کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ویسا نہ ہو جائے

592

ایک ’’تجزیاتی‘‘ پروگرام جو روز کی بنیاد پر جی این این سے آٹھ بجے شب آتا ہے میں اس کو محض اس لیے دیکھتا ہوں کہ اس میں کسی قسم کی چیخم دھاڑ نہیں ہوتی۔ شور شرابہ نہ ہونے کی وجہ صرف یہ ہے کہ اس پروگرام میں جواب دینے والا ہوتا ہی کوئی نہیں۔ ایک بندہ ہوتا ہے اور ایک اللہ کی بندی اور یہ دونوں ہی کہنے والے ہوتے ہیں سوال جواب کرنے والے نہیں۔ ایک دلچسپ بات اس ’’شو‘‘ کی یہ بھی ہے کہ اگر اس میں مسلسل دہرائی جانے والی باتیں نکال دی جائیں تو وہ پورا شو آٹھ یا دس سطروں میں مکمل ہو جائے۔
اب سے دس بارہ ماہ قبل تو صاحبانِ شو کسی ایک ہی کھونٹی سے بندھے نظر آتے تھے لیکن اب عالم یہ ہے کہ اب صاحبانِ شو شش و پنج کا شکار ہو کر رہ گئے ہیں۔ ان کی سمجھ میں اب یہ بات آکر نہیں دے رہی کہ پیندا نکل جانے کے بعد لوٹے کو ٹھیرایا جائے تو کس رخ پر، لہٰذا گزشتہ کئی ہفتوں سے وہ ایک مثلث کے اندر ڈولتے نظر آ رہے ہیں۔ قمر جاوید باجوہ کے جانے سے پہلے پہلے ان کو مارشل لا کا ’’سایہ‘‘ لہراتا نظر آ رہا تھا۔ صاحب کی ایکسٹینشن کے امکانات ان پر زیادہ روشن تھے اور نئے آرمی چیف کے تقرر کے واضح اعلان کے نہ ہونے کی وجہ سے کئی وسوسے ان کے دل و دماغ میں جنم لے رہے تھے لیکن جونہی آرمی چیف کے تقرر کا واضح فیصلہ و اعلان سامنے آیا تو اس تقرر سے پہلے پہلے جتنے بھی پروگرام وہ ہاں اور ناں کے درمیان کے کرتے رہے تھے ان سب کو کسی نہ کسی ٹھکانے لگانے کی فکر میں نظر آ رہے ہیں۔
30 نومبر 2022 کو وہ پروگرام کے اختتام کے قریب قریب تک پنجاب اسمبلی کے گرد ہی گھومتے نظر آئے۔ مرکز ِ نگاہ پرویز الٰہی رہے اور دبے دبے الفاظ میں توڑوں کے نہ توڑوں، کا ورد بھی کرتے نظر آئے۔ اپنے کل کے شو کا عنوان بھی اسی نسبت سے انہوں نے ’’توڑوں کہ نہ توڑوں‘‘ ہی رکھا۔ اس سلسلے کی جو بھی باتیں انہوں نے کیں ان میں بہت وزن تھا۔ پنجاب اسمبلی توڑنے کا معاملہ پی ٹی آئی یا عمران خان کے لیے شاید اتنا سہل نہ ہو جتنا انہیں نظر آ رہا تھا۔ بے شک پنجاب اسمبلی میں جس پارٹی کے لیڈر کو انہوں نے پنجاب کا پورا اختیار دے رکھا ہے وہ پارٹی تعداد کے لحاظ سے آٹے میں نمک ہی ہو لیکن اس وقت وہ پنجاب کے پورے آٹے کے ذخیرے پر سانپ کی طرح کنڈلی مارے بیٹھی ہوئی ہے۔ پرویز الٰہی بہت پرانے سیاستدان ہیں بلکہ سیاست کا ’’گرگِ باراں دیدہ‘‘ ہیں۔ ظاہر ہے کہ وہ نہ صرف اس کڑے وقت کا پورا پورا فائدہ اٹھائیں گے بلکہ وہ موجودہ حالات کی پوری پوری قیمت وصول کیے بغیر شاید ہی کوئی بہت بڑا فیصلہ عمران خان کو کرنے دیں۔ پھر یہی نہیں بلکہ وہ یقینا اس بات کا جائزہ بھی ضرور لے رہے ہوں گے کہ جلد یا مقررہ مدت کے بعد ہونے والے الیکشن کے بعد کے نتائج کیا ہوں گے اس لیے اگر وہ عمران خان کے کہنے پر کوئی بڑا قدم اٹھانے کے لیے تیار بھی ہو جائیں تو کوئی بہت بڑا معاہدہ ہی لے کر عمران خان کے سامنے حاضر ہوں گے۔
ان تمام حالات کا تجزیہ اور موجودہ اور آنے والے وقت کا جائزہ بلا شبہ صاحب ِ شو نے بہت عمدہ طریقے سے کیا ہے۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ وہ مسلسل ایک ’’مثلث‘‘ کے گرد گھوم رہے ہیں، اس لیے کہہ رہا ہوں کہ وہ جمہوری پارٹیوں کے گرد چکر لگانے کے ساتھ ساتھ طاقت کے مرکز کو کبھی نظر انداز نہیں کیا کرتے چنانچہ ان کے تجزیے کے مطابق موجودہ طاقتور ادارہ نہ صرف اپنے آپ کو سیاست سے بالکل علٰیحدہ کر چکا ہے بلکہ اب وہ تمام آفیسر جو اپ گریڈ ہو کر اوپر آئے ہیں وہ سب کے سب کبھی کسی پارٹی کے لیڈروں کے ساتھ نتھی نہیں رہے لہٰذا وہ بہت وثوق کے ساتھ یہ بات ایک مرتبہ پھر دہرا رہے ہیں کہ اس مرتبہ بقول ان کے آپریشن ’’دھبڑ دھس‘‘ بلا امتیاز ہوگا اور یہ ملک کی دولت لوٹنے والوں کے خلاف ہوگا۔ یہ ان کا تجزیہ ہے وہ جانیں ہم تو صرف دعا کے لیے ہی ہاتھ اٹھا کر آمین کہہ سکتے ہیں۔
پروگرام کے آغاز سے لیکر تقریباً اختتام تک وہ پنجاب اسمبلی اور پرویز الٰہی کے گرد ہی گھومتے نظر آئے لیکن جو بات میری چھوٹی سی عقل میں اب تک نہیں آ رہی وہ یہ ہے کہ پنجاب اسمبلی میں تو بہر حال عمران خان کے لیے کافی الجھنیں ہیں اس لیے کہ ان کے خلاف جو سیاسی جتھہ پی ڈی ایم کی صورت میں ہے وہ کسی وقت بھی پرویز الٰہی کو وزیر اعلیٰ بنانے کی پیشکش کرکے پنجاب کی بساط الٹ کر رکھ سکتا ہے لیکن جو بات سمجھ سے بالا تر ہے وہ یہ ہے کہ آخر کے پی کے میں عمران خان کو کیا مسائل در پیش ہیں۔ وہاں تو سب کچھ ان ہی کا ہے اور وہاں کسی کے ساتھ کوئی ایسی رشتے داری باندھ کر نہیں رکھی ہوئی کہ ارکان اسمبلی کو طلاقوں کا خطرہ در پیش ہو۔
اسمبلیوں سے باہر آنے کا فیصلہ جب اٹل ہے تو بسم اللہ کہیں سے بھی کی جا سکتی ہے۔ ایسا کرنے کے سلسلے میں عمران خان کا تردد فہم سے بالا تر ہی نظر آ رہا ہے۔ اگر دیانتداری کے ساتھ بات کی جائے تو کہیں کی اینٹ اور کہیں کا روڑا جمع کر کے جب بھان متی کا کنبہ جوڑا جاتا ہے تو پھر سانجھے کی ہانڈی بیچ چوراہے پر ہی پھوٹتی ہے اور یہی کچھ آنے ولے وقتوں میں دکھائی دے رہا ہے۔ یہی وہ سارے اسباب ہیں جن کی وجہ سے عمران خان اسمبلیاں توڑنے یا استعفے دے کر اسمبلیوں سے باہر آنے میں پس و پیش کا شکار نظر آ رہے ہیں۔ اس وقت ان کا بقول شاعر کچھ ایسا حال بنا ہوا ہے کہ
ارادے باندھتا ہوں سوچتا ہوں توڑ دیتا ہوں
کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ویسا نہ ہو جائے