں بہتر علاج تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تقریباً 68 فی صد لوگ مشورے اور علاج کے لیے نجی کلینک جاتے ہیں اور اس کی فیس زیادہ ہوتی ہے جو مالی مسائل اور تناؤ کے عوامل کا باعث بنتی ہے۔ تحقیقات سے یہ انکشاف ہوا ہے کہ مالی اور گھریلو معاملات کی وجہ سے مختلف نفسیاتی مسائل پیدا ہورہے ہیں اور یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ پاکستان میں افسردگی اور بے چینی کے مریض بہت زیادہ پائے جاتے ہیں۔ یہ بیماریاں شہریوں میں ان کی صلاحیتوں کے کم ہونے کی بڑی وجوہات بن جاتی ہیں کیونکہ ان کا اثر براہ راست ذاتی کام کاج پر پڑتا ہے۔ مریض موثر طریقے سے کمانے سے قاصر ہوجاتا ہے یا روزمرہ کے معاملات کے حوالے سے مناسب فیصلے نہیں کرسکتا۔ اس کے نتیجے میں، گھر کے باقی افراد اس کی بیماری کا بوجھ اٹھاتے ہیں اور کسی نہ کسی طرح اپنے لیے ضروریات کا انتظام کرتے ہیں۔ لہٰذا یہ ضروری ہے کہ صحت کی دیکھ بھال کے اخراجات انتہائی موزوں لاگت کے ساتھ موثر علاج پر خرچ کریں۔ معاشی تشخیص کے طریقوں کو سمجھنا بہت ضروری ہے تاکہ علاج کی لاگت اور تاثیر کا اندازہ لگایا جاسکے اور علاج کے لیے بہترین متبادل انتخاب فراہم کیا جا سکے۔ لیکن ہوتا یہ ہے کہ سر پر بال اگانے کا دعویٰ کرنے والے، کینسر کے علاج کا دعوٰی کرنے والے ملک بھر میں بکھرے ہوئے ہیں۔ سیلف میڈی کیشن کا مرض اس کے علاوہ ہے۔ دوسری جانب پاکستان میں ایلوپیتھ، ہومیوپیتھ اور حکمت کے درمیان تنازعات جاری ہیں جبکہ ان تینوں طریقہ ہائے علاج کے ماہرین کو چاہیے کہ اپنے مستند طبیبوں کو اپنے اپنے بورڈز کی جانب سے لائسنس جاری کریں تاکہ لوگوں کو اتائیوں سے نجات مل سکے۔ حکمت اور ہومیوپیتھ لوگوں کی عمومی صحت کو بہتر بنانے کے لیے ایلوپیتھی کے طبیبوں کے لیے معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ حکومت کی ترجیحات تو کچھ اور ہیں یہ طبیب خود ہی چارہ گر بن جائیں۔