چین بھارت جنگ! امریکی حمایت بھارت کے لیے تباہ کن؟

760

بھارت اور چین کی جنگ میں امریکا بھی شامل ہوگیا ہے۔ بھارت اور چین کے درمیان 2020 میں مشرقی لداخ کی وادی گلوان میں پْرتشدد تصادم کے بعد شروع ہونے والا تعطل اب بھی مکمل طور پر ختم نہیں ہوا۔ ایسے میں بھارت کے شمال مشرق میں ہونے والی اس تازہ جھڑپ نے واضح کر دیا ہے کہ متنازع لائن آف ایکچوئل کنٹرول پر کئی مقامات پر دونوں ملکوں کے درمیان سرحدی تنازع جاری ہے۔ اس سلسلے میں 1990 کی دہائی میں دونوں ممالک کے درمیان ایک مشترکہ ورکنگ گروپ تشکیل دیا گیا تھا اور اس وقت بھارت اور چین نے کچھ متنازع علاقوں کی نشاندہی کی تھی۔ان میں سے چھے متنازع علاقے اروناچل پردیش میں تھے اور یانگستے ان میں سے ایک تھا۔
امریکا 2001ء میں افغانستان سے نکلنے بعد اس خوف میں مبتلا ہے وہ ایشیا سے رفتہ فتہ بے دخل ہوتا جارہا ہے اور اسی خوف کی جہ سے اس نے پاکستان میں اپنے لیے فوجی اڈوں کی تلاش شروع کر دی تھی لیکن اب تک وہ اس میں کامیاب نہیں ہو سکا اور اگر اس کو کسی جگہ اجازت ملی بھی ہے وہ محدود اختیارات کے ساتھ ہے۔ لیکن اب وہ چین پر حملے لیے پاکستان کو استعمال کرنے کی کوشش کر ے گا اور پاکستان کے انکار پر وہ بھارت کو پاکستان پر حملہ کرنے کے تیار کر رہا ہے۔ بھارت کو اس وقت امریکا کی حمایت کی بہت ضرورت ہے اور خطے میں ایک مرتبہ پھر پاکستان کی اہمیت میں اضافہ ہو رہا ہے اور یہی وقت ہے پاکستان کو اس بات کا فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ کس کے ساتھ ہے۔ بھارت اور امریکا دونوں ہی کا چین اس وقت نمبر ون دشمن ہے اور چین نے ایشیا سے امریکا کو بے دخل کرنے لیے بھارت کی دم پر پیر رکھا ہوا ہے جس کی مدد سے امریکا کی گردن تک پہنچنے کی کوشش میں مصروف ہے۔
2020ء میں بھی چین نے لداخ اور اس کے ارد گرد کے علاقوں پر قبضہ کر لیا تھا تو اس وقت امریکا میں سابق صد ٹرمپ کی حکومت تھی جنہوں بھارت کو چینی حملے کے وقت مذاکرات کا مشورہ دیا تھا اور کہا تھا کہ چین سے مذکرات کر کے جنگ کو امن میں تبدیل کریں جس کے بعد بھارت اور امریکا کے تعلقات میں معمولی تلخی پیدا ہوگئی تھی اور بھارت چین کے سامنے مذاکرات کی میز پر آگیا تھا اور اب چین یہی کہہ رہا ہے بھارت اپنے معاہدوں پر عمل کرتے ہوئے اروناچل پردیش کو ہمارے حوالے کر دے۔ چین اروناچل پردیش پر اپنا دعویٰ کرتا رہا ہے اور ماضی میں تبت کے روحانی پیشوا دلائی لامہ کے اروناچل پردیش کے دورے پر بھی احتجاج کر چکا ہے۔ سال 2021 میں چین نے اس وقت کے نائب صدر وینکیا نائیڈو کے اروناچل پردیش کے دورے کی بھی مخالفت کی تھی جسے بھارت نے مسترد کر دیا تھا۔ یہی نہیں، دسمبر 2021 میں چین نے اروناچل پردیش میں 15 مقامات کے نام بھی بدل دیے تھے۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ بھارت اور امریکاکی بڑھتی ہوئی قربتیں چین کے لیے بھی پریشانی کا باعث بن رہی ہیں۔
2016 میں، بھارت میں امریکی سفیر رچرڈ ورما ریاستی حکومت کی دعوت پر ایک تہوار میں شرکت کے لیے توانگ گئے تھے۔ چین نے اس وقت بھی سخت مخالفت کا اظہار کیا تھا اور کہا تھا کہ تیسرے فریق کی مداخلت سے بیجنگ اور نئی دہلی کے درمیان تنازع مزید پیچیدہ ہو جائے گا۔ بھارت نے اس وقت کہا تھا کہ اروناچل پردیش میں امریکی سفیر کے دورے میں کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے کیونکہ اروناچل پردیش بھارت کا حصہ ہے۔ عالمی اخبارت کے مطابق دفاعی ماہرین کا خیال ہے کہ نومبر کے مہینے میں اتراکھنڈ میں بھارت اور امریکا کی جانب سے ’یدھ ابھیاس‘ کے نام سے کی جانے والی مشترکہ فوجی مشق بھی چین کے لیے خطرے کی گھنٹی ثابت ہوئی ہے۔ اس فوجی مشق کا اہتمام لائن آف ایکچوئل کنٹرول سے تقریباً 100 کلومیٹر دور کیا گیا تھا۔ اس کی مخالفت کرتے ہوئے چین نے کہا تھا کہ یہ نئی دہلی اور بیجنگ کے درمیان دو سرحدی معاہدوں کی روح کی خلاف ورزی ہے۔ اس کے جواب میں بھارت نے کہا تھا کہ بھارت جس کے ساتھ چاہے اس طرح کی فوجی مشقیں کرسکتا ہے۔ چونکہ لائن آف ایکچوئل کنٹرول کو نقشے پر مکمل طور پر نشان زد نہیں کیا گیا ہے، اس لیے سرحد پر کئی مقامات ایسے ہیں جہاں دونوں ممالک کے درمیان تنازع ہے۔ اور بھارتی جب تک لائن آف ایکچوئل کنٹرول نقشے پر نشان زد نہیں ہو جاتا، ایسے واقعات ہوتے رہیں گے۔ بھارت کا یہ نکتہ متعدد مرتبہ اٹھاتا رہا ہے۔ لیکن چین اس سے اتفاق نہیں کرتا۔ بلکہ اس کا رویہ اور بھی جارحانہ ہو گیا ہے۔ اگر سیاسی سطح پر دیکھا جائے تو چینی سیاست دانوں کی جانب سے اختیار کی گئی پالیسیوں یا رویے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی کہ وہ امن قائم کرنا چاہتے ہیں۔ مشرقی لداخ کے حوالے سے دونوں ملکوں کی افواج 16 مرتبہ ایک دوسرے سے بات کر چکی ہیں لیکن یہ مسئلہ ابھی تک حل نہیں ہوا۔ ایسا لگتا ہے کہ امن و سکون کو یقینی بنانے کے لیے دونوں ممالک کی فوج کوئی مثبت کام کر نے میں ناکام ہے۔ ایسے میں ہر وقت خطرہ رہتا ہے کہ کسی بھی وقت کوئی چھوٹا واقعہ بڑی شکل اختیار کر سکتا ہے۔
امریکا کو اس بات کا بھی احساس ہے کہ چین نے آسیان کے اتحاد کو توڑ کر رکھ دیا ہے۔ لاوس اور کمبوڈیا جیسے چھوٹے ممالک کا چین پر معاشی انحصار بہت حد تک بڑھ چکا ہے۔ یہ بات 2012 میں اس وقت واضح ہوگئی تھی جب کمبوڈیا نے آسیان کی صدارت سنبھالنے کے بعد جنوبی چین سمندر پر چین مخالف بیان کو جاری نہیں ہونے دیا تھا۔ ایک جانب جہاں امریکا کے لیے آسیان ممالک میں چین مخالف خیالات اچھی خبر محسوس ہو، وہیں اس بات میں بھی دو رائے نہیں کہ یہ ممالک واشنگٹن سے بھی بہت پرامید نہیں ہیں۔
آسیان کے اتحادی ممالک امریکا کو ایک ایسے اتحادی کے طور پر دیکھتے ہیں جس پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ امریکا نے خطے کو 1997 کے ایشیائی معاشی بحران کے بعد کافی ناپسندیدہ اور مشکل معاشی اقدامات اٹھانے پر مجبور کیا تھا لیکن پھر جارج بش کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کا آغاز ہوا تو امریکا اس خطے کو تقریباً بھول ہی گیا۔ لیکن چین ان اقتصادی ضروریات کو پوری کرتا رہا ہے۔ امریکا کی جانب سے جاپان، بھارت اور آسٹریلیا سے اتحاد کی وجہ سے بھی آسیان کمزور ہوا جو اب دو طاقتوں کے درمیان پھنسا ہوا محسوس کرتا ہے۔ واشنگٹن کی جانب سے چین کو چیلنج کرنے کی خواہش آسیان ممالک کو خوفزدہ کر رہی ہے کیوں کہ دونوں طاقتوں کی جنگ میں نقصان ان ہی کا ہوگا۔
چین کبھی بھی ان ممالک سے اس طرز کا عسکری اتحاد نہیں کرے گا جیسا امریکا جاپان اور امریکا اور آسٹریلیا کے درمیان قائم ہے۔ اب بھارت ایک مرتبہ پھر امریکا پر انحصارکر نے مجبور ہے لیکن کامیابی امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ جو بائیڈن کو اس سوال کا سامنا ہے کہ کیا امریکا نے چین کے ہمسائے میں اتحاد قائم کرنے میں دیر کر دی ہے؟ بھات بھی 20برسوں سے یہی سوچ رہا ہے کہ ’’چین بھارت جنگ میں امریکی حمایت بھارت کو تباہ کر دے گی؟‘‘