دیوار پر لگے، اور میز پر سجے ہوئے کیلنڈر دو ہفتوں بعد ہٹا دیے جائیں گے ان کی جگہ نئے سال کے کیلنڈر آجائیں گے، اگر کچھ نہیں بدلے گا تو وہ سیلاب متاثرین کے دن ہیں، یہ نہیں بدلیں گے، جون سے دسمبر تک، تقریباً سات ماہ ہو چکے ہیں، سندھ اور جہاں جہاں سیلاب آیا، وہاں کے متاثرین اپنی نارمل زندگی شروع نہیں کر سکے، 2022 کے موسم برسات میں سیلاب نے شدید نقصان پہنچایا تھا اوراس کے مابعد نقصان دہ اثرات کا سلسلہ ابھی تک رکا نہیں، جاری ہے سیلاب میں بے پناہ مالی نقصان ہوا، ہزاروں مویشی سیلابی ریلوں میں بہہ گئے اور سیکڑوں قیمتی انسانی جانیں بھی اس سیلاب کی نذر ہوگئیں۔ جن کے پیارے لقمہ اجل بنے ان کا دکھ تو صرف وہی جانیں، جو بچ گئے ہیں وہ اب زندہ لاشیں بن چکے ہیں سیلاب نے انہیں بہت دکھ دیے کوئی عام انسان ان کے دکھ درد کو ان ایسا محسوس نہیں کرسکتا ہے، یہ غریب متاثرین کھلے آسمان تلے پہلے گرمی اور اب سردیوں کی راتیں بسر کرنے پر مجبور ہیں ان کی بے بسی پررونا آتا ہے اور حکمرانوں کی نااہلی کو کوسنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ ان متاثرین نے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے گھر گرتے اور پانی میں بہتے ہوئے دیکھے ہیں ایسے متاثرین لاکھوں میں ہیں جن کے معاشی حالات پہلے ہی کمزور تھے اور محنت مزدوری پر گزارہ تھا اور ان کی استطاعت اتنی بھی نہ تھی، وہ اپنے مکان کی چھت کی ٹوٹی کڑی ہی کو تبدیل کروا سکتے لیکن سیلاب نے اب تو بالکل تباہ کردیا، اب یہ لوگ اس دسمبر کی میں بھی کھلے آسمان تلے یخ بستہ سردیوں کی راتیں گزارنے پر مجبور ہیں حاکم وقت سے ان کا سوال ہے کہ سیلاب ہمارا سب کچھ بہا کر لے گیا لیکن اب ہم سردیوں کی راتیں کھلے آسمان تلے کیسے گزاریں؟ کچھ ایسے بھی جو ان کا راشن پانی تک لوٹ کر لے گئے، یہ پانی نہیں حاکموں کی بدعنوانی کا سیلاب تھا، متاثرہ علاقوں میں ایک نہیں کئی بار سروے کیے جاچکے ہیں ہر بار فہرستیں مرتب کی گئی، متاثرہ مکانات کی تصاویر بھی لی گئیں لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ایسے ایسے لوگوں کو حکومت کی طرف سے امدادی رقم بانٹ دی گئی جن کا ذرّہ برابر بھی نقصان نہیں ہوا تھا جن کا حقیقی معنوں میں نقصان ہوا ہے، انہیں سروے کی بتی کے پیچھے لگا دیا گیا ہے۔
سیلاب سے صوبہ سندھ باقی صوبوں کی نسبت سب سے زیادہ متاثر ہوا تھا اور سندھ میں ضلع دادو بہت زیادہ متاثر ہوا ہے لیکن صوبہ سندھ کی حکومت اور وفاقی حکومت ابھی تک متاثرین کی مناسب مدد نہیں کر سکی ہے۔ سیلاب صرف قدرتی آفت نہیں بلکہ بدانتظامی اور کرپشن کا نتیجہ ہے کیونکہ اگر آپ اپنے جنگل نہیں بچائیں گے اور گلیشیر کا تحفظ یقینی نہیں بنائیں گے یا ان کا خیال نہیں رکھیں تو سیلاب بار بار آئیں گے اور تب تک آتے رہیں گے جب تک آپ انہیں اپنی بدانتظامی یا بدعنوانی کی وجہ سے دعوت دیتے رہیں گے۔ پاکستان کے سیاست دانوں کو سیلاب کی نہیں بلکہ صرف اقتدار کی فکر ہے انہیں چاہیے تھا کہ سیاسی اختلافات کو ایک طرف رکھ کر فوراً سیلاب متاثرین کی مدد کو پہنچتے لیکن افسوس کہ ایسا نہیں ہوسکا، 2022 کے سیلاب میں بہت ساری غیر سرکاری تنظیموں نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ان میں الخدمت فاؤنڈیشن اور اخوت نمایاں ہیں سیلاب سے متاثرہ کل 47 اضلاع کی 121 تحصیلوں میں لاکھوں متاثرین ابھی تک راہ دیکھ رہے ہیں سردی سے بچاؤ کے لیے متاثرین کو گرم بستر اور کمبل کی ضرورت ہے، متاثرین کے لیے خوراک کی فراہمی تو بہت بڑے بحران کا شکار نظر آرہی ہے اب تک وفاقی حکومت 66 اشاریہ 94 ارب روپے کی رقم سیلاب سے متاثرہ مستحقین میں تقسیم کرچکی ہے، مگر مسائل پھر بھی موجود ہیں۔