چوری اور سینہ زوری

702

شوگر کا مریض اپنے سامنے مٹھائی دیکھ کر بے قابو ہو جاتا ہے اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ اسے اس کے کھانے سے نقصان ہوسکتا ہے۔ بے اختیار اس کی جانب ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہتا ہے ’’بس یار کنٹرول نہیں ہوتا‘‘ یہی حال ہمارے عوام کا بھی ہے جن کے پاس پیسہ تو ہے مگر اختیار (کنٹرول) نہیں اور جن کے پاس اختیار ہے (حکام بالا) وہ بھی دولت کو اپنی جانب آتا دیکھ کر کہتے ہیں، بس یار کنٹرول نہیں ہوتا۔ مگر… عوام کیوں بے بس ہیں؟ ان سے جس چیز کے بائیکاٹ کا کہا جاتا ہے وہ اُسی پر ٹوٹ پڑتے ہیں، پوچھو تو کہتے ہیں ضرورت کی چیز لینی تو پڑے گی، مگر کیا اس چیز کا متبادل نہیں یا پھر مقدار کم کرلیں مگر حرام ہے جو اس پر کان دھرا ہو۔ اب دودھ ہی کو لے لیں 200 روپے میں لیں گے چاہے قطار بنا کر لینا پڑے، جب اخبارات اور میڈیا نے واویلا مچایا تو کمشنر کراچی نے روایتی چھاپے اور گرفتاریوں کے بعد خود ہی یکدم 50 روپے کا اضافہ کرکے دودھ کے سرکاری نرخ 170 روپے مقرر کردیے پھر بھی دودھ فروشوں نے اپنی رٹ برقرار رکھی اور دودھ 180 روپے لیٹر فروخت ہونے لگا۔ اور بقیہ 20 روپے کا پانی ڈالا جارہا ہے۔ سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی جہاں ایک باڑے میں ایک شخص بھرے ہوئے ڈرم سے چار لیٹر دودھ نکال کر علٰیحدہ ڈرم میں رکھ رہا ہے دوسرا آدمی بالٹی میں پانی بھر بھر کر لارہا ہے اور تیسرے صاحب ڈرم میں پانی ڈال کر اس کا لیول پورا کررہے ہیں۔ ہمیں دودھ میں پانی ملانے پر کوئی اعتراض نہیں کہ دودھ اور پانی کا برسوں پرانا ساتھ ہے، فکر ہے تو اس بات کی دودھ میں جو پانی ملایا جارہا ہے وہ بھینسوں کے پینے والی جگہ سے بھرا جارہا ہے۔
اب ہم آتے ہیں اصل موضوع کی طرف یعنی چوری اور سینہ زوری کی طرف۔ ٹی وی کے لاتعداد چینلوں پر ایک اشتہار بڑے فخر سے چلوایا جارہا ہے اور گاتے بجاتے بنایا جارہا ہے ’’دانے دانے پہ لکھا ہے پینے والے کا نام‘‘ اور پینے والے کو یہ احساس بھی نہیں کہ اس کے ساتھ کیا دھوکا ہورہا ہے۔ ایک جانب قیمت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے تو دوسری طرف وزن کم ہوتا جارہا ہے ایک کلو کا پیک گھٹ کر 900 گرام رہ گیا ہے، اسے کہتے ہیں چوری اور سینہ زوری۔ ایک سر اور کاندھا شیمپو بنانے والی کمپنی کا بھی یہی حال ہے اس کی پروڈکٹ بھی روز بروز بڑھتی جارہی ہیں اور وزن میں کمی کا سلسلہ بھی جاری ہے، اس کا 400 ملی لیٹر کا پیک قیمت میں اضافے کے ساتھ 360 ملی لیٹر ہوگیا ہے۔ ایک کمپنی جو پہلے زخم صاف کرنے کا Liquid بناتی تھی اس نے اپنا
