خزانے ہیں نہاں اندر

698

پوشیدہ نہیں کون سا جوہر میرے اندر
یوں جان کہ ہیں سات سمندر میرے اندر
سیرابی کی یہ کیفیت کسی ایک فرد کی نہیں ہے ہر اُس فرد کی ہے جس نے دنیا کی طلب سے نجات حاصل کرلی دولت، عزت، شہرت ہر نشے سے توبہ کے بعد اندر کی دنیا کا سفر شروع کیا تو پتا چلا کہ کیا کیا، کیسے کیسے اور کتنے کتنے خزانے موجود ہیں۔ معاملہ یہ ہے کہ جس نے جتنی نجات حاصل کی اُسے اُتنے ہی خزانوں کا ادراک ہوا لیکن یہ کیفیت کوئی آسان نہیں۔ وہی دل اِس کو پاسکتا ہے جو خوئے تسلیم و رضا کا عادی ہو۔ جو حاصل ہے اُس پر مطمئن اور خوش باش ہو۔ ہرحال میں اللہ کے لیے شکر اور ممنونیت کے جذبات سے معمور رہے کہ انسان قضا و قدر سے بچ نہیں سکتا۔ البتہ دعا کا سائبان اوڑھ سکتا ہے پھر جو بھی معاملہ ہو اس کو مان لینے ہی میں عافیت ہے۔
رنج اور افسردگی بھی ایک مرض ہے جو انسان کو اندر سے توڑ دیتی ہے آخر مصیبت اور پریشانی ایک آزمائش ہی تو ہے جس کے ذریعے آزمایا جاتا ہے۔ کیا یہ نہیں دیکھتے کہ ہر سال میں ایک بار یا دو بار ان کو آزمایا جاتا ہے۔ عقل مند وہ نہیں جو خوشیوں میں خوش اور فائدے میں فائدے کے اضافے کا سوچے بلکہ وہ ہے جو غم کو اطمینان اور نقصان کو فائدے میں بدلنے کا سوچے۔ شہرت، دولت اور عزت کی حرص کی قیمت تکود اور رنج و فکر ہے اور لوگوں کی رضا جوئی کا تکلف دل کو بے چین و بے قرار رکھتا ہے۔ ’’اللہ کا ذکر کرو اور سب سے کٹ کر اُس کے ہو کر رہو‘‘۔ سو یہ راز ہے کہ جو خزانوں کا پتا بتاتا ہے اور اندر کے جواہر باہر آتے ہیں پھر ان کا تراش خراش اور حفاظت کا معاملہ ہے ہے تا کہ اصل جوہری کی نظر میں قدرو قیمت ٹھیرے۔ زندگی میں اہم چیز محنت ہے جس سے خواب پورے ہونے کی امید کی جاسکتی ہے۔
مل جل کر کریں گے محنت، ہوجائے گا ہر سپنا پورا
ہمت سے ہوئی ہیں تعمیریں جرأت سے ہوا ہے کام نیا
لیکن محنت اور ہمت سے کیا جانے والا ایسا نیا کام کم ہی دنیا نے دیکھا ہوگا۔ جیسا ڈاکٹر اعظم بنگلزئی نے کیا کہ بیک وقت مزدوری بھی کی اور میڈیکل کی تعلیم بھی حاصل کی۔ مزدوری بھی اُسی میڈیکل کالج میں کی جہاں تعلیم حاصل کررہے تھے۔ دن میں وہ تعلیم حاصل کرتے اور شام کو وہ اس کالج کی زیر تعمیر عمارت میں مزدوری کرتے۔ ایک دفعہ ان کے ایک دوست نے ان کی مزدوری کرتے ہوئے تصویر لے لی تھی۔ جس کو انہوں نے اپنے موبائل میں محفوظ رکھا ہے۔ اور میں صحافیوں کو انہوں نے بڑے فخر سے اپنی وہ تصویر دکھائی ہے جس میں وہ ایک مزدور کے حلیے میں ہیں اور مزدوری کررہے ہیں کہ یہ ڈاکٹر اعظم بنگلزئی ہیں۔ جنہوں نے اپنی میڈیکل کی فیس کے لیے اس کالج میں مزدوری کی جہاں داخلہ ہوا تھا۔ بلوچستان کے ضلع قلات سے تعلق رکھنے والے سرجن ڈاکٹر محمد اعظم بنگلزئی نے بولان میڈیکل کالج سے تعلیم حاصل کی۔ یہ 1981ء کا زمانہ تھا۔ انہوں نے اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے کام کی تلاش تھی۔ پتا چلا کہ ان کے کالج میں کام چل رہا ہے اور وہاں لوگوں کی ضرورت ہے۔ کہتے ہیں کہ میرے والد ریلوے میں ملازم تھے اور میں ان پر اپنے تعلیمی اخراجات کا بوجھ نہیں ڈالنا چاہتا تھا۔ لہٰذا اپنے ہی کالج میں میں نے رات کی شفٹ میں مزدوری کی، اس وقت تیس روپے دہاڑی کے حساب سے مجھے مزدوری مل گئی لیکن سردیوں کی ایک رات بجری کی ریڑھی گرجانے کے باعث انہیں کام سے فارغ کردیا گیا۔ اپنے اخراجات کے لیے انہوں نے ریڈیو پاکستان پر خبریں پڑھیں، ساتھ ساتھ ٹی وی والوں نے بھی انہیں ترجمے کا کام دیا۔ یوں انہوں نے اپنے والد پر اپنے تعلیمی اخراجات کا بوجھ ڈالے بغیر میڈیکل کی تعلیم گولڈ میڈل کے ساتھ مکمل کی۔ اب اسی میڈیکل کالج میں سینئر سرجن کے طور پر کام کررہے ہیں۔
کہتے ہیں ایک دن وہی ٹھیکیدار اپنے بیٹے کے ساتھ آیا وہ بوڑھا ہوگیا تھا۔ میں نے اس کو پہچان لیا، اس کو وی آئی پی پروٹوکول دیا، وہ بہت حیران ہوا اور وجہ پوچھی تو میں نے اس کو بتایا اس کو یاد نہیں آرہا تھا، یاد دہانی کے لیے کچھ باتیں یاد کرائیں تو کام سے نکالنے کی بات پر بہت افسوس کیا کہ میں نے بڑا ظلم کیا۔ میں نے اس سے کہا کہ آپ نے کوئی ظلم نہیں کیا کیوں کہ ویسے بھی وہ میری منزل نہیں تھی۔ بلکہ میری منزل یہ تھی جہاں آج میں پہنچا ہوں۔ سو منزل پہ نظر رہنا بھی بڑی کمال کی بات ہے۔ یہ یک سوئی منزل تک پہنچا کر دم لیتی ہے۔ سو منزل پر نظر رکھنے والے راستے کے سنگ میل نہیں دیکھا کرتے۔ بقول بشیر بدر
جس دن سے چلا ہوں مری منزل پہ نظر ہے
آنکھوں نے کبھی میل کا پتھر نہیں دیکھا