معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک دیوالیہ ہوچکا ہے جبکہ کچھ ماہرین حقیقت کو پس پشت ڈال کر معیشت کی بہتری کا راگ الاپ رہے ہیں اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہر حکومت نے ملک کی معیشت کا جنازہ نکالنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، موجودہ حکومت نے مہنگائی کا ایسا طوفان برپا کیا کہ غریب متوسطہ سفید پوش طبقے کی بھی چیخیں نکل گئیں۔ چھوٹے بڑے تاجر اس وقت جن مشکلات کا سامنا کر رہے شاید ایسا کبھی ہوا ہو۔ سیاست اور معیشت غیر مستحکم دکھائی دے رہی ہے، ایک عام شہری بھی ملکی حالات کو دیکھ کر غیر یقینی کی کیفیت میں مبتلا ہے کیوں کہ اس قوم کو ہمیشہ سہانے خواب دکھائے گئے، چند سڑکیں چند بسیں اور من پسند افراد کو قرض اسکیم دے کر قوم کو بے وقوف بنایا جاتا رہا، نوجوانوں کے لیے لنگر خانے آرام گاہ بنا کر اس قوم کو مفلوج بنانے کی سازش تو کی گئی مگر اس قوم کو خود کفیل بنانے پر توجہ نہیں دی گئی۔ جرائم پیشہ افراد تو پیدا کیے گئے مگر جرائم کو روکنے کی کبھی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی، بد قسمتی سے اس وقت بھی ملک و قوم کے بہتر مستقبل کے لیے سوچا نہیں جارہا۔
ملک میں ایک بڑی تبدیلی آرمی چیف کا انتخاب خوش آئند طریقے سے اپنے انجام کو پہنچی، موجودہ آرمی چیف سے ضرورت سے زیادہ اُمید بھی وابستہ کر لی گئی ہیں جن پر پورا اُترنا آرمی چیف کی صلاحیتوں کا ایک کڑا امتحان ہوگا، دوسری جانب تحریک انصاف کا حقیقی آزادی مارچ بغیر کسی کامیابی کے اپنے انجام کو پہنچا جس میں پنجاب اور خیبر پختون خوا کی اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کا عندیہ دیا گیا جس پر ابھی حتمی فیصلہ ہونا باقی ہے جبکہ موجودہ حکومت گورنر راج سمیت مختلف آپشن پر غور کر رہی ہے اگر دیکھا جائے تو دونوں جانب سے ملک کو مزید بحران کی جانب دھکیلا جارہا ہے دونوں جانب سے میں نہ مانو کی سیاست کرتے ہوئے قوم کے مسائل میں مزید اضافہ کیا جارہا ہے۔
اگر خان صاحب تھوڑی دیر کے لیے یہ سوچ لیں کہ ان کے فوری انتخابات کے مطالبے سے ملک و قوم کو مزید نقصان کا سامنا ہے اور وہ ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں آئینی مدت پوری ہونے کے لیے چند ماہ کا انتظار کر لیتے ہیں تو ان کو شاید کوئی سیاسی نقصان نہیں پہنچے گا یا پھر بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے موجودہ حکومت ملک و قوم کے بہتر مستقبل کو سامنے رکھتے ہوئے فوری عام انتخابات کا اعلان کر دیتی ہے تو اس میں بھی یقینا پی ڈی ایم کے اتحاد کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ خان صاحب کی سابق حکومت سلیکٹڈ تھی اور موجودہ حکومت بھی امپورٹڈ نہیں تو سلیکٹڈ ضرور ہے۔ یعنی الیکٹڈ سلیکٹڈ اور امپورٹڈ حکومت کی بحث سے اگر ہمیں اس ملک و قوم کو نکالنا ہے تو پھر بغیر کسی سیاسی دبائو کے ملک میں فوری عام انتخابات کا ہونا ضروری ہے۔ اس وقت جو دنیا بھر میں وطن عزیز اور اس کے دفاعی اداروں کو متنازع بنانے کی مذموم سازش ہورہی ہے اس کے خاتمے کے لیے بھی فوری انتخابات کا ہونا بہت ضروری ہے تاکہ سلیکٹڈ اور امپورٹڈ کی جنگ کا بھی خاتمہ کیا جاسکے۔
اگر موجودہ حکومت اپنے اتحادیوں کے ساتھ الیکشن کی جانب جاتی ہے تو ان ۱۲ سیاسی جماعتوں کے سامنے صرف ایک حریف تحریک انصاف کی شکل میں موجود ہوگا جو شاید ۱۲ جماعتوں کے اتحاد کو شکست نہ دے سکے۔ بالکل اسی طرح اگر خان صاحب کو حقیقی آزادی کی جدوجہد کو کامیاب بنانے کی اُمید ہے تو پھر انہیں کس بات کی جلدی ہے؟ قوم کے سامنے موجودہ نااہل، نالائق حکومت کا چہرہ مزید واضح ہونے دیں تاکہ قوم کو اپنا حقیقی حکمران منتخب کرنے میں آسانی ہو، قوم یہ جان سکے کہ ۷۵ برسوں میں اس قوم کے قیمتی ووٹ کا استعمال کر کے کس طرح کس کس نے ملک بیرون ملک ناجائز اثاثے بنائے اس ملک و قوم کے مستقبل کے ساتھ کس طرح زیادتی کی گئی۔
ہم سمجھتے ہیں کہ اس وقت ملک سنگین معاشی سیاسی بحران کی جانب گامزن ہے غریب متوسطہ طبقہ مہنگائی بے روزگاری سے تنگ ہے جس سے دل برداشتہ ہو کر نوجوان نسل جرائم کی جانب بڑھ رہی بے حیائی کا طوفان بڑھتا چلا جارہا جس کی جانب کسی کی توجہ نہیں ہر ایک اقتدار کی کرسی کی جنگ لڑ رہا ہے اگر موجودہ حکمرانوں طاقتور اداروں معزز عدالتوں کی جانب سے موجودہ صورتحال پر قومی یکجہتی کا راستہ نہ اپنایا گیا تو پھر اس ملک و قوم کا اللہ ہی حافظ ہوگا لہٰذا ہر ایک کو اپنی آئینی حدود میں رہتے ہوئے ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں اپنی انا کے خول سے نکل کر وطن عزیز کی تر قی و خوشحالی کی جانب سوچنا ہوگا۔