پاکستان شاید دنیا کا وہ واحد غریب ملک ہے جس کے عوام امیر ہیں۔ حکومت ٹیکس پر ٹیکس لگا لگا کر تھک چکی ہے لیکن عالم یہ ہے کہ پورے ملک میں کسی کی بھی صحت پر کوئی اثر پڑتا نظر نہیں آتا۔ کبھی عوام کی غربت کا عالم یہ تھا کہ آٹا 20 روپے من ہوا تو حبیب جالب نے عوام کو طعنہ دے مارا تھا کہ ’’بیس روپے من آٹا اور اس پر بھی سناٹا‘‘ اور اب امارت کا عالم یہ ہے کہ پچاس ماہ قبل کی قیمتوں کے مقابلے میں موجودہ ہر شے کی قیمت 5 گناہ بڑھ جانے کے باوجود بھی کہیں سے چیخ و پکار سنائی نہیں دے رہی۔ جب آٹا 18 روپے سے 20 روپے من ہوا تو سناٹا سمجھ میں بھی آتا تھا اس لیے کہ ہر غریب امیر کی چھت پر ایک بندوق بردار بیٹھا ہوا ہوتا تھا، ایسے میں ’’چوں چاں‘‘ کرنے کا مطلب سب کو اچھی طرح معلوم تھا۔ کون ایسا ہوتا ہے جس کو موت کا خوف نہیں ہوتا۔ لوگ بھی اتنے اچھے ہوا کرتے تھے کہ بادشاہ سلامت کے پاس ظلم و ستم کی شکایت لے کر جانے کے بجائے یہ فرمائش کرنے کے لیے جاتے تھے کہ حضور کا اقبال بلند ہو، جناب ہمیں اور بھی بہت کام دھندے ہوتے ہیں، مہربانی کرکے جوتے مارنے والوں کی تعداد میں اضافہ فرمادیں تاکہ آپ کے حضور سے جلد فارغ ہوکر ہم اپنے دیگر کام دھندے نمٹا سکیں۔ اب جبکہ وہ دور ختم ہو چکا ہے، چیخنے چلانے، برا بھلا کہنے اور گالیاں پٹخارنے کی مکمل آزادی ہے تب بھی چار ساڑھے چار برس پہلے کی ہر شے پر پانچ پانچ گناہ اضافہ ہو جانے کے باوجود بھی لوگوں کے یا تو صبر کی داد دینی چاہیے یا پھر اس بات کا یقین کر لینا چاہیے کہ پاکستان میں بہت غریب نظر آنے والے بھی حقیقی غریب نہیں بلکہ مکار، فریبی اور جھوٹے ہیں۔
کہتے ہیں پٹرول کی قیمتوں میں اضافے نے کمر کے رہے سہے مہروں کو بھی چور چور کر کے رکھ دیا ہے۔ بات بظاہر درست ہی لگتی ہے لیکن ہم تو یہ دیکھ رہے ہیں کہ کسی بھی کار کا اے سی تک کبھی بند نظر نہیں آتا۔ ایک زمانہ تھا کہ پی ٹی وی پر عوام کو پٹرل کی بچت کے طریقے بتائے جاتے تھے کہ جب آپ سگنل پر رکیں تو کار کا سوئچ آف کردیں، پیلی بتی روشن ہونے پر کار اسٹارٹ کریں اور ہری بتی روشن ہونے پر چل دیں۔ اب عالم یہ ہے کہ کسی شاپنگ سینٹر سے صاحب کو کوئی شے خریدنی ہو تو وہ اپنے بیوی بچوں کی نزاکت کا خیال کرتے ہوئے کار کے انجن کو بند کرنا تو در کنار، اس کے اے سی کو بھی کھلا چھوڑ دیا کرتے ہیں۔ جب حکومتی اہل کار یہ سب کچھ دیکھیں گے تو وہ پٹرول کی قیمت کو کم کرنے کی حماقت بھلا کیسے کر سکتے ہیں۔
پاکستان کے جس وڈیرے، ملک، چودھری، سردار اور نواب کے گھر چھاپا مارا جاتا ہے، ٹنوں کے حساب سے سونا اور گٹھڑیوں کے حساب سے ملکی و غیر ملکی کرنسی بر آمد ہوتی ہے۔ سونا تولنے کے لیے کئی کئی من کے باٹ اور کرنسی گنے کے لیے نہ جانے کتنی مشینیں لگانے کے بعد بھی کئی کئی دن میں تول اور گنتی مکمل ہوتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایسے ذخیرے جس جس کے گھر سے بھی برآمد ہونے کی اطلاعات، اطلاعات پہنچانے والے محکموں کے توسط سے ہم جیسے غریبوں تک پہنچتی ہیں، اس کے بعد کی خبر کا آج تک کان و کان علم نہ ہو سکا اور شاید ہی تا قیامت علم ہو سکے۔ آنکھیں تو بس ایسے تمام افراد کو پچاس پچاس کاروں کے قافلوں کے ساتھ پورے ملک میں گھومتا پھرتا دیکھ رہی ہوتی ہیں۔
کہتے ہیں کہ پاکستان کی حکومت کے پاس ڈالروں کا ذخیرہ تیزی کے ساتھ ختم ہوتا جا رہا ہے۔ بات غلط بھی نہیں۔ کہنے والوں کو اس بات کا علم بھی ہے کہ یہ ذخیرہ کس کس چودھری، ملک، سردار، وڈیرے اور نواب کے ذخیروں میں اضافہ در اضافہ کرتا جا رہا ہے لیکن سنگین مسئلہ یہ ہے کہ جب کوئی ان کی شلواریں اتار نے کے لیے ہاتھ بڑھاتا ہے، وہ ایک ہی جھٹکے میں شلوار اتارنے والوں کے پورے کپڑے اتارنے کی دھمکیاں دینے لگتے ہیں اب عوام خود ہی سوچیں کہ بھلا دنیا میں کوئی شریفوں کے علاوہ بھی اتنا شریف ہو سکتا ہے کہ اپنی اپنی چوریاں سب کو بتاتا اور دکھاتا پھرے لہٰذا بات یہ کہہ کر ختم کردی جاتی ہے کہ ’’تو مجھے حاجی کہہ اور میں تجھے حاجی کہوں‘‘۔
پاکستان نہیں، باقی ماندہ پاکستان کے لوگ اس لیے محفوظ ہیں کہ اس ملک کے کئی لاکھ محافظ ہیں۔ اگر یہ نہ ہوتے تو ہم نہ جانے کہاں ہوتے۔ ان محافظوں کی سب سے زیادہ محافظت ہماری عدالتیں کرتی ہیں۔ مثلاً آئین و قانون کو تار تار کیے جانے پر ان کو آئینی تحفظ فراہم کرتی ہیں۔ اہم اور بڑے بڑے سیاسی فیصلے کرنے سے قبل ان سے ’’قانونی‘‘ تحفظ مانگ لیتی ہیں۔ ان کے احتساب کو غیر شرعی و غیر آئینی سمجھتی ہیں کیونکہ عوام اور ریاست کا تحفظ خطرے میں پڑ جانے کا خدشہ پیدا ہوجاتا ہے۔ لہٰذا جب جب عدالتوں کے اعلیٰ جج اور سالار اعلیٰ اپنی مدت ملازمت پوری کر کے ان اداروں سے فارغ ہوتے ہیں، سب کے سب ’’محفوظ‘‘ اور اپنے اپنے حقیقی ممالک کی جانب کوچ کر جاتے ہیں اور جو وقت انہوں نے ’’پردیس‘‘ میں گزارا ہوتا ہے، اس کی قیمت وصول کرکے باقی زندگی سکون کے ساتھ گزارنا چاہتے ہیں۔
کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ جب یہ نہایت عزت و جاہ والے افراد ہم جیسے غریبوں کے لیے دنیا بھر سے ’’بھیک‘‘ مانگ رہے ہوتے ہوں گے تو انہیں کتنی شرم آتی ہوگی۔ لیکن کیونکہ ان کے دل دھڑکتے ہی ہمارے لیے ہیں، اس لیے وہ یہ ذلت بھی گوارہ کر لیتے ہیں تاکہ غریب عوام اگر کبھی بد دعا بھی کریں تو ان کے منہ سے کوئی نہ کوئی دعائیہ کلمہ بھی ضرور نکل ہی آئے۔ اللہ تعالیٰ ان سب ہمدردوں کو تاقیامت خوش رکھے، ہمارا کیا ہے، ہم تو پیدا ہی اپنے بڑوں کی خدمت کے لیے ہوئے ہیں سو یہ سلسلہ اسے طرح جاری و ساری ہے اور تا قیامت رہے گا۔