پاکستان بچانا ہے تو قانون کی حکمرانی قائم کرنا ہو گی،سراج الحق

656

لاہور: امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا ہے کہ ملک میں مظلوم کی نمائندگی ظالم، کسان کی جاگیردار اور مزدور کی ظالم سرمایہ دار کرتا ہے، بہتری تب آئے گی جب عام آدمی کے لیے پارلیمنٹ کے دروازے کھلیں گے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان بچانا ہے تو قانون کی حکمرانی قائم کرنا ہوگی۔

لاہور ہائی کورٹ میں استحکام پاکستان وکلا کنونشن سے بطور مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم، پی ٹی آئی اور پیپلزپارٹی کی تکون نے اسٹیٹس کو قائم رکھا ہوا ہے۔ افسوس ہوتا ہے جو سیاسی جماعتیں اپنے اندر الیکشن نہیں کرواتیں وہ قوم کو جمہوریت کا درس دیتی ہیں۔ الیکشن کمیشن ان پارٹیوں کو قومی انتخابات میں حصہ لینے کے لیے نااہل قرار دے جو کمیشن کی نگرانی میں باقاعدگی سے اندرونی الیکشن نہ کروائیں۔

امیر جماعت نے کہا کہ ایک وکیل نے جمہوری جدوجہد کے ذریعے پاکستان بنایا، ہمارا یقین ہے کہ استحکام پاکستان کے لیے حقیقی جمہوریت لانا ہو گی۔ عدلیہ، اسٹیبلشمنٹ اور الیکشن کمیشن کو غیر جانبدار رہنا ہو گا، پاکستان بچانا ہے تو قانون کی حکمرانی قائم کرنا ہو گی۔

انہوں نے واضح کیا کہ اتحادی حکومت کے بعض رہنماؤں کی جانب سے قومی انتخابات میں تاخیر کی باتیں قوم کو ہرگز قبول نہیں۔ عوام کو صاف شفاف الیکشن کے ذریعے اپنے نمائندے منتخب کرنے کا حق دیا جائے۔ انہوں نے اس موقع پر ”اسٹیٹس کو مسٹ گو” کے نعرے بھی لگوائے۔ اسلامک لائرز موومنٹ کے زیر اہتمام کنونشن سے معروف قانون دان حامد خان، سینیٹر رضا ربانی، جسٹس (ر) شوکت عزیز صدیقی، صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن عابد شاہد زبیری، صدر اسلامک لائرز موومنٹ پاکستان توفیق آصف و دیگر نے بھی خطاب کیا۔

کنونشن میں نوجوان وکلا کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔امیر جماعت نے شرکا کو بتایا کہ ملک میں موجود سیاسی بحران کے خاتمے کے لیے جماعت اسلامی نے تین بنیادی نکات یعنی سویلین بالادستی، الیکشن اصلاحات اور اسٹیبلشمنٹ کی سیاست سے مکمل غیرجانبداری پر سیاسی جماعتوں کے مابین نئے سماجی معاہدے کی تجویز دی ہے اور اس عمل کو آگے بڑھانے کے لیے 29نومبر کو گول میز رائونڈ ٹیبل ٹاکس کا اہتمام بھی کیا گیا تھا جس میں تمام جماعتوں کے سنجیدہ رہنمائوں کو مدعو کیا گیا، مگر اسی دوران ”چھڑی” کا معاملہ آ گیا۔

سراج الحق نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ آرمی چیف کی تعیناتی کے لیے سیاسی عمل دخل مکمل طور پر ختم ہو جائے، وزیراعظم کے صوابدیدی اختیار کے بجائے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی طرز پر افواج پاکستان کے سربراہ کی تعیناتی میرٹ اور سینیارٹی کے اصولوں پر ہو اور اس عمل کے لیے پارلیمنٹ کے ذریعے قانون سازی کی جائے۔

انہوں نے کہا کہ معاشی بحران کے خاتمے کے لیے سودی نظام سے چھٹکارا حاصل کرنا ہو گا۔ گزشتہ دنوں کراچی میں وزیرخزانہ اسحاق ڈار اور جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کی موجودگی میں انسداد سود پر ایک نشست کے دوران انہوں نے حکومتی نمائندگان کو یہ تجویز دی کہ سرکاری محکمے اور دیگر حکومتی کاروبار کے لیے اسلامی بنکوں کے ذریعے لین دین کیا جائے۔ ربا ایمنسٹی اسکیم متعارف کروائی جائے، اسلامک بانڈز کا اجرا ہواور اسی طرح وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کی روشی میں اقدامات کیے جائیں، ہمیں حکومتی فیصلے کا انتظار ہے۔

امیر جماعت نے کہا کہ 75برسوں سے جاری ایکسرسائز سے جمہوریت مضبوط ہوئی نہ معاشی استحکام آیا، ہمیں ملک کو قرآن و سنت کا نظام دینا ہو گا۔ مسئلہ یہ ہے کہ اس وقت قومی سیاست، معیشت، عدالت اور تعلیم سے دین نکال دیا گیا ہے، روزانہ پانچ ہزار ارب کی کرپشن ہوتی ہے، حکومت قرضوں پر چل رہی ہے۔ یقین سے کہتا ہوں کہ پاکستان میں تعلیم اور علاج مفت ہو گا، بے روزگاری ختم ہو جائے گی اور عوام خوشحال ہوں گے، اگر کرپشن اور غیر ترقیاتی اخراجات ختم اور گورننس بہتر ہو جائے، جاگیرداروں، وڈیروںاور ظالم سرمایہ داروں کی اقتدار کے ایوانوں میں موجودگی تک ایسا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔

سراج الحق کا کہنا تھا کہ اس وقت مرکز اور بلوچستان میں پی ڈی ایم، سندھ میں پیپلزپارٹی اور پنجاب اور خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے، یہ لوگ دعوے کرتے ہیں اور قوم سے جھوٹ بولتے ہیں، ان کو کام کرنے سے کس نے روکا ہے، یہ لوگ اپنی کارکردگی بتائیں۔ انھوں نے کہا کہ خاندانوں کی بادشاہت کی بجائے قرآن و سنت کی حکمرانی قائم ہو گی تو ملک آگے بڑھے گا۔