سندھ کے جو حالات ہیں اس پر ممتاز مزاح نگار اور مصنف انور مقصود کا کہنا ہے کہ ’’سندھ کے حالات کی تبدیلی کے لیے بھٹو کو مارنا ہوگا، جب تک بھٹو زندہ ہے سندھ میں تبدیلی نہیں آسکتی‘‘۔ انور مقصود کی اس بات سے کراچی سمیت پورے صوبے کے لوگ متفق نظر آتے ہیں۔ ’’بھٹو‘‘ کو مارنے کے لیے اب پیپلز پارٹی کے اپنے لوگ بھی بھٹو ہی کیا ان کی پارٹی کو بھی ختم کرنا چاہتے ہیں، بس ان کی خواہش ہے کہ آخری وقت تک وہ زندہ ہے بھٹو زندہ ہے اور جیے بھٹو کا نعرہ بلند کرتے ہوئے ’’جیتے جی مر جانے‘‘ کی کیفیت میں مبتلا اپنی قوم کا حوصلہ بلند کرتے رہیں۔ باقی کام تو بلاول زرداری اور آصف زرداری بہت سلیقے سے کر ہی رہے ہیں۔ ویسے بھی ایسا لگتا ہے کہ بلاول زرداری فارن منسٹر بن کر اپنے آپ کو پاکستانی سے زیادہ فارنر ہی سمجھنے لگے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب سے وہ وفاقی وزیر خارجہ بنے ہیں اس وقت سے غیر ملکی دوروں پر رہتے ہیں۔ مخلوط حکومت کے قیام کے بعد سے درجنوں غیر ملکی دورے کرچکے ہیں۔ ممکن ہے کہ وہ اس مختصر دورانیے کی حکومت میں غیر ملکی دوروں کا کوئی نیا ریکارڈ بنانا چاہتے ہوں۔ رہی بات سندھ کی تو اب اہل ِ سندھ کی امیدوں پر تو پانی پھر چکا ہے۔ بلال کے غیر ملکی دوروں سے سندھ اور اس کے عوام کو کچھ فائدہ ہونے کا امکان نہیں ہے۔ اندرون سندھ کے سیلاب سے متاثرہ افراد کی امداد کے لیے آنے والے غیر ملکی فنڈز سائیں سے سرکار و پارٹی مطمئن نظر آتی ہے مگر یہ کل امدادی رقم کتنی ہے اس کی وضاحت نہیں ہوسکی… بس امداد مل گئی اسے یہ ہی اطمینان مطلوب تھا۔ مطمئن تو پیپلزپارٹی ہی کیا ایک درجن جماعتوں پر مشتمل اتحادی حکومت ہی ہے۔ انہیں یہ اطمینان اس وجہ سے بھی ہے کہ اس حکمرانی کو مولانا فضل الرحمن کے ساتھ کی وجہ سے شرعی ’’پردہ‘‘ بھی حاصل ہے تمام حکومتی جماعتوں کا کہنا ہے کہ مولانا کی موجودگی نے حکومت کے تمام اعمال پر پردہ ڈالا ہوا ہے، ویسے بھی حکومت کو بنانے والے اور اس کی حمایت کرنے والے کون سے بنیاد پرست اور دین کو سمجھنے والے ہیں۔
سائیں سرکار کی سب سے بڑی خوش قسمتی تو یہ بھی ہے کہ صوبے میں وقفے وقفے سے اس پارٹی کی حمایت حاصل ہوجاتی ہے جو اب کوئی مظاہرہ یا جلوس نکالنے کے قابل نہیں رہی البتہ اس کا ہی ’’جلوس نکلنے‘‘ کو ہے۔ پیپلزپارٹی اور اس کی حمایتی متحدہ قومی موومنٹ اپنے شہروں کی ترقی سے زیادہ ذاتی ترقیوں پر یقین رکھتے ہیں لیکن دعوے شہروں کے حقوق کے حصول کے کیا کرتے ہیں۔ کراچی کے پریشان حال لوگ اس بات پر اللہ کا شکر ادا کیا کرتے ہیں کہ ’’ہمارے نام پر کچھ تو انہوں نے حاصل کیا اور کررہے ہیں‘‘ مگر عوام کو یہ بھی یقین ہے کہ ’’مسائل کا حل صرف جماعت اسلامی ہے‘‘۔