اخلاقی اقدار اور ہمارے بچے

1045

بچے گلشن حیات کا بہترین تحفہ اور نعمت خداوندی ہیں۔ نعمت بھی ایسی کہ جس سے روح حیات میں تابانی و سرشاری کی سی کیفیت پیدا ہوجائے۔ گلشن حیات کے ان پھولوں سے زندگی میں جینے کی رمق پیدا ہوجاتی ہے۔ ان پھولوں کو جتنا اچھا باغبان میسر آئے گا ان کی شگفتگی تازگی نکھار اور رونق میں اتنا ہی اضافہ ہوگا۔ ایک تحفہ اگر بہت بڑی ہستی کی جانب سے ملا ہو تو اس کی اتنی ہی زیادہ اہمیت اور قدر میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ یہ خالق حقیقی کی جانب سے دیا جانے والا تحفہ ہے اس لیے اس کی قدر کرنا والدین کی اولین ذمے داری ہے۔ نعمت اولاد کے بہت سے حقوق بھی والدین پر عائد ہوتے ہیں۔ جن میں سے بنیادی حقوق یہ کہ اس اولاد کو پیدا کرنے کے لیے ایک اچھی ماں کا انتخاب کیا جائے۔ اولاد کا اچھا نام رکھا جائے۔ اس کو اس کے خالق کی پہچان کروائی جائے۔ اولاد کی نشوونما اور ترقی کر مدارج طے کرنے میں اس اولاد کو حسب استطاعت تمام ذرائع مہیاکیے جائیں۔ اس کی بنیادی ضروریات مکان غذا کپڑے اور تعلیم کا خیال رکھا جائے۔ اس کی پرورش میں بہترین اخلاق کا مظاہرہ کرنا تاکہ بچہ بھی بہترین خلائق سے آراستہ ہو۔ سات سال کی عمر تک اسے بنیادی اسلامی تعلیم نماز اخلاق حسنہ سے روشناس کروانا۔
آج ترقی کے اس دور میں جب کہ دنیا ایک عالمی گاؤں کی صورت اختیار کرچکی ہے۔ افریقا کے جنگلات میں لگنے والی آگ کی خبر ہو یا پاکستان میں آنے والا سیلاب حکومت کی جانب سے چین کے صوبے میں ہونے والے مسلم کش حملے ہوں یا سعودی عرب میں منعقد ہونے والا کوئی تہوار دنیا کے ایک سرے میں ہونے والے کسی بھی واقعے کی خبر پلک چھپکتے میں دنیا کے آخری سرے پر بیٹھے انسان تک پہنچ جاتی ہے۔ اور وہ اسے انٹرنیٹ کے ذریعے اپنی آنکھوں سے مشاہدہ بھی کرلیتا ہے۔ بلاشبہ انسانی ترقی کی یہ مثال ملنا اور ماضی میں ایسا کچھ فرض کرنا بہت مشکل تھا لیکن انسانی ترقی نے یہ تمام کام بہت آسان کردیے ہیں۔ میلوں کا سفر اب منٹوں میں طے ہوجاتا ہے۔ آپ جو کھانا چاہیں باآسانی گھر بیٹھے آرڈر کرسکتے ہیں۔ آپ گھر بیٹھے آن لائن دنیا کے کسی ملک کے استاد سے اپنی تعلیمی سلسلے کو جاری کرسکتے ہیں۔ یہ تمام ترقیاتی کام اور ڈیجیٹل دنیا کی رنگینیاں ایسی دل فریب ہیں کہ آدمی ناچاہتے ہوئے بھی ان تمام رنگوں کے سحر میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ یہ تمام آسائشیں ایک حد تک تو بہت اچھی ہیں لیکن ان کی بدولت ہم اپنی اخلاقی اقدار و روایات کو رفتہ رفتہ فراموش کرتے جاتے ہیں اور ان تمام حالات کا سب سے زیادہ شکار ہماری نئی نسل ہماری اولاد ہے۔
بلاشبہ اخلاقیات اور اقدار زندگی کے ہر پہلو میں اہم ہیں، جب ہمیں دو چیزوں کے درمیان انتخاب کرنا ہے، جس میں اخلاقیات کا تعین ہوتا ہے کہ کیا صحیح ہے، اقدار اس بات کا تعین کرتی ہیں کہ کیا اہم ہے۔ ہم سب یہ بات جانتے ہیں کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے۔ اسلام کے نام پر وجود میں آنے والی مدینہ کے بعد دوسری ریاست ہے۔ اس ملک میں اخلاقی قدروں کی اہمیت کسی عام ملک سے کئی گنا زیادہ ہے۔ لیکن آج ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں چہار سو اخلاقی قدروں کی پامالی ہے۔ ہم خود اس بات کو غلط سمجھتے ہوئے اس پامالی میں کس قدر ملوث ہیں اس کا جائزہ لینا ہم سب کے لیے بہت ضروری ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ ہماری بنیادی اقدار میں انصاف، قرابت داری، حسن سلوک، ایفائے عہد سچ، ناپ تول میں توازن، عدل و احسان، شراکت داری، فساد و جھگڑوں سے اجتناب، جھوٹ سے اجتناب، معاشرتی برائیوں سے اجتناب، غصہ قتل و غارت گری سے اجتناب وغیرہ ہیں۔ یہ چند اقدار کا تذکرہ دراصل اس لیے کیا گیا کہ ٹھیک یہی اقدار اسلام کی بھی ہیں۔ اسلام کہیں بھی انسانی اقدار اور اسلامی اقدار کو الگ نہیں کرتا۔ اسلام کہتا ہے کہ کسی معاشرے میں بقا کا راز یہ ہے اْس کے عمرانی قوانین کی تہہ میں وہی اقدار (صفاتِ الٰہی) ہوں، جن کی بنیاد پر نظامِ کائنات چلتا ہے۔ انسانی معاشرے جب تک ان اقدار پر قائم نہیں ہوتے، جن کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ نظام کائنات چلا رہا ہے، اس وقت تک ایک مستحکم معاشرہ قائم نہیں ہو سکتا۔ قرآن دراصل اس بات کی دعوت دیتا ہے۔ قرآن مجید کہتا ہے کہ ہم کائنات کی اقدار کو سمجھیں اور ان کی بنیاد پر اپنا معاشرہ قائم کریں۔ فرد معاشرے کی اکائی ہے۔ فرد سے خاندان خاندان سے معاشرے وجود میں آتے ہیں۔ ایک فرد کی اچھی تربیت خاندان اور معاشروں کے سدھار کا باعث بن سکتی ہے۔
اولاد کی تربیت میں شروع کے سات سال بہت اہم ہیں۔ لیکن سات سال کے بعد تا عمر والدین کی ذمے داری ہوتی ہے کہ بچوں کو اچھے برے، حلال حرام، محرم نامحرم، بڑے چھوٹے، غریب امیر، سے حسن سلوک کی تربیت و تعلیم دیتے رہیں حق گوئی، عاجزی، غصہ پر قابو، بڑوں چھوٹوں کا ادب، پڑوسیوں کا خیال یہ ایسی اقدار ہیں کہ جن کو آپ کا بچہ ہمیشہ آپ کے کردار سے اخذ کرتا ہے۔ آپ کا اچھا یا برا کردار انجانے میں آپ کے بچے کی کردار سازی بھی کررہا ہوتا ہے۔ اپنے رشتہ داروں سے احسن سلوک کیجیے کبھی غلطی سے بھی بچے کے سامنے ان کے ددھیال، ننھیالیا کسی گھر والوں کی برائی نا کیجیے۔ کیونکہ اس طرح جب بچہ نفرت سیکھ جائے گا تو وہ اس نفرت کا استعمال پھر ہر ایک کے لیے کرے گا۔ یہی بچہ کا کردار آپ کے مرنے کے بعد آپ کا صدقہ جاریہ بھی بن سکتا ہے اور خدانخواستہ عذاب جاری بھی بن سکتا ہے۔
مذہبِ اسلام میں اولاد کی پرورش میں اہم بات یہ کہ والدین بچے کی صرف دنیا ہی نہیں، بلکہ آخرت سنوارنے کی فکر بھی پہلے دن سے کرتے رہیں۔ آپ نے بہت اچھے اسکول میں تعلیم دی آپ نے اس کو بہترین کھلایا لیکن اسے تمیز اور ادب ولحاظ نہیں سکھایا تو آپ کا بچہ ابھی بنیادی اقدار میں بہت پیچھے ہے۔ والدین کی جانب سے اولاد کے اِن حقوق میں کوتاہی کے سبب وہی بچے ان کے لیے وبالِ جان بن جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ والدین بڑھاپے میں اولاد کی نافرمانی اور اْن کی طرف سے پہنچنے والی اذیتوں کا رونا روتے ہیں۔ اولاد کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی وغفلت کا نتیجہ والدین بڑھاپے میں برداشت کرتے ہیں۔ والدین اپنی اولاد کو اْن کے حقوق دیں۔ اپنے کردارکو ویسا ہی کرلیں جیسا آپ اولاد سے چاہتے ہیں۔ ان شاء اللہ اولاد کی طرف سے آپ کو ان کے حقوق ضرور ملیں گے، اور یہ اولاد دنیا وآخرت میں اپنے والدین کے لیے صدقہ جاریہ بن جائے گی۔
یہ فیضان نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی