کتابوں کا میلہ

820

ایک عالم کا ہاتھ بڑا تنگ تھا۔ گھر میں فاقے ہورہے تھے۔ اس نے بہت سی کتابیں گٹھڑی میں باندھیں اور بیچنے کے لیے بازار کی طرف چل پڑا۔ راستے میں اُسے ایک اور عالم ملا جو اس نے کتابوں کی گٹھڑی دیکھی تو کھول کر دکھانے کی فرمائش کی پھر اسے اتنی پسند آئیں کہ خریدار بن گیا لیکن پیسے اس کے پاس بھی نہ تھے، اُسے یاد آیا کہ گھر میں کچھ کانسی کے برتن ہیں جن کو بیچ کر اس کو کچھ کھانے کی چیزیں خریدنی ہیں۔ وہ کتابوں والے عالم کو گھر لے گیا، کتابوں والے عالم کو کانسی کی چیزوں کا شوق تھا وہ ان قدیم برتنوں کو دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ کہنے لگا یوں کرتے ہیں ہم آپس میں سودا کرلیتے ہیں۔ لہٰذا دونوں مطمئن ہوئے اور سودا طے پاگیا۔ کتابیں کانسی کے عالم نے دیکھ لیں اور کتابوں والے عالم نے کانسی کی چیزیں سنبھالیں اور گھر چل دیا۔ گھر پہنچا تو بیوی اتنی جلدی لوٹ آنے پر بڑی حیران ہوئی، اس نے تھیلے دیکھے تو وہ کچھ سخت چیزوں سے بھرے ہوئے تھے اور اِدھر اُدھر کرنے سے کھنک اُٹھتے تھے۔ عالم نے ساری کتھا سنائی تو وہ جل ہی اُٹھی اور بے بھائو سنانے لگی۔ گھر میں کھانے کو زہر تک نہیں اور تم یہ کباڑ اُٹھا لائے ہو۔ ’’وہ عالم بھی اسی پریشانی میں تھا‘‘
شوہر صاحب نے ہنستے ہوئے جواب دیا اس نے مجھ سے کتابیں تو لے لیں مگر اب کئی دن تک فاقے ہی کرے گا۔
صورت حال یہ ہے کہ کتابوں کے میلے لگ رہے ہیں اور مزید لگنے والے ہیں لیکن ان عالم صاحب کی طرح ہمارا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ لہٰذا سوچ و بچار میں ہیں کہ پرس میں معقول رقم کیسے جمع کی جائے۔ دونوں عالموں نے تو ایک اچھی ترکیب سوچ لی۔ دعا کریں ہمیں بھی سوجھ جائے۔ ہر سال کتاب میلے میں لوگوں کا جوش و خروش پہلے کی نسبت زیادہ نظر آتا ہے۔ بچوں کی بھی ایک بڑی تعداد میلے میں شریک ہوتی ہے تھیلے بھر بھر کر کتابیں خریدی جاتی ہیں بلکہ بہت سے شوقین تو ٹرالیاں ساتھ لاتے ہیں کچھ مائیں بچوں کی پرام استعمال کرتی ہیں دیکھیے اللہ کرے اس دفعہ بھی ایسے ہی مناظر نظر آئیں۔ لیکن مہنگائی سے ڈر لگتا ہے۔ ڈر تو سیاست سے بھی لگتا ہے کہ پاکستان میں سیاست کو اسلامی ٹچ دینے کی روایت کے ساتھ ادبی ٹچ دینے کی روایت بھی چل پڑی ہے۔ کہیں ادب اور سیاست ٹچ بٹن کی جوڑی نہ بن جائیں پھر کتابوں کے عاشق سیاست دانوں کا فیشن نہ چل پڑے، جیسے آج یہ اہم ہے کہ عاشق رسول سیاست دان کون کتنا ہے؟ سود کے بارے میں موثر اقدامات کرنا شہباز شریف یعنی ہمارے وزیراعظم کے لیے اس سلسلے میں ایک دلیل ہوسکتی ہے اگر وہ اس کے لیے ٹھوس اور سنجیدہ اقدامات کرنے پر آمادہ ہوں۔ بالکل ایسے جیسے بھٹو صاحب جیسے سیاستدان کو اپنے تین اقدامات کی وجہ سے اسلامی ٹچ کے ساتھ یاد کیا جاتا ہے۔ پہلا آئین سازی میں اسلامی تعلیمات کی کلیدی حیثیت اس کے بعد دوسری آئینی ترمیم اس ترمیم کے ذریعے ایک عوامی تحریک کے مطالبے پر قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینا اور تیسری اپنے آخری دور میں تیز و تند تحریک کے اثرات کو زائل کرنے یا کم کرنے کے لیے شراب اور جوئے پر پابندی کے علاوہ ہفتہ وار تعطیل جمعہ کے دن کرنے کا اعلان تھا۔ ادب اور سیاست کا پکا جوڑ آرٹس کونسل آف پاکستان کے زیر اہتمام پندرہویں عالمی اردو کانفرنس میں بڑا ٹھیک ٹھاک نظر آیا، جہاں اکیسویں صدی کے اردو ادب اور اردو صحافت پر خوب خوب بات کی گئی۔ اہل اقتدار یعنی اہل سیاست کو مہمانانِ خصوصی کے طور پر بلایا گیا۔ مزے کی بات یہ تھی کہ انہیں اہل ادب کی زبان سے کچھ میٹھی اور کچھ ترش باتیں سنوا دی گئیں۔ آرٹ کونسل احمد شاہ صاحب کی یہ کامیابی ہے۔ بلکہ کامیابیوں میں سے ایک کامیابی ہے۔ یقینا آرٹ کونسل میں ہونے والی اردو کانفرنس ادب، ثقافت اور تہذیب سے محبت کرنے والوں کے لیے عید تھی۔ اب ایک اور عید کتابوں سے محبت کرنے والوں کے لیے ایکسپو میں آگئی ہے۔ سب تیاری کرلیں لیکن ان دونوں عالموں کی طرح کی نہیں!