بیعت وارشاد (حصہ سوم)

378

حدیث مبارک ہے: ’’ قیامت کے دن مقتولِ مظلوم اپنے قاتل کو پیشانی سے پکڑ کر اللہ کی عدالت میں پیش کرے گا اور عرض کرے گا: اے رب کریم! اس سے پوچھیے کہ اس نے مجھے (ظلماً) کیوں قتل کیا، قاتل عرض کرے گا: (اے رب!) فلاں بادشاہ یا حکمراں کے دور میں، مَیں نے یہ قتل کیا، (یعنی وہ دور ہی ظلم کا تھا)‘‘، (نسائی) اور انسانیت اُسی نظام عدل کے لیے ترس رہی ہے جس کا نمونۂ کامل سید المرسلین ؐ نے قائم فرمایا اور پھر خلفائے راشدین نے اس ’’منہاج ِ نبوت‘‘ پر نظام خلافت اور نظام عدل کو قائم کر کے دکھایا۔ اسی عدل کی برکات تھیں کہ اس دور کی دونوں سپر پاورز، یعنی قیصر وکسریٰ، عظمت اسلام کے آگے سرنگوں ہوگئیں۔
جہاد ہی میں بقاء ہے: رسول اللہؐ کا فرمان ہے: ’’جہاد قیامت تک جاری رہے گا‘‘ اور سیدنا ابوبکر صدیق نے فرمایا: ’’جو قوم جہاد کو ترک کردیتی ہے، اللہ اس پر ذلّت و رسوائی مسلط فرما دیتاہے‘‘۔ لہٰذا اہل ایمان کی سربلندی اور عزت وسرفرازی کا راز جہاد میں مضمر ہے۔
اشاعتِ فاحشہ نزول بلا کا سبب ہے: سیدنا ابوبکر نے اپنے خطبہ میں فرمایا: ’’جب کسی قوم میں بے حیائی و بدکاری فروغ پاتی ہے تو اس پر ارضی وسماوی مصیبتیں نازل ہوتی ہیں‘‘۔ رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’جب کسی قوم میں اللہ کی نافرمانی کا دور دورہ ہو، معاصی عام ہوں اور وہ طاقت کے باوجو د ان کا سدِباب نہ کریں تو اللہ ان پر عمومی عذاب نازل فرماتاہے‘‘۔
مسئلۂ تکفیر: آج کل بہت سے لوگ اس مسئلے کو پوری قوت کے ساتھ اجاگر کرتے ہیں کہ ریاست کے علاوہ کسی شخص کو اس امر کی اجازت نہیں ہونی چاہیے کہ وہ کفر کا فتویٰ جاری کرے یا کسی فعل کو کفر قرار دے اور اس کے مرتکب کو کافر کہے۔ بلاشبہ کسی کو کافر کہنا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ ہمارے فقہائے کرام نے لکھا ہے: ’’خلاصہ‘‘ وغیرہ میں ہے: جب ایک کلام میں کئی پہلو کفر کا اَحتمال رکھتے ہوں اور ایک احتمال کفر سے مانع ہو، تو مفتی پر لازم ہے کہ اس مسلمان کے ساتھ حسنِ ظنّ رکھتے ہوئے، اُس ایک احتمال کو ترجیح دے اور تکفیر سے احتراز کرے‘‘۔ (عالمگیری) لیکن اگر کوئی شخص کفریہ معنیٰ کو سمجھ کر اس پر اصرار کرے، توپھر اس پر کفرکا حکم لگایا جائے گا۔
امارت وخلافت کی بیعت کے بعد جو بیعت رائج ہے، وہ رُشد وہدایت کے لیے ہے، تزکیۂ نفس اور تطہیر ِ باطن کے لیے ہے، امتثالِ اوامر اور اجتنابِ نواہی کے لیے ہے، روحانی جِلا اور ارتقا کے لیے ہے اور یہ ہر ایرے غیرے کی نہیں ہوسکتی، ایسے مقتدیٰ کے لیے متشرّع، متدیّن یعنی شریعت پر عامل ہونا اور عالِم ہونا ضروری ہے، اس کا تعلق اہلیت ومعیار سے ہے، کسی کا صاحبزادہ ہونا، شہزادہ ہونا، میرزادہ اور پیر زادہ ہونا کافی نہیں ہے تاوقتیکہ وہ ظاہراً وباطناً شریعت پر عامل نہ ہو اور اپنے اسلاف کے طریق پر کاربند نہ ہو، علامہ اقبال نے کہا ہے:
یہی شیخِ حرم ہے جو چُرا کر بیچ کھاتا ہے
گلیمِ بُوذر و دَلقِ اَویس و چادرِ زہرا!
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے بہت سے روحانی مراکز کے سجادگان اور ورثاء آج بھی اپنے بزرگوں کے طریقے پر قائم ہیں، صاحبانِ علم بھی ہیں، شریعت وطریقت کے وارث بھی ہیں، اُن کے ہاں تعلیم وتربیت کا نظام بھی ہے اور دینی مدارس وجامعات کا نیٹ ورک بھی ہے، وہ ہماری آنکھ کا تارا اور ہمارے سر کا تاج ہیں اور ہمارے دل میں اُن کا بے حد احترام ہے۔
شریعت، طریقت، مذہب اور مسلک ان میں اصطلاحی اور اعتباری فرق ضرور ہے، لیکن ان میں قدرِ مشترک یہ ہے کہ وہ راہِ حق وصواب جو وصول الی اللہ کا ذریعہ ہو، اتباعِ سنّت کا مظہر ہو، سنّت سے انحراف نہ ہو، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’اور اپنے اوپر حق واضح ہونے کے بعد جو شخص رسول کی مخالفت کرے گا اور مومنین ِ (صادقین ومخلَصین) کی راہ سے ہٹ کر کوئی اور راستہ اختیار کرے گا، اُسے ہم اُسی کے حال پر چھوڑ دیں گے اور (قیامت کے دن) اُسے جہنم میں جھونک دیںگے اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے‘‘۔ (النساء: 115)
احادیثِ مبارکہ میں ہے: ’’سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص بیان کرتے ہیں: نبیؐ نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا تاوقتیکہ اُس کی خواہشات میری لائی ہوئی شریعت کے تابع نہ ہوجائیں‘‘، (شرح السنہ للبغوی) ’’سیدنا ابوہریرہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہؐ نے فرمایا: میری اور تمہاری مثال اُس شخص کی سی ہے جس نے آگ جلائی، پس جب اُس کا اردگرد روشن ہوگیا اور پروانے اور یہ کیڑے مکوڑے اُس میں گرنے لگے اور وہ انہیں روکے جارہا تھا، لیکن یہ اس پر غالب آگئے اور آگ میں داخل ہوگئے، پس تم بھی آگ میں گھسے جارہے ہو اور میں تمہاری کمر سے پکڑ کر تمہیں روکے جارہا ہوں‘‘، (مشکوٰۃ المصابیح) ایک مرتبہ آپ نے صحابۂ کرام کو نماز پڑھائی، پھر آپ اُن کی طرف متوجہ ہوئے اور ایسا پراثر وعظ فرمایا کہ صحابہ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور اُن کے دل دہل گئے، انہیں لگا کہ آپ آخری وصایا بیان فرمارہے ہیں، آگے چل کر آپؐ نے فرمایا: ’’میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنّت کو لازم پکڑو، اس سے مضبوطی کے ساتھ وابستہ ہوجائو، اسے ڈاڑھوں سے پکڑ لو اور دینی امور میں نئی باتیں وضع کرنے سے بچو (جو سنت کے مخالف ہوں یا جن سے سنت کا ترک لازم آئے)، پس دین میں نئی بات (جو ترکِ سنّت کا موجب ہو) بدعت ہے اور ایسی ہر بدعت گمراہی ہے‘‘۔ (مشکوٰۃ المصابیح)
آج کل آوارہ منش لوگوںنے طریقت کا لبادہ اوڑھ لیا ہے، کہیں مرد وزن کے مخلوط اجتماعات ہورہے ہیں، کہیں نوجوان لڑکے لڑکیوں کے دھمال ہورہے ہیں، شریعت کی پاسداری کا کوئی اہتمام نہیں ہے، نورانیت وروحانیت کا ماحول نہیں ہے، بلکہ غیر متشرّع اور غیر متدیّن بے عمل اور بدعمل پیر بن کر بیٹھے ہیں اور کہتے ہیں: علماء کو طریقت کی ہوا تک نہیں لگی، وہ ظاہر بین ہوتے ہیں، ایسے لوگوں کے بارے میں احمد رضا قادری نے لکھا:
’’شریعت و طریقت ایک دوسرے سے جدا نہیں ہیں، شریعت کے اتباع کے بغیر خدا تک وصول مُحال، شریعت جسم و جاں، روح وقلب، جملہ علومِ الٰہیہ اور غیر متناہی معارف کے تمام احکام کو جامع ہے، جن میں سے ایک حصے کا نام طریقت و معرفت ہے۔ لہٰذا باجماعِ قطعی جملہ اولیائے کرام کے تمام فرمودات کو شریعتِ مُطہَّرہ پر پیش کرنا فرض ہے۔ اگر شریعت کے مطابق ہوں، تو حق و قبول ہیں، ورنہ ردّ کیے جانے کے قابل ہیں اور نامقبول ہیں۔ پس یقینا قطعاً شریعت ہی اصل کار ہے، شریعت ہی مَناط ومَدار ہے، شریعت ہی حق وباطل کو پرکھنے کی کسوٹی اور معیار ہے۔ شریعت راہ کو کہتے ہیں اور شریعت محمدیہ رسول اللہؐ کا مقرر کیا ہوا طریقِ زندگی ہے اور یہ انسانی زندگی کے تمام شعبوں کو محیط ہے۔ یہی وہ راہ ہے کہ پانچوں وقت، ہر نمازکی ہر رکعت میں اس کا مانگنا اور اس پر صبر و استقامت کی دُعا کرنا ہر مسلمان پر واجب فرمایا ہے: اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم (ہم کو سیدھا راستہ چلا)، ہم کو محمدؐ کی راہ پر چلا، ان کی شریعت پر ثابت قدم رکھ۔
