آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں

603

عمران خان کرنا تو بہت کچھ چاہتے ہیں لیکن اگر انہیں بے بسی کا سامنا ہے تو وہ ’’اپنوں‘‘ ہی کی جانب سے ہے۔ وہ ایک ادارے کی جانب اشارہ کر کر کے میر جعفر اور میر صادق بہت شد و مد کے ساتھ کہا کرتے تھے لیکن اب ان کو اندازہ ہو رہا ہوگا کہ میر جعفرین و صادقین سے خود ان کی پارٹی پٹی پڑی ہے جس کی وجہ سے ان کو ہر ہر محاذ پر ناکامی کا منہ دیکھنا پڑ رہا ہے۔ یہی میر جعفرین و صادقین ہی تھے جن کی وجہ سے ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہوئی۔ یہی میر جعفرین و صادقین ہی تو تھے جنہوں نے اسلام آباد پر پہلی یلغار کو فتنہ و فساد میں تبدیل کیا اور یہی تو وہ سب ہیں جن کی وجہ سے پنڈی کا دھرنا بہت بری طرح ناکام ہوا۔ پہلی چڑھائی اور پنڈی کے دھرنے کی ناکامی کے بعد جب اس بات کا ارادہ کیا گیا کہ کم از دو صوبائی اسمبلیاں مکمل طور پر تحلیل کردی جائیں اور قومی اسمبلی کے جتنے بھی ارکان ہیں وہ سارے کے سارے استعفا دے کر باہر آ جائیں۔ دو اسمبلیوں کا تحلیل ہونا اور بھاری تعداد میں قومی اسمبلیوں کے ارکان کا استعفا دے کر باہر آ جانا ایک ایسا ماحول پیدا کر سکتا تھا کہ حکومت بہر صورت مقررہ مدت سے قبل انتخابات کرانے پر مجبور ہوسکتی تھی لیکن مسئلہ پھر اپنوں کی بے وفائی کا سامنے آ جاتا ہے۔ قومی اسمبلی کے ارکان کی ایک بڑی تعداد ’’لگی لگائی‘‘ کو چھوڑنے کے لیے تیار نظر نہیں آتی۔ رہا صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کا معاملہ تو وزیر اعلیٰ پنجاب تاریخ کے اس سنہری ترین موقعے کو بھلا ہاتھ سے کیوں جانے دیں گے۔ پنجاب اسمبلی تو پھر بھی سانجھے کی ہانڈی ہے اگر ٹوٹی تو پیچ چوراہے پر ہی ٹوٹے گی لیکن بات جو عقل و سمجھ سے ماورا ہے وہ کے پی کے کی اسمبلیوں کا نہ ٹوٹنا ہے۔ اس میں سانجھے داری ضرور ہے لیکن دیگر شرکا آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں۔ جس کے توڑ دیے جانے میں بظاہر کسی قسم کی کوئی رکاوٹ نظر نہیں آتی تو توڑ دینے میں اتنا رد و کد بے معنی تو نہیں ہو سکتا لہٰذا عمران خان کو اپنے اندر کالی بھیڑوں کو تلاش کرنا چاہیے۔
کہتے ہیں کہ پاکستان میں لوٹے بہت ہیں لیکن یہ سب لوٹے ہیں بہت قیمتی۔ جب عمران خان کے پاس بہت سارے لوٹے لڑھک لڑھک کر آ رہے تھے تب بھی عمران خان کو علم تھا کہ آنے والے ہر دور میں لوٹے ہی رہے ہیں اور اگر وہ ایک مرتبہ پھر پلٹ رہے ہیں تو لوٹوں کا کام تو ہوتا ہی اِدھر اُدھر لڑھکنا ہے۔ انتخابات سے قبل اور بعد، جب پارٹی کے لیے قربانی دینے والوں نے خان صاحب سے گلا کیا تھا کہ ہم سب نے بہت قربانیاں دی ہیں تو آپ اغیار کو کیوں نواز رہے ہیں تو خان صاحب نے بلا توقف ان کو یہی جواب دیا تھا کہ اس وقت حکومت میں آنے کے لیے وہ سب کچھ کرنے کے لیے تیار ہیں۔ گویا اس وقت لوٹوں کو آپ کی اور آپ کو لوٹوں کی ضرورت تھی تو اب صرف اتنا ہی تو ہوا ہے کہ دو طرفہ ضرورتیں بدل چکی ہیں اور پرندے سیاسی زندگی کی شام ہونے سے پہلے پہلے اپنے اپنے گھونسلوں میں پلٹ جانے فکر میں ہیں۔