صابن متعارف کرایا تو اس کا وزن 125 گرام تھا جس کی قیمت اب ڈبل ہوچکی ہے اور وزن صرف 85 گرام رہ گیا ہے۔ اگرچہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو آنے والے وقتوں میں یہ سوپ 50 گرام کی ٹکیہ میں دستیاب ہوگا۔ ایک اور نیلے فیتے والی کمپنی نے مکھن میں نمک کی ملاوٹ کرکے اسے مارجرین کے نام سے پیش کیا۔ عوام کے لیے ذائقہ نیا تھا اسی لیے کمپنی نے روز بروز قیمت میں اضافے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے اور اب عوام کی کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وزن میں بھی ڈنڈی مارنی شروع کردی اور 280 گرام کا وہ پیک جو کبھی 250 روپے کا ہی آتا تھا اب کی قیمت بڑھ کر 400 روپے ہوگئی ہے اور وزن بھی 235 گرام ہے۔ ہے نہ چوری اور سینہ زوری۔
دو ملٹی نیشنل کمپنیاں دودھ کو ڈبو میں پیک (ٹیٹرا پیک) کرکے فروخت کررہی ہیں باقی تو سب ٹی وائٹنر (چائے سفید کرنا) بھی فروخت کررہی ہیں، ان کمپنیوں کا کہنا ہے کہ ان کے اپنے فارم میں جہاں سے دودھ حاصل کیا جاتا ہے جس کو ایک طریقہ کار سے گزار کر پیک کیا جاتا ہے اس لیے یہ بازاری دودھ سے کچھ مہنگا ہوتا ہے جب کہ ہمارا خیال ہے کہ دودھ کو گاڑھا کرنے کے لیے کچھ نہ کچھ ملاوٹ ہوتی ہوگی۔ جب بازاری دودھ 180 روپے لیٹر فروخت ہورہا تھا تب پیک ڈبہ 200 روپے لیٹر فروخت ہورہا تھا پھر بازاری دودھ 200 روپے ہوا تو ایک لیٹر کا پیک 220 روپے کا ہوگیا اور ڈیڑھ لیٹر والا پیک 330 روپے۔ اب جب کہ بازاری دودھ پھر سے 180 روپے لیٹر فروخت ہورہا ہے ڈبوں میں پیک دودھ 220 روپے ہی میں مل رہا ہے۔ ان ڈبوں پر تاریخ خراب تو درج ہوتی ہے قیمت نہیں۔ چناں چہ دکانداروں کو من مانی کرنے کی اجازت ہے، اب دکانداروں کی سینہ زوری کو کون روکے؟ چلو گوالے اپنی کرنے پر آئیں تو انہیں کون روکے گا مگر ان کمپنیوں کو کنٹرول کرکے عوام کو دودھ فروشوں کی ہٹ دھرمی سے بچایا جاسکتا ہے۔ ایک بات اور جو ہماری سمجھ سے باہر ہے کہ گڑ کو بنانے میں صرف اس نکالنے کے علاوہ کوئی خرچہ نہیں جب کہ چینی کی تیاری کے لیے شوگر ملز لگائی جاتی ہیں اور ایک لمبے عمل کے بعد چینی بازار میں آتی ہے۔ مگر اس وقت گڑ چینی سے ڈبل دام یعنی 180 روپے کلو فروخت ہورہا ہے۔ یہ بھی چوری اور سینہ زوری کے زمرے میں آتا ہے۔ آخر میں ہم پھر یہی بات دہرائیں گے کہ اشیا خور ونوش کی قیمتوں کو خود عوام ہی کنٹرول کرسکتے ہیں۔ اگر سوشل میڈیا پر یا کسی اور ذرائع سے کسی شے کے بائیکاٹ کی اپیل کی جائے تو اس پر توجہ دیں اگر متبادل نہ ہوں تو مقدار ہی کو نصف کرلیں مگر کیا کریں عوام سے کنٹرول ہی نہیں ہوتا تو پھر سرمایہ دار، کارخانے دار اور دکاندار تو چوری اور سینہ زوری کرے گا۔