اسی طرح طریقت بھی راہ ہی کا نام ہے، اب اگر وہ شریعت سے جدا ہو تو وصول الی اللہ کا ذریعہ نہیں بنے گی، بلکہ شیطان تک پہنچائے گی، جنت تک نہ لے جائے گی، بلکہ جہنم میں لے جائے گی کہ شریعت کے سوا سب راہوں کو قرآن عظیم باطل و مردود فرماچکا۔ لازم و ضروری ہوا کہ طریقت شریعت ہی کا روشن حصہ ہے، اِس کی شریعت سے جدائی مُحال ہے، جو اسے شریعت سے جدا مانتا ہے،وہ اسے راہِ خدا سے ہٹاکر ابلیس کی راہ کو اختیار کرتا ہے، مگر حاشاوکلا! طریقت راہِ ابلیس نہیں، قطعاً راہِ خدا ہے، خواہ بندہ کیسی ہی ریاضتوں، مجاہَدوں اور چِلّہ کشیوں میں وقت گزارے، ہرگز اس رُتبہ تک نہیں پہنچے گا کہ احکامِ شریعت اُس سے ساقط ہوجائیں اور اسے بے لگام گھوڑے اور اونٹ کی طرح چھوڑ دیا جائے‘‘۔ (مَقَالُ الْعُرَفَاء بِاِعْزَازِ شَرَعْ وَعُلَمَاء، بحوالہ فتاویٰ رضویہ)
کسی پیر کی بیعت ضروریاتِ دین میں سے ہے، نہ ضروریاتِ مسلکِ اہلسنّت وجماعت میں سے ہے، امام احمد رضا قادری سے سوال ہوا: ’’کیا کسی پیر کی بیعت لازمی ہے‘‘، آپ نے جواب میں فرمایا: ’’مرشد کی دو قسمیں ہیں: ایک مرشد عام، دوسرا مرشد خاص، مرشد عام کلام اللہ، کلام رسول، کلامِ ائمۂ شریعت وطریقت اور کلام علمائے دین ہے۔ عوام کا رہنماکلامِ علماء، علماء کا رہنما کلامِ ائمۂ شریعت وطریقت، ائمہ کا مرشد کلامِ رسول، اور رسول اللہؐ کا ہادی کلام اللہ۔ فلاحِ ظاہر ہو یا فلاحِ باطن، وہ اس مرشد عام کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتی اور جو اس مرشد عام کو نہ مانے، وہ کافر یا گمراہ ہے اور اس کی عبادت ضائع اور مردود ہے۔ مرشد خاص یہ ہے کہ مسلمان کسی عالم سنّی صحیح العقیدہ، صحیح الاعمال جامع شرائط کی بیعت کر لے‘‘، آپ نے مُرشدِ حق کی چار شرائط بیان فرمائی ہیں:
(۱) مسلمان ہو، صحیح العقیدہ اہلسنّت وجماعت ہو، کسی بدعقیدگی میں ملوّث نہ ہو، (۲) عقائد کے دلائل اور احکامِ شرعیہ کا عالِم ہو، حتیٰ کہ ہر پیش آمدہ مسئلے کا حل بیان کرسکتا ہو، (۳) علم کے تقاضوں یعنی فرائض، واجبات، سنن اور مستحبات پر دائمی عمل کرتا ہو اور تمام محرّمات اور مکروہات سے بچتا ہو، (۴) رسول اللہؐ تک اس کی نسبت متصل ہو، یعنی اس کے مشایخ کا سلسلہ رسول اللہؐ تک پہنچتا ہو‘‘۔ (فتاویٰ افریقیہ)
یہ سطور ہم نے اس لیے لکھی ہیں کہ آج کل بیعت وارشاد یا پیری مریدی ایک رسم سی بن گئی ہے، بلکہ کاروبار بن گیا ہے، شریعت وطریقت کا کوئی معیار دور دور تک نظر نہیں آتا، بعض نے اسے دنیاوی مال ومتاع کی طرح مالِ وراثت سمجھ رکھا ہے اور کسی علمیت، قابلیت و اہلیت اور معیارِ تقویٰ کے بغیر پیر طریقت بن جاتے ہیں، باطنی تزکیہ وطہارت تو دور کی بات ہے، ظاہرِ شریعت کا معیار بھی باقی نہیں رہا۔ مرید، اِرادت سے بنا ہے اور ’’بیعت ِ ارادت‘‘ کے معنی ہیں: ’’کسی شخص کا دینی، دنیاوی اور اخروی امور میں شریعت کے خلاف اپنی خواہشاتِ نفس کو ترک کرکے اپنے آپ کو شیخِ کامل، ہادیِ برحق اور واصل بالحق کے سپرد کردینا، یعنی اپنے آپ کو اپنے شیخ کے توسط سے رضائے الٰہی اور رضائے نبوی کے تابع کردینا‘‘۔
(جاری ہے)