یہ تو ہے خان صاحب کی ’’آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں‘‘ کی کہانی۔ خان صاحب کو لانے والوں کی آنکھوں نے بھی بہت سنہرے خواب خان صاحب کی صورت میں دیکھے تھے لیکن آج وہ بھی ہر فورم پر یہی کہتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں کہ ’’آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں‘‘، خدا جانے ان کے چودہ کے چودہ طبق روشن ہوئے ہیں یا اب بھی وہ شطرنج کی بساط پر کسی قسم کی شاطرانہ چال چلنے کی فکر میں لگے ہوئے ہیں۔ شاطروں کا خیال تھا کہ عزت والوں کو ذلیل کرکے اور جن کو ذلیل کرکے رکھا تھا ان کی جانب نظر ِ کرم کرنے سے ان کے مرجھائے اور پاکستان کے الجھائے مسئلوں پر رونق اور سلجھن کے آثار بڑھ جائیں گے لیکن دو بیلوں کی لڑائی نے ایک مرتبہ پھر کھیت کا ستیاناس مار کر رکھ دیا ہے اور جن جن مقاصد کے لیے صور پھونکا گیا تھا وہ مزید بد حالی کا شکار ہو کر رہ گئے ہیں۔ عوام کا تو اب یہ عالم ہے کہ نہ وہ اِلی الذی ہو کر رہ گئے ہیں اور نہ ہی اُلی الذی۔ البتہ وہ اس فریب میں ضرور مبتلا ہو گئے ہیں کہ فیز (فیض) ’’نیوٹرل‘‘ ہوگیا ہے۔ غور کا مقام یہ ہے کہ جو انسان اپنی صوبائی یا قومی اسمبلی جیسی نہایت کم اہم نشست سے مستعفی ہونے کے لیے تیار نہ ہو جبکہ مقررہ مدت ختم ہونے میں چند ماہ ہی رہ گئے ہوں تو کیا کوئی تاج و تخت کا مالک اپنا اقتدار اپنی ہتھیلی پر رکھ کر دوسروں کے حوالے کر سکتا ہے؟۔
دنیا کی بڑی بڑی خونریزیوں، جنگوں اور انقلابات پر نظر ڈالی جائے تو انسانوں کی لاشوں کے جتنے بھی کشتوں کے پشتے لگے نظر آئیں گے ان کے پیچھے یہی اقتدار کی ہوس کارفرما نظر آئے گی۔ جو تخت و تاج گھٹنوں گھٹنوں خون میں سے گزر کر ملتا ہو کیا کوئی اسے طلائی طشتریوں میں سجا کر کسی بے ہتھیار کے حوالے کر سکتا ہے۔ جس نے بھی یہ گمان کر رکھا ہے کہ فیز (فیض) نیوٹرل ہوگیا ہے وہ بہکائے میں آکر اسے چھونے کی کوشش نہ کرے ورنہ انجامِ کار ایک چھپاکا اس کی ہڈیاں تک کوئلہ بنا کر رکھ دے گا۔ بساط پر بظاہر جن مہروں کو مات دکھائی دے رہی ہے، شاطر کی ایک ہی چال سے پوری بساط الٹ سکتی ہے، اسی لیے میں یہ بات پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں
محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی