ـ60 سال پہلے کا لاہور، اب لاہور وہ نہیں رہا (پانچواں حصہ)

683

کُل پاکستان اجتماع (1963ء) کے سارے پروگرام لائوڈ اسپیکر کے بغیر ہوئے۔ ان میں سے ایک مختصر مشاعرہ بھی تھا جو دراصل مولانا ماہر القادری کے ساتھ ایک شعری نشست تھی۔ ماہر صاحب بڑے باکمال اور خوش گلو شاعر تھے، لوگوں نے اصرار کرکے ان سے بہت سا کلام سنا ان کا ماہنامہ ’’فاران‘‘ ایشیا کے تبادلے میں آتا تھا اس لیے ان سے غائبانہ تعارف تو تھا یہاں ان سے المشافہ ملاقات کا موقع ملا۔ وہ شاعر کے علاوہ بہت دلچسپ انسان تھے اور بڑے مزے کی باتیں کرتے تھے۔ حجاز مقدس مشاعرے میں شرکت کے لیے گئے اور وہیں دل کا دورہ پڑنے سے انتقال فرما گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ہاں تو ہم اجتماع کے پروگراموں کا ذکر کررہے تھے۔ سب سے اہم پروگرام امیر جماعت اسلامی سید ابوالاعلیٰ مودودی کا مرکزی خطاب تھا جو اجتماع کے دوسرے دن رکھا گیا تھا اور اس کے لیے ایک بڑے جلسہ عام کا بندوبست کیا گیا تھا جس میں شرکائے اجتماع کے علاوہ لاہور کے شہری بھی شریک ہوئے تھے۔ لائوڈ اسپیکر کے بغیر امیر جماعت کے خطاب کو تمام سامعین تک پہنچانے کے لیے جلسہ گاہ میں تھوڑے تھوڑے فاصلے پر مکبر کھڑے کردیے گئے تھے اور ان کے ہاتھ میں خطاب کا چھپا ہوا مسودہ پکڑا دیا گیا تھا۔ امیر جماعت اسٹیج سے جو کچھ فرماتے، مکبر حضرات جلسہ گاہ میں اسے دہرا دیتے اس طرح امیر جماعت کی آواز تو سب تک نہیں پہنچتی تھی البتہ ان کی بات سب تک پہنچ جاتی تھی۔ امیر جماعت نے ابھی اپنے خطاب کا آغاز ہی کیا تھا اور چند جملے ہی ادا فرمائے تھے کہ جلسہ گاہ کے آخری سرے سے فائرنگ شروع ہوگئی۔ گولیوں کا رُخ براہِ راست اسٹیج کی جانب تھا۔ اسٹیج پر میاں طفیل محمد، نعیم صدیقی اور اسد گیلانی بیٹھے ہوئے تھے جب کہ سید مودودی ڈائس پر ہاتھ ٹیکے تقریر فرما رہے تھے۔ فائرنگ کی آواز سنتے ہی رفقا نے سید صاحب کو مشورہ دیا کہ ’’مولانا آپ بیٹھ جائیں‘‘ سید مودودی نے یہ کہہ کر ان کا مشورہ ماننے سے انکار کردیا کہ ’’اگر میں بیٹھ گیا تو یہاں کھڑا کون رہے گا؟‘‘ فائرنگ سے جماعت کا ایک کارکن اللہ بخش شہید ہوگیا۔ سید صاحب نے فائرنگ کا اثر قبول کیے بغیر اپنا خطاب جاری رکھا، مکبر حضرات پُرسکون انداز میں سید مودودی کے ادا کیے ہوئے جملوں کو دُہراتے رہے اور جلسہ گام میں موجود لوگ خاموشی سے خطاب سنتے رہے۔ بہت سے لوگوں کو پتا ہی نہ چلا کہ کیا واقعہ رونما ہوا ہے لیکن فائرنگ کی خبر اجتماع سے نکل کر پورے شہر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ اجتماع میں اخباری نمائندے بھی موجود تھے۔ انہوں نے فوری طور پر اخبارات کو واقعہ کی رپورٹ ارسال کی۔ بعض اخبارات اس موقع پر ضمیمہ شائع کرنا چاہتے تھے لیکن سرکاری مشینری فوراً حرکت میں آگئی اور اس نے ضمیمے کی اشاعت رکوا دی لیکن افواہیں بھلا کسی کے روکے رُک سکتی ہیں اور اِس افواہ میں تو صداقت کا عنصر بھی شامل تھا کہ جماعت اسلامی کے اجتماع میں مولانا مودودی پر قاتلانہ حملہ ہوا ہے۔ چناں چہ زندہ دلان کی ایک بڑی تعداد نے افواہ کے زیر اثر مولانا مودودی خیریت دریافت کرنے کے لیے اجتماع گاہ کا رُخ کرلیا اور اجتماع میں رش لگ گیا۔
بہرکیف اس شر سے خیر یہ برآمد ہوا کہ پورے لاہور کی توجہ جماعت اسلامی پر مرکوز ہوگئی۔ عوام کی نفسیات یہ ہے کہ وہ کبھی حکومت وقت کے طرفدار نہیں رہے۔ یہاں تو حکومت کی سرپرستی میں جماعت اسلامی کے خلاف کھلی دہشت گردی کی گئی تھی اس لیے عوام کی ہمدردیاں جماعت اسلامی کے ساتھ تھیں۔ اس موقع پر امیر جماعت نے کارکنوں کو ہدایت جاری کی کہ وہ وفود کی شکل میں شہر میں پھیل جائیں اور لوگوں کو جماعت اسلامی کی دعوت اور ایوب آمریت کے خلاف اس کی جمہوری جدوجہد سے آگاہ کریں۔ اس طرح پورا لاہور جماعت اسلامی کے پیغام سے گونجنے لگا اور حکومت کو لینے کے دینے پڑ گئے۔ انٹیلی جنس ایجنسیوں نے حکومت کو رپورٹ دی کہ جماعت اسلامی کے اجتماع میں فائرنگ اور اس کے نتیجے میں ایک شخص کی ہلاکت کا بڑا منفی اثر ہوا ہے اور جماعت اسلامی کے ساتھ عوام کی ہمدردی بڑھ گئی ہے۔ جماعت نے بھی اپنی سرگرمیوں میں شدت پیدا کردی۔ لوہا گرم تھا وہ اس پر مسلسل ضرب لگانے لگی۔ جنرل ایوب خان اس صورت حال سے بوکھلا گئے اور انہوں نے اس بوکھلاہٹ میں جماعت اسلامی پر پابندی کا حکم جاری کردیا۔ جماعت پر ملک دشمن سرگرمیوںکا الزام لگا کر اسے خلافِ قانون قرار دے دیا گیا۔ اس کے رہنمائوں کو گرفتار کرلیا گیا اور اس کا ریکارڈ قبضے میں لے کر تمام دفاتر سربمہر کردیے گئے۔ جماعت اسلامی کہاں ہار ماننے والی تھی۔ اس نے حکومت کی اس بزدلانہ کارروائی کو عدالت میں چیلنج کردیا اور عدالت میں جماعت اسلامی پر پابندی کے خلاف مقدمے کی کارروائی شروع ہوگئی۔ ملک کے ممتاز اور نامور وکلا نے اپنی خدمات جماعت کو پیش کردیں۔
یہاں ایک بہت دلچسپ واقعہ یاد آرہا ہے جس کا ذکر شاید ہم پہلے بھی کہیں کرچکے ہیں۔ واقعہ یوں ہے کہ مقدمے کی سماعت لاہور ہائی کورٹ کی عمارت میں ہوا کرتی تھی جس روز سماعت ہوئی اسلامی جمعیت طلبہ کے لڑکے احاطہ عدالت میں آکر ایوب حکومت کے خلاف نعرے بازی شروع کردیتے۔ ایک روز ہم سید منور حسن اور دیگر احباب کے ہمراہ عمارت کے برآمدے میں کھڑے تھے ابھی مقدمے کی کارروائی شروع نہیں ہوئی تھی جمعیت کے لڑکے حسب معمول ہائی کورٹ کے احاطے میں نعرے لگا رہے تھے۔
’’لاٹھی گولی کی سرکار۔ نہیں چلے گی نہیں چلے گی۔ ایوب آمریت مردہ باد‘‘ ان نعروں میں ایک نعرہ جنرل ایوب خان کے خلاف بھی تھا جو شاید پہلی مرتبہ لگایا جارہا تھا۔ چناں چہ ایک پولیس افسر تیزی سے منور صاحب کی طرف آیا اور انہیں مخاطب کرکے کہنے لگا ’’یہ لڑکے نام لے کر نعرے لگا رہے ہیں جو قانون کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ انہیں روکیے ورنہ ہم ان کے خلاف کارروائی پر مجبور ہوجائیں گے‘‘۔ منور صاحب نے لڑکوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ’’نام نہ لینا…‘‘ ابھی وہ کچھ اور کہنا چاہتے تھے کہ مجمع سے آواز آئی ’’مردہ باد‘‘ بس پھر کیا تھا ایک نیا نعرہ ایجاد ہوگیا۔ ’’نام نہ لینا۔ مردہ باد‘‘ اور سب نعرے چھوڑ کر لڑکے پہ نعرہ لگانے لگے۔ سید منور حسن نے مسکرا کر پولیس افسر کی طرف دیکھا ’’لیجیے آپ کے حکم کی تعمیل ہوگئی‘‘۔ وہ بے چارا سر کھجاتا ہوا واپس چلا گیا۔
قصہ مختصر عدالت میں بھی ایوب حکومت کو منہ کی کھانی پڑی۔ جماعت اسلامی پر پابندی کا حکم کالعدم قرار دے دیا گیا۔ جماعت کے رہنما رہا کردیے گئے، دفاتر کھل گئے اور جماعت اسلامی پھر حکومت کے سینے پر مونگ دینے لگی۔ (جاری ہے)