اسلامی معیشت کا آغاز کیسے؟

582

بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے 1948ء میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو سودی نظام کا متبادل نظام تیار کرنے کا حکم دیا لیکن حکمرانوں نے اس جانب عملی قدم نہ اٹھایا۔
اسلامی نظام معیشت کے اجراء کے لیے نامور شخصیات سید ابولاعلیٰ مودودی، پروفیسر خورشید احمد، مولانا تقی عثمانی، ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی اور ڈاکٹر اسرار احمد سمیت ملک کے جید علمائے کرام اور ماہرین معاشیات وقانون نے تاریخی جدوجہد کی۔ اگرچہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے متفقہ آئین مجریہ 1973 نے اس کی راہ بھی ہموار کردی لیکن حکومتی سرد مہری کی وجہ سے جماعت اسلامی اور کئی تنظیموں نے ایک طویل علمی، سیاسی اور عدالتی جدوجہد کی چنانچہ14 نومبر 1991ء کو چیف جسٹس ڈاکٹر تنزیل الرحمن (مرحوم) کی سربراہی میں وفاقی شریعت عدالت کے تین رکنی بینچ نے ملک سے سْودی نظام کے خاتمے کا فیصلہ سْناتے ہوئے وفاقی حکومت کو 6 ماہ میں سْودی قوانین کی متبادل قانون سازی کا حکم دیا لیکن وفاقی حکومت کے ایماء پر ایک نجی بینک نے سْودی نظام بحال رکھنے کے لیے عدالت عظمیٰ میں اپیل دائر کردی جس نے وفاقی شریعت عدالت کے فیصلے کے خلاف حکم ِ امتناع (Stay Order) جاری کردیا تاہم 23دسمبر 1999ء کو عدالت عظمیٰ کے شریعت اپیلٹ بنچ نے وفاقی شریعت عدالت کے 1992ء کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے اپنے فیصلے میں سْود/ ربا کی تمام صورتوں کو غیرآئینی، غیر قانونی اور غیر اسلامی قرار دے دیا جس کے بعد جنرل (ر)پرویز مشرف کے ایماء پر ایک نجی بینک کی 2000ء کی ایک درخواست پر عدالت عظمیٰ کی پی سی او عدالت نے 24 جون 2002ء کو سْود کے خلاف وفاقی شریعت عدالت کا فیصلہ معطل کرکے ربا (سْود) کی تشریح کے لیے مقدمہ واپس وفاقی شریعت عدالت کو بجھوا دیا۔
2002ء سے 2013ء تک جماعت اسلامی سمیت 70 سے زائد درخواستوں پر عدالتی کارروائی زیر التوا رکھی گئی۔ بالآخر مقدمے کی سماعت 3 جون 2013ء کو شروع ہوئی اور 58 سماعتوں کے بعد 28 اپریل 2022ء کو (19سال بعد) وفاقی شریعت عدالت کے چیف جسٹس نور محمد مسکانزئی شہید، جسٹس محمد انور اور جسٹس خادم حسین پر مشتمل تین رکنی بینچ نے سْود کو ایک مرتبہ پھر غیرآئینی، غیر قانونی اور غیر شرعی قرار دیدیا۔ عدالتی فیصلے میں قرار دیا ہے کہ ربا (Riba) / سْود (Interest) ایکٹ 1839ء سمیت سْود کی سہولت کاری کرنے والے تمام قوانین اور شقیں غیرشرعی ہیں۔ قرض ادائیگی میں تاخیر پر سْود لینا غیرشرعی ہے۔ حکومت کا اندرونی یا بیرونی قرضوں پر سْود دینا ’’ربا‘‘ میں آتا ہے۔ کمرشل بینکوں کے قرض کی رقم سے زیادہ وصولی بھی سْود کے زمرے میں آتی ہے اس لیے یکم جون 2022ء تک وفاقی حکومت تمام قوانین میں سے سْود ’’انٹرسٹ‘‘ کا لفظ فوری طور پر حذف کرے۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف)، عالمی بینک، اور دوسرے بین الاقوامی معاشی اداروں اور بینکوں کے ساتھ لین دین کو بھی سْود سے پاک کیا جائے۔ وفاقی حکومت اندرونی اور بیرونی قرضوں اور لین دین کو سْود سے پاک بنانے کی لیے اقدامات کرے۔ (مغربی) پاکستان منی لانڈرنگ ایکٹ خلافِ شریعت ہے۔ معاشی نظام سے سْود کا خاتمہ آئینی، شرعی اور قانونی ذمے داری ہے لہٰذا ملک سے سْود کا خاتمہ ہر صورت کرنا ہوگا۔ وفاقی شریعت عدالت نے وفاقی حکومت کو حْکم دیا کہ31 دسمبر 2027ء تک پاکستان میں مکمل طور پر سْود سے پاک بینکاری کا اجراء کرے۔ نیز وفاقی حکومت کی شرعی اور قانونی ذمے داری ہے کہ وہ ہر ممکن طریقے سے بینکاری اور معاشی نظام سے سْود کا خاتمہ کرے۔
وفاقی شریعت عدالت کے دوٹوک فیصلے کے خلاف 26 جون 2022ء کو وفاقی حکومت کے ایماء پر اسٹیٹ بینک آف پاکستان، نیشنل بینک آف پاکستان اور نجی بینکوں یونائٹڈ بینک، مسلم کمرشل بینک اور حبیب بینک نے عدالت عظمیٰ میں اپیلیں دائر کر دیں جن میں دعویٰ کیا گیاکہ وفاقی شریعت عدالت نے عدالت عظمیٰ ریمانڈ آرڈر کے احکامات کو مدنظر نہیں رکھا لہٰذا سْودی بینکاری کو مزید 20 سال کام کرنے کا موقع دیا جائے۔
وفاقی شریعت عدالت کے فیصلے پر اپیلوں کے خلاف جماعت اسلامی سمیت مذہبی و سیاسی جماعتوں نے ملک بھر میں شدید احتجاج کیا اور ایک زبردست تحریک چلائی۔ رائے عامہ نے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا کہ اسلام اور آئین سے متصادم اپیلوں کو واپس لیاجائے چناچہ زبردست عوامی دباؤ پر 9 نومبر 2022ء کو وفاقی وزیر خزانہ محمد اسحاق ڈار نے وفاقی شریعت عدالت کے فیصلے کے خلاف عدالت عظمیٰ میں دائر اپیلوں کو واپس لینے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ حکومت سمجھتی ہے کہ فیصلے کرنے کا بنیادی معیار قرآن و سنت ہے لہٰذا وزیر اعظم شہباز شریف کی اجازت اور گورنر اسٹیٹ بینک کی مشاورت سے، اسٹیٹ بینک اور نیشنل بینک کی درخواستیں عدالت عظمیٰ سے واپس لی جا رہی ہیں۔ اْنہوں نے کہا کہ حکومت اسلامی بینکاری کو ملک میں تیزی سے نافذ کرنے کی پوری کوشش کرے گی۔ 12 نومبر 2022ء کو اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور نیشنل بینک آف پاکستان نے وفاقی شریعت عدالت کے فیصلے کے خلاف عدالت عظمیٰ میں دائراپیلیں واپس لے لیں۔ وفاقی حکومت کے فیصلے سے پورے ملک میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور ہر مکتبہ فکر نے اس کو ملک کی خوشحالی کا آغاز قرار دیا۔
اسٹیٹ بینک اور اسلامی بینکنگ کے اعدادو شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ سْود سے پاک بینکاری نظام قابل ِ عمل اور عوام کے لیے قابل قبول ہے۔ پاکستان کے موجودہ بینکاری نظام میں اسلامی بینکاری کا حجم تقریباً20 فی صد ہے۔ اس وقت پاکستان میں 22 ادارے اسلامی بینکاری کر رہے ہیں جن میں سے 5 ادارے مکمل اسلامی بینک ہیں جبکہ روایتی بینکوں کی کئی شاخیں بھی اسلامی بینکاری کررہی ہیں۔ اس طرح ملک بھر میں مجموعی طور پر اسلامی بینکاری کی 3,983 برانچیں کام کر رہی ہیں۔

سْود سے پاک معیشت کی طرف سفر پر بعض حلقوں نے تحفظات اور خدشات کا اظہار کیا ہے لیکن سابق گورنر اسٹیٹ بینک آف پاکستان ڈاکٹر عشرت حسین نے کا کہنا ہے کہ ’’اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے2001ء میں اسلامی بینکاری کا پہلا لائسنس جاری کیا۔ 21 سال میں اسے ملک کے مجموعی بینکاری نظام کا 30 سے 40 فی صد ہوجانا چاہیے تھا تاہم حالیہ حکومتی فیصلے کے وجہ سے اسلامی بینکاری میں نمایاں اضافہ ہوگا۔ اْنہوں نے کہا ہے کہ 2022ء کے اختتام تک ملک میں اسلامی بینکاری کی بڑھوتری کے بعد نجی بینکوں پر دباؤ بڑھے گا کہ وہ بھی اسلامی بینکاری کی طرف مائل ہوں‘‘۔
ہم حکومت پاکستان کو تجویز کرتے ہیں کہ (1) وفاقی شریعت عدالت کے فیصلے کے مطابق روایتی سْودی معیشت کو اسلامی معیشت میں تبدیل کرنے کا نقشہ ٔ کار (Road Map) اور نظام الاوقات (Timeline) دے۔ (2) وفاقی شریعت عدالت کے فیصلے کے مطابق 31 دسمبر 2022ء تک پارلیمنٹ سے قانون سازی مکمل کرکے سنجیدہ کوششوں کا آغاز کرے۔ (3) وفاقی وزارتِ خزانہ میں تمام مکاتب ِ فکر کے جید علمائے کرام اور ماہرین ِ اسلامی معیشت پر مشتمل بااختیار شریعہ سپروائزری بورڈ تشکیل دے جو اسلامی بینکاری اور اسلامی نظام معیشت کے اجراء و استحکام کے لیے تمام مراحل کی نگرانی کرے۔ (4) اسٹیٹ بینک آف پاکستان، قومی اور نجی و کمرشل و انویسٹمنٹ بینکوں کی اسلامی بینکاری میں منتقلی (Conversion) کے لیے عملی اقدامات کرے۔ (5) حکومت وزارتوں اور سرکاری اداروں کے تمام بینک کھاتے (Bank Accounts) اسلامی بینکاری میں منتقل کرے۔ (6) حکومت ِ پاکستان، پاکستان اسٹیٹ آئل کمپنی لمیٹڈ اور آئل اینڈ گیس ڈویلپمنٹ کمپنی لمیٹڈ سمیت بڑے قومی اداروں اور وزارتِ خزانہ کو بڑی اور اضافی رقوم اسلامی بینکوں میں رکھنے کا پابند بنائے۔ (7) حکومت ِ پاکستان سکوک یا اسلامی بانڈز کے علاوہ تمام سْودی بانڈز پر پابندی عائد کرے۔ (8) حکومت پاکستان تمام انفرادی قرضوں پر سْود کے بقایاجات ساقط کرے۔ (9) تمام زرعی قرضوں پر سْود ساقط کرے کیونکہ پاکستان کی بڑی آبادی کا انحصار زرعت پر ہے۔ (10) حکومت کارپوریٹ قرضوں پر سْود ساقط کرنے کے لیے ’’ربا ایمنسٹی اسکیم‘‘(Riba Amnesty Scheme) کا اجراء کرے۔ وفاقی حکومت نے اگر سْودی نظام کے خاتمہ کے لیے نیک نیتی سے اقدامات کیے تو ملک کے اندر زبردست سماجی و اقتصادی انقلاب اور خوشحالی آئے گا اور قائداعظم کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوگا۔