عدلیہ اورانتظامیہ اپنی حدود سے تجاوز کرتی ہے توملک میں فکری اضطراب آئے گا، مولانا فضل الرحمان

312
intellectual

کوئٹہ :  جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ اگر عدلیہ اور انتظامیہ اپنی حدود سے تجاوز کرتی ہے تو ملک میں فکری اضطراب آئے گا۔

بلوچستان ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ آئین کا بنیادی ڈھانچے کے 4 ستون ہیں جن میں، اسلام، جمہوریت، پالیمانی طرز حکومت اور وفاقی نظام شامل ہیں۔ اگر کوئی آئین کے دائرہ کار سے تجاوز کرتا ہے اور ایک ادارہ کو طاقت ور اور تمام اداروں کو کمزور سمجھتا ہے، عدلیہ اور انتظامیہ اپنی حدود سے تجاوز کرتی ہے تو ملک میں فکری اضطراب آئے گا۔

عالمی برادری پر تنقید کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ عالمی اداروں اور عالمی معاہدات کے تحت پاکستان جیسے ممالک کو معاشی، اقتصادی اور دفاعی حوالے سے کنٹرول کیا جاتا ہے، اقوام متحدہ، جنرل اسمبلی، سلامتی کونسل، جینوا انسانی حقوق کمیشن جیسے عالمی ادارے ترقی پزیر ممالک کو کنٹرول کرتے ہیں اور پاکستان بھی اسی فہرست میں شامل ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ عالمی ادارے آپ اپنی رائے ہم پر مسلط کرتے ہیں، دفاعی لحاظ سے فوج ہماری ہے تاہم عالمی قوتوں کا دباؤ ہمیشہ رہتا ہے، عالمی اداروں کو اسرائیل اور بھارت کے پاس سیکڑوںایٹم بم ہونے پر کوئی اختلاف نہیں لیکن پاکستان پر مسلسل دباؤ ڈالاجاتا ہے، پاکستان کو اپنے حقوق کے حصول کیلئے اکثر بیرونی طاقتوں کی جانب سے نشانہ بنایا جاتا ہے، یہ عالمی سطح پر غریب پسماندہ اور ترقی پزیر ممالک کو غلام رکھنے کا طریقہ ہے۔

مولانا فضل الرحمن  کا کہنا تھا کہ قومی سطح پر ہماری سوچ کی صلاحیت چھین لی گئی ہے، کہا جاتا ہے کہ کیا فوج مزید غیر جانبدار رہے گی؟ خود ہی اندازہ لگا لیں کہ فوج نے غیر جانبدار رہنے کا فیصلہ فروری میں ہی کرلیا تھا، جب اس سے پہلے آپ جانبدار تھے اور 3 بار مار مارشل لا لگایا تو آپ کو کس نے پوچھا تھا؟ کیا یہ آپ کا اختیار ہے کہ جب آپ چاہیں مارشل لگائیں ، جب چاہیں اپنی مرضی کی حکومت بنائیں اور دھاندلی کریں اور جب چاہیں نیوٹرل بن جائیں؟

جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ کا کہنا تھا کہ 70 سال پہلے ہم طاقتور تھے اور 70 سال بعد ہم کمزور ہوچکے ہیں، ملک میں معاشی استحکام کے ساتھ دفاعی استحکام بھی ضروری ہے، ایسے کبھی حالات پیدا نہیں ہونے چاہئیں کہ سیاستدان فوج کو اپنے ملک میں رکاوٹ تصور کریں ، فوج ایک ادارہ ہے اگر وہ اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں تک محدود رکھتے ہیں تو ہم حمایت کرتے ہیں۔