پہلا حصہ
پاکستان کا ایک غیر ضروری سیاسی بحران ختم ہوچکا کیوں کہ صدر مملکت جنرل عاصم منیر کو پاک فوج کا سربراہ مقرر کرنے کی سمری پر نومبر میں دستخط کرچکے۔ پاک فوج میں پاکستانی جرنیلوں کی گنتی کے اعتبار سے جنرل عاصم منیر 17 ویں سربراہ ہیں پاک فوج کے ابتدائی دو سربراہ برطانوی جنرلز تھے۔ اگست 1947ء سے فروری 1948ء تک جنرل فرینک والٹیر میسروی پاک فوج کے سربراہ رہے، جرنیلوں کے ادوار اور بڑے سیاسی واقعات کا اگرچہ کبھی گہرا تعلق جوڑا نہیں گیا لیکن انہیں اتفاق کہا جاسکتا ہے لیکن یہ عجیب اتفاق ہے کہ بھارتی افواج 27 اکتوبر 1947ء کو کشمیر میں داخل ہوئیں۔ اور جنرل فرینک والٹر فروری 1948ء میں سبکدوش ہو کر جنرل ڈگلس ڈیوڈگریسی کو ذمے داری دے گئے۔ اسے بھی اتفاق کہا جاسکتا ہے کہ جنرل گریسی اپریل 1951ء میں گئے اور لیاقت علی خان کو اکتوبر 1951ء میں قتل کیا گیا۔ کیا جنرل فرینک نے کشمیر میں بھارتی فوجی مداخلت کی نگرانی اور اسے مکمل ہونے میں مدد دی۔ کوئی سوال آج تک نہیں رکھا۔ اسی طرح کیا جنرل گریسی نے کشمیر میں فوج بھیجنے کا حکم مانا تھا اور کیا لیاقت علی خان کے قتل کی سازش کا انہیں علم تھا۔ اس پہلو سے بھی کوئی سوال نہیں اُٹھا۔ کوئی یہ کیوں نہیں کہتا کہ ان دو جرنیلوں نے بھارت کے حق میں اور پاکستان کے خلاف اقدامات میں مدد دی تھی۔ ان کے بعد خدا خدا کرکے پاکستانی جنرل ایوب خان فوج کے سربراہ بنے اور پہلے ہی سربراہ کی مدت 1951ء سے 1958ء تک رہی یعنی تقریباً سات سال۔ بحیثیت فوجی سربراہ اور 1958ء سے 1969ء تک بحیثیت صدر پاکستان جنرل ایوب ملک کے مقتدر رہے۔ انہوں نے ایک اعتبار سے 18 سال سے زیادہ پاکستان پر حکمرانی کی۔ اس طرح جنرل موسیٰ 1958ء سے 1966ء تک فوج کے سربراہ رہے لیکن اسی دور میں بھارت نے پاکستان پر حملہ کردیا۔ اس جنگ کو کچھ بھی کہا جائے پاکستان کی فتح بھارت کی ناکامی یا پاکستانی فوج کی قوت کا امتحان لیکن فرق واضح تھا کہ پاکستانی فوج نے بھارتی حملے کا جواب دیا۔ مقابلہ کیا اور جو منصوبے بھارتی جرنیلوں نے بنائے تھے انہیں ناکام بنادیا گیا، یہی فرق تھا انگریز جرنیل اور پاکستانی جرنیل میں، اس کے آگے پاکستانی جرنیلوں کے ہاتھوں پاکستان کی تباہی کی کہانی ہے۔
جنرل آغا محمد یحییٰ خان ستمبر 1966ء سے 20 دسمبر 1971ء تک فوج کے سربراہ رہے۔ ستمبر 1965ء کی جنگ کے بعد سے 71ء کی جنگ تک وہ سربراہ رہے اور ان کی نگرانی میں سقوط ڈھاکا کا سانحہ ہوگیا جس کا نامکمل یا یہ ڈھائی تین لاکھ محصور پاکستانی اب تک بنگلادیش کے کیمپوں میں کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ کسی پاکستانی حکمران نے ان کی واپسی کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ صرف سابق وزیراعلیٰ پنجاب غلام حیدر وائیں کچھ لوگوں کو لائے اور بسانے میں کامیاب ہوئے۔ اس کے بعد صرف وعدے چل رہے ہیں۔ جنرل گل حسن بھی پہلے قائم مقام آرمی چیف بنے، 20 دسمبر 71 سے 21 جنوری تک ان منصب پر رہنے کے بعد 22 جنوری 72ء سے 2 مارچ 72ء تک کمانڈر انچیف رہے۔ یہ دور گویا عبوری دور تھا اس کے بعد 3 مارچ 1972ء سے یکم مارچ 1976ء تک جنرل ٹکا خان فوج کے سربراہ رہے۔ اس دور میں بھٹو کے خلاف مہم چلی اور ملک بھر کی دیواروں پر ٹکا خان ہمیں ڈاکوئوں سے بچائو کے نعرے لکھے ہوئے تھے۔ یہ فوج کو مداخلت کی دعوت تھی یا کسی نے یہ نعرے خاص مقصد کے لیے لکھوائے تھے لیکن نتیجہ وہی نکل رہا تھا کہ سیاست میں فوج کا دخل شروع یا بحال کیا جائے اور پھر اچانک وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے لیفٹیننٹ جنرل محمد ضیا الحق کو چیف آف آرمی اسٹاف بنادیا وہ تھری اسٹار لیفٹیننٹ جنرل تھے لیکن یکم مارچ 1976ء کو ذوالفقار علی بھٹو نے جنرل ضیا الحق کو فور اسٹار جنرل بنا کر چیف آف آرمی اسٹاف مقرر کردیا۔ بھٹو صاحب جنرل ضیا الحق پر بھرپور اعتماد کرتے تھے لیکن ایک سال کے اندر حالات نے پلٹا کھایا اور مارچ 1977ء کے انتخابات میں بھٹو صاحب پر دھاندلی کا الزام لگا کر ان کے خلاف تحریک شروع ہوئی اور نتائج نے بتایا کہ اس کے پیچھے جنرل ضیا الحق تھے۔ جنرل ضیا ایوب خان کے بعد دوسرے براہ راست سیاسی جنرل تھے۔ وہ بھی 5 جولائی 1977ء سے 17 اگست 1988ء تک ملک پر مقتدر رہے۔ اس میں سے کچھ ہی عرصہ چیف مارشل کا ایڈمنسٹریٹر رہے، وہ 1978ء میں ایک متنازع ریفرنڈم کے بعد ملک کے صدر بن گئے اور موت تک صدر مملکت کے عہدے پر فائز رہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کا تختہ الٹنے والے جنرل ضیا الحق نے بھٹو کا اعتماد اس لیے حاصل کیا تھا کہ وہ 1972ء سے بطور میجر جنرل آرمی کورٹس کے صدر تھے اور ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹنے کی سازشیں کرنے کے الزام میں کئی آرمی اور ائرفورس افسران کے خلاف مقدمات چلاتے رہے۔ اس کے نتیجے میں بھٹو نے انہیں لیفٹیننٹ جنرل اور پھر آرمی چیف بنادیا۔ ان ہی جنرل ضیا الحق نے بھٹو کا تختہ الٹا، خود اقتدار پر بیٹھے اور نظام مصطفی کا نعرہ بھی خود ہی اختیار کیا۔ یہ نعرہ لگانے والا پاکستان قومی اتحاد منہ دیکھتا رہ گیا۔ سیاسی جرنیل ہونے کے اعتبار سے جنرل ضیا الحق بہت زیادہ معروف رہے اور انہوں نے سیاست پر سیاستدانوں سے زیادہ گرفت رکھی۔ جنرل ضیا الحق جس بھٹو کا اقتدار ختم کرکے آئے تھے وہ اب تک پاکستان کے مقبول ترین لیڈروں میں تھے۔ ان کے بعد عمران خان کا نمبر آسکتا ہے لیکن جنرل ضیا نے بھٹو کی پھانسی کے بعد مکمل کنٹرول کے ساتھ حکومت کی۔ جنرل ضیا محض فوجی حکمرانی نہیں کررہے تھے فوج میں ایسی تبدیلیاں بھی کرگئے جو بعد میں طالع آزما جرنیلوں اور روشن خیالوں کے لیے مشکلات کا سبب بنیں۔ ان میں فوج میں امام اور خطیب کا تقرر اسلامی احکامات کا پرچار بھی شامل تھا۔ 5 جولائی کو ذوالفقار علی بھٹو انتہائی مقبول لیڈر تھے لیکن اس دن گرفتاری، نظر بندی اور جنرل ضیا کے رفتہ رفتہ گرفت کرنے کے انداز نے سب کو دھوکے میں رکھا اور جوں ہی بھٹو کی پھانسی عمل میں آئی بھٹو زندہ ہے کا صرف نعرہ رہ گیا جو آج بھی زندہ ہوتا رہتا ہے۔ بھٹو کی مقبولیت کا موازنہ ایک مختصر مخصوص علاقے کراچی و حیدر آباد میں الطاف حسین کی مقبولیت سے کیا جاسکتا ہے، وہ بلاشبہ بے انتہا مقبول تھے لیکن بہت چھوٹے علاقے میں۔ ملک گیر سطح پر نواز شریف اور بے نظیر بھی مقبول رہے لیکن عمران خان کو ان دونوں پر فوقیت حاصل ہے، تاہم حکومت ختم ہوتے ہی اور فوجی سرپرستی ختم ہوتے ہی گراف نیچے آگیا ہے۔