اسلام آباد: چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ عمران خان سے کہیں قانون کی پاسداری کریں، جو کرنا ہے قانون کے مطابق کریں، عمران خان ، بابر اعوان ، فیصل چوہدری نے اپنے جواب داخل کردئے ہیں، وزارت داخلہ سمجھے تو فریقین کے جواب پر جواب الجواب جمع کرا سکتی ہے۔
سپریم کورٹ میں عمران خان کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی۔ وزارت داخلہ کے وکیل ایڈوکیٹ سلمان اسلم بٹ نے دلائل دیے کہ وