اللہ اور رسول کے لیے عاشق ومعشوق کے الفاظ کا استعمال

1749

…دوسرا حصہ…
احمد رضا قادری لکھتے ہیں: ’’اللہ تعالیٰ کی ذات کے حوالے سے لفظِ عشق استعمال کرنے کی ممانعت کی بابت حکم کا منشا لفظِ ’’یَعْشَقُنِیْ‘‘ ہے، یعنی یہ دعویٰ کرنا کہ اللہ مجھ سے عشق فرماتا ہے، اس کے بجائے کہنا چاہیے: ’’یُحِبُّنِیْ‘‘یعنی وہ مجھ سے محبت فرماتا ہے، لیکن اس سے اس بات کی ممانعت ثابت نہیں ہوتی کہ بندہ کہے: ’’اَعْشَقُہٗ‘‘ میں اللہ سے عشق کرتا ہوں، یعنی بندے کا اللہ تعالیٰ کی ذات سے عشق کا دعویٰ کرنا ممنوع نہیں ہے، گویا بندہ اپنے آپ کو اللہ کا عاشق کہہ سکتا ہے، لیکن یہ کہنا اللہ کے شایانِ شان نہیں ہے کہ وہ بندے سے عشق فرماتا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے لیے عشق کے معنی متحقق نہیں ہوسکتے۔ اس کے برعکس دونوں طرف سے محبت کا اطلاق درست ہے، یعنی یہ کہ اللہ بندے سے محبت فرماتا ہے اور بندہ اللہ سے محبت کرتا ہے، کیونکہ یہ مائدہ:54 میں مذکور ہے: ’’یُحِبُّھُمْ وَیُحِبُّوْنَہ‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ ایسے بندوں کو لائے گا جن سے وہ محبت فرمائے گا اور وہ اُس سے محبت کریں گے‘‘، پس اللہ کا بندے سے محبت کرنا اور بندے کا اللہ سے محبت کرنا معنی ٔ حقیقی لغوی کے اعتبار سے جائز ہے اور قرآنِ کریم میں منصوص ہے اور بندے کی اللہ سے محبت جب مؤکّد ہوجائے اور اس میں پختگی آجائے تو اُسی کو عشق کہتے ہیں، محبت کی پختگی کے معنی ہیں: وہ ہمہ وقت اس کے ذکر وفکر اور اطاعت وفرمانبرداری میں مشغول رہے‘‘۔ (فتاویٰ رضویہ) اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو نہ عاشق کہہ سکتے ہیں اور نہ معشوق، البتہ بندہ کہے: ’’مجھے اللہ سے عشق ہے‘‘ تو اس میں شرعی خرابی نہیں ہے۔
مفتی محمد شریف الحق امجدی سے سوال ہوا: ’’رسول اللہؐ کو اللہ تعالیٰ کا دل بر، دل رُبا اور معشوق کہہ سکتے ہیں‘‘، آپ نے جواب میں لکھا: ’’اللہ تعالیٰ کی طرف نسبت کرتے ہوئے ان تینوں الفاظ: (دل بر، دل رُبا اور معشوق) میں سے کسی کا اطلاق صحیح نہیں ہے، یعنی یہ کہنا جائز نہیں کہ حضور اقدسؐ اللہ تعالیٰ کے دل بر یا دل رُبا یا معشوق ہیں، اس لیے کہ دل بر، دل رُبا کہنے میں باری تعالیٰ کے لیے ایہامِ تجسّم (جسمانیت کا وہم پیدا ہوتا) ہے اور معشوق کہنے میں اثباتِ نَقص، کیونکہ عشق کا حقیقی معنی محبت کی وہ منزل ہے جس میں جنون پیدا ہو جائے‘‘۔ (فتاویٰ شارح بخاری)
ہمارے عُرف میں عشق ِ حقیقی اور عشق ِ مجازی کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں: ’’عشق ِ حقیقی سے مراد فرطِ محبت کا وہ تصور جس میں تقدیس ہے، ہوائے نفس سے تطہیر ہے اور کوئی سفلی جذبات نہیں ہوتے، اس معنی میں عشق مُقدّس شخصیات کے لیے استعمال ہوتا ہے اور عشقِ مَجازی میں ہوائے نفس اور لذتِ سماع ونظر بھی آجاتی ہے، یہ عام انسانوں کے ایک دوسرے سے محبت کے لیے استعمال ہوتا ہے، فرہنگ ِ آصفیہ میں ہے: ’’عشقِ حقیقی، عشقِ مَجازی کا نقیض۔ خدا تعالیٰ کا عشق، عشقِ مولیٰ، اصلِ عشق، مَحبت ِ الٰہی، عشقِ مَجازی، عشقِ حقیقی کا نقیض، بناوٹ کا عشق، جھوٹا عشق، نفسانی عشق، دنیوی معشوقوں کا عشق، حسن پرستی‘‘۔ (جلد سوم)
امام احمد بن حنبل اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں:
’’سیدنا ابوذرؓ نے کہا: رسول اللہؐ کے پاس عَکَّاف بن بِشر تمیمی نامی شخص آیا، نبیؐ نے اُس سے فرمایا: عَکَّاف! تمہاری کوئی بیوی ہے، اس نے کہا: نہیں، آپؐ نے فرمایا: تمہاری کوئی باندی ہے، اس نے کہا: نہیں، آپؐ نے فرمایا: تمہاری مالداری خیر کا باعث نہیں ہے، اس نے کہا: میری مالداری خیر کا باعث ہے، آپ ؐ نے فرمایا: پھر تو تم شیطان کے بھائی ہو اور اگر تم نصرانی ہوتے تو اُن کے راہبوں میں سے ہوتے، ہماری سنّت تو نکاح ہے۔ تمہارے مرنے والوں میں سے بے توقیر وہ ہوں گے جو اہل وعیال والے نہ ہوں، کیا تم شیطان کے انداز اختیار کرتے ہو۔ عورتیں نیک لوگوں کے لیے شیطان کا ہتھیار ہیں، سوائے شادی شدہ لوگوں کے کہ وہ پاک باز ہوتے ہیں اور فحش گوئی سے دور ہوتے ہیں۔ عکّاف! تم پر افسوس ہے، بے شک یہ وہ عورتیں ہیں جن سے ایوب، دائود، یوسف ؑ اور کُرسُف کو واسطہ پڑا تھا، بشر بن عطیہ نے پوچھا: یارسول اللہ! کُرسُف کون ہے، آپؐ نے فرمایا: یہ شخص سمندر کے ساحلوں پر تین سو سال تک عبادت کرتا رہا، دن کو روزے رکھتا اور راتوں کو قیام کرتا، پھر اُس نے ایک عورت کے عشق کے سبب خداوند بزرگ وبرتر کی ناشکری کی اور اللہ کی عبادت کے شِعار کو ترک کردیا، پھر اللہ تعالیٰ نے اُس کی بعض نیکیوں کے سبب اُس کی توبہ قبول فرمائی،آپؐ نے فرمایا: عَکّاف! تم پر افسوس ہے، نکاح کرو ورنہ تم تشکیک کے ماروں میں شامل ہوجائو گے، اس نے عرض کیا: یارسول اللہ! میرا نکاح کردیجیے، آپؐ نے فرمایا: میں نے کلثوم حِمیَری کی بیٹی کریمہ سے تمہارا نکاح کردیا‘‘۔ (مسند احمد)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کی محبت میں گرفتار ہوکر انسان بھٹک سکتا ہے، بہک سکتا ہے، سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ کا فضل اس کے شاملِ حال ہو، جیساکہ یوسفؑ نے ازراہِ تواضع فرمایا: ’’میں اپنے نفس کی پارسائی کا دعویٰ نہیں کرتا، نفس کا توکام ہی برائی پر اکسانا ہے، مگر جس پر میرا رب رحم فرمائے، بے شک میرا رب بہت بخشنے والا، نہایت مہربان ہے‘‘۔ (یوسف:53) اس کا مطلب یہ ہے: اللہ تعالیٰ جس پر مہربان ہو، اس کی حفاظت فرماتا ہے، مکرِ شیطان، فریبِ نفس اور فریبِ نظر سے اُسے بچائے رکھتا ہے، اُسے ہمیشہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہوکر جوابدہی کا خوف لاحق رہتا ہے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’اور جو اپنے پروردگار کے حضور پیش ہوکر (جواب دہی کے تصور سے) ڈرتا رہا اور اپنے نفس کو خواہشات کی پیروی سے روکے رکھا تو بہشت ہی اس کا ٹھکانا ہے‘‘، (النازعات: 40-41) نیز فرمایا: ’’بے شک جو لوگ تقوے پر کاربند رہتے ہیں، جب کوئی شیطانی خیال انہیں چھوتا ہے تو انہیں اللہ یاد آجاتا ہے اور اچانک اُن کی چشمِ بصیرت وا ہوجاتی ہے‘‘، (الاعراف: 201) مفسرین نے یہاں ’’مُبْصِرُون‘‘ کے کلمے کو ظاہری معنی میں بھی لیا ہے، یعنی اُن کی آنکھیں کھل جاتی ہیں اور ایسے اعمال کا انجام انہیں نظر آجاتا ہے اور اس کی طرف اُن کے بڑھتے ہوئے قدم رک جاتے ہیں اور بعض مفسرین نے اسے بصیرت کے معنی میں لیا ہے، یعنی اُن کے دل روشن ہوجاتے ہیں اور دلوں پر معصیت کی جو ظلمت چھائی ہوتی ہے، وہ یادِ الٰہی کی برکت سے چھَٹ جاتی ہے اور دل روشن ہوجاتے ہیں، حق آشکار ہوجاتا ہے اور دل ودماغ باطل سے متنفر ہوجاتے ہیں۔
علامہ علا الدین علی بن حسام الدین ہندی خطیب بغدادی کے حوالے سے روایت کرتے ہیں:
’’سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں: جس نے عشق کیا اور پاک دامن رہا اور اسی پاکدامنی میں اس کی وفات ہوئی، تو وہ شہید کی موت مرا‘‘، (کنز العمال) (۲) ’’سیدنا ابن عباسؓ فرماتے ہیں: (الف) جس نے عشق کیا اور اسے ظاہر نہ کیا اور پاکدامنی کی موت مرا تو وہ شہید (کے حکم میں) ہے‘‘، (کنز العمال) ’’(ب) رسول اللہ ؐ نے فرمایا: میری امت کے بہترین لوگ وہ ہیں کہ جب ان پر کوئی آزمائش آتی ہے تو پاک دامن رہتے ہیں، صحابہ نے عرض کیا: یارسول اللہ! کون سی آزمائش مراد ہے، آپؐ نے فرمایا: عشق‘‘۔ (کنز العمال) ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ عشق کا زیادہ اطلاق عورتوں کی طرف میلان پر ہوتا ہے اور یہ انسان کی بشری کمزوری اور ایک آزمائش ہے، اس میں مبتلا ہونے سے بچنا اور اپنی پاکدامنی کی حفاظت کرنا بڑے درجے والوں کا کام ہے۔
خلاصۂ کلام یہ کہ اللہ تعالیٰ کے لیے عاشق ومعشوق کے الفاظ اور اللہ تعالیٰ کی نسبت سے رسول اللہؐ کے لیے معشوق دلبر اور دل رُبا کے الفاظ استعمال کرنا ذاتِ باری تعالیٰ کے شایانِ شان نہیں ہے اور علمائے کرام نے اس سے منع فرمایا ہے، تاہم رسول اللہؐ کے محبین کے لیے عاشق کا لفظ بکثرت استعمال ہورہا ہے، اس کی جمع عُشّاق ہے اور ع کے فتحہ کے ساتھ عَشّاق کے معنیٰ ہیں: ’’بہت زیادہ عشق کرنے والا ‘‘، یعنی یہ مبالغہ کا صیغہ ہے۔ البتہ رسول اللہؐ کے لیے ’’معشوق‘‘ کا لفظ کبھی نہیں سنا اور یہ لفظ آپؐ کے شایانِ شان معلوم نہیں ہوتا، اس سے اجتناب بہتر ہے، حالانکہ معنوی اعتبار سے اس میں خرابی نہیں ہے، لیکن چونکہ یہ کلمہ مُبتذِل ہے، سفلی جذبات کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے، اس لیے ہماری رائے میں رسول اللہؐ کے لیے معشوق کا کلمہ استعمال کرنا مناسب نہیں ہے۔ آپؐ کے لیے حبیب اور محبوب کے کلمات استعمال کیے جائیں، ان میں حرمت ہے، وقار ہے، تقدیس ہے اور قرآن وحدیث میں اس کی ترغیب دی گئی ہے، بلکہ اسے ایمان کا تقاضا قرار دیا گیا ہے کہ مومن کی نظر میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول مکرّمؐ کی ذواتِ مقدسہ صرف محبوب نہیں، بلکہ اَحَبّ (محبوب ترین) ہونی چاہییں، احادیث مبارکہ میں ہے:
’’سیدنا انسؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہؐ نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص مومن (کامل) نہیں ہوسکتا تاوقتیکہ وہ مجھے اپنے والد، اپنی اولاد اور تمام لوگوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ محبوب (اَحَبّ) نہ جانے‘‘۔ (بخاری)
’’عبداللہ بن ہشام بیان کرتے ہیں: ہم نبیؐ کے ساتھ تھے، دراں حالیکہ وہ عمر بن خطاب کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے، سیدنا عمر نے عرض کیا: یارسول اللہ! آپ مجھے اپنی جان کے سوا ہرچیز سے زیادہ محبوب ہیں، تو نبیؐ نے فرمایا: نہیں! اُس ذات کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے، تم اُس وقت تک مومنِ کامل نہیں ہوسکتے جب تک کہ میں تمہارے لیے تمہاری جان سے بھی زیادہ محبوب نہ ہوجائوں، اس پر سیدنا عمر نے عرض کیا: یارسول اللہ! بخدا! اب آپ میرے لیے میری جان سے بھی زیادہ محبوب ہیں، تو نبیؐ نے فرمایا: عمر! اب تم نے کمالِ ایمان کو پالیا‘‘۔ (بخاری)
رسول اللہؐ کی نسبت سے اللہ تعالیٰ کے لیے لفظِ ’’شیدا‘‘ کے اطلاق کے بارے میں مفتی شریف الحق امجدی لکھتے ہیں: ’’(اللہ تعالیٰ) کو شیدائے محمد کہنا بھی جائز نہیں کہ اس میں معنیٔ سوء کا احتمال ہے، کیونکہ شیدا کے معنی ہیں: ’’آشفتہ، فریفتہ، مجنون، عشق میں ڈوبا ہوا، عاشق‘‘، اللہ تعالی ان تمام باتوں سے مُنَزَّہ (پاک) ہے‘‘۔ (فتاوی شارح بخاری)