!حق تلفی

385

ہمارے معاشرتی نظام میں خواتین کو بے شمار مسائل کا سامنا ہے، ان مسائل کو اگر لکھنے بیٹھا جائے تو اوراق کا ڈھیر لگ جا ئے، سنانے لگیں تو سماعتیں بوجھل ہو جائیں، محسوس کریں تو درد اور اذیت کا احساس غالب آجائے، غرضیکہ عورتوں کو درپیش مصائب کا لامتناہی سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا، خواتین کو وراثتی جائداد میں حق نہ ملنا بھی پاکستان کے اہم ترین مسئلوں میں شمار کیا جاتا ہے، معاملات کی سنگینی کا اندازہ ہمیں اپنے اردگرد موجودمتاثرہ خواتین کی افسوسناک داستانوں سے بخوبی ہو سکتا ہے، طاہرہ سلطانہ ہی کو دیکھ لیجیے، لاہو ر میں رہتی ہیں، عمر رسیدہ ہیں، گزرے وقت کو یاد کرکے اکثر آبدیدہ ہو جاتی ہیں، خاوند آرمی آفیسر تھے، سال 1964 میں اللہ کو پیارے ہوگئے، طاہرہ صاحبہ گھریلو خاتون تھیں، شوہر چونکہ انُ کا واحد سہارا تھے اس لیے اُن کے انتقال کے بعد وہ زندگی کی اذیتوں، مصیبتوں اور پریشانیوں کا سامنا کرنے کے لیے قطعی تیار نہیں تھی، ہمہ وقت بس یہی خیال ستائے رکھتا کہ اب ہوگا کیا، کہاں جائیں گے، کیسے گزارا ہوگا، رہیں گے کہاں، تین چھوٹے بچوں کے ساتھ زندگی کا طویل سفر کیسے کٹے گا، ان کی پڑھائی لکھائی کا عمل کیسے جاری رہے گا، یہ تمام باتیں اُنہیں سخت پریشان اور ذہنی ہیجان میں مبتلا کیے رکھتی تھیں۔ بہر حال، وقت گزرا، حالات نے ذرا سی کروٹ بدلی، اور ہوا کچھ یوں کہ وہ اپنے والدین کے پاس واپس چلی گئیں، اپنوں کا ساتھ ملا تو جینے کی، آگے بڑھنے کی کچھ امید بندھی، انُ کے مرحوم شوہر کی لاہور میں جوائنٹ پراپرٹی تھی، جائداد میں طاہرہ صاحبہ کا بھی حصہ بنتا تھا، انہوں نے مانگا، لیکن نہیں دیا گیا، چناچہ 1970 میں لاہور کے سول کورٹ میں مرحوم شوہر کی وراثت کا مقدمہ دائر کر دیا۔ اُن کا کہنا ہے کہ کورٹ میں شاذ و نادر ہی عورتیں دیکھی جاتی ہوں لیکن میں کئی برس وہاں جاتی رہی، ہمارے قانونی نظام کا شعور رکھنے والے یہ با آسانی سمجھ سکتے ہیں کہ کس قدر تگ و دو، مشکلات اور پیچیدگیوں کا سامنا میں نے کیا ہو گا۔ وقت گزرتا رہا اور میں ایک اعصاب شکن قانونی جنگ لڑتی ر ہی۔
62 سالہ ندیم رشید طاہرہ سلطانہ کے اکلوتے بیٹے ہیں، بتاتے ہیں کہ جب چھوٹے تھے تو کیس سے متعلقہ کاغذی کاروائیوں میں کافی ٹائم صرف ہو جاتا تھا، جس کی وجہ سے اُن کی تعلیم اور دیگر معاملات ِ زندگی شدید متاثر ہوئے تھے، وہ اپنی والدہ کو سپورٹ کر تو رہے تھے لیکن خود کافی حد تک ڈسٹرب رہتے تھے، اُن کی دو بہنوں میں سے ایک کا انتقال ہو چکا ہے، ندیم اپنی بہن کی موت کا ذمے دار نامصائب حالات کو ٹھیراتے ہیں۔
طاہرہ سلطانہ کے مطابق اُن کا کیس سیشن اور ہائی کورٹ سے ہوتا ہوا عدالت عظمیٰ پہنچا اور 2002میں یہ فیصلہ آیا (جسے مختصراً یوں ہی لکھا جاسکتا ہے) کہ چونکہ پراپرٹی بہت بڑی ہے، اسے ایک فرد نہیں خرید سکتا اور نہ ہی پارٹیشن ہو سکتی ہے اس لیے اس کی نیلامی کی جائے، اور Auction کے تحت خریدنے والے کو اس کا فوری قبضہ دیا جائے، طاہرہ صاحبہ اس فیصلے سے بہت خوش تھیں، لیکن دوسری جانب انہیں قطعی یہ احساس نہیں تھا کہ جائداد کی نیلامی (باوجوہ) نہیں ہو سکے گی۔
طاہرہ صاحبہ کی عمر 90 سال ہو چکی ہیں، انہوں نے اب عدالتوں میں جانا چھوڑ دیا ہے، جس دن تارخ ہوتی ہے وہ فون پر رپورٹ لے لیتی ہیں، لیکن عمر رسیدہ ہونا اُن کے جذبوں کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنا ہے، گزرتے وقت نے اُن کی امیدوں کو توڑا نہیں بلکہ جلاِ بخشی ہے، اُن کی عشروں پر مبنی جدوجہد نہ صرف خواتین کو حوصلہ، عزم اور ہمت فراہم کرنے کا سبب بن رہی ہے بلکہ ہمارے قانونی نظام میں موجو چیلنجز پر بھی توجہ دلانے میںکامیاب ہے۔
ہمارے ملک میں نہ جانے کتنی ایسی خواتین ہیں جنہیں وراثتی جائداد میں اُن کا حصہ نہیں مل رہا، وجوہ چاہے جو بھی ہوں ضرورت اس امر کی ہے کہ عورتوں سے متعلقہ نہ صرف جائداد بلکہ تمام تر سماجی اور قانونی مسائل کے حل کے لیے موثر، ٹھوس اور بر وقت اقدامات عمل میں لائے جائیں۔ مصائب کی چکی میں پستے افراد کی معاونت کے حوالے سے بات کی جائے تو انفرادی، اجتماعی، شخصی اور مختلف آرگنائزیشنز کی جانب سے فراہم کردہ مدد اس سلسلے میں مفید ثابت ہوسکتی ہے۔ طاہرہ سلطانہ کے کیس کو عوام الناس کے سامنے لانے میں لیگل ایڈ سو سائٹی کا کردار اہم ہے، مفت قانونی مشاورت اور معاونت کی فراہمی کے حوالے سے جانے پہچانے جانے والے اس ادارے کے جہاں اور دوسرے پروگرام پاکستان میں کام کر رہے ہیں وہیں ویمن رائٹس ٹو لیگل پراپرٹی کے نام سے جاری پروجیکٹ خواتین کو جائداد میں اُن کے حقوق کے حوالے سے مکمل آگاہی فراہم کر رہا ہے، سندھ میں لاڑکانہ، شہید بینظیر آباد اور کراچی میں کام کرتے اس پروجیکٹ کے ذریعے ہزاروں عورتیں اپنے حقوق سے پوری طرح آگاہی حاصل کرچکی ہیں، عدالتوں میں دائر مقدمات کی صورت میں ادارہ انہیں مکمل سپورٹ بھی فراہم کر رہا ہے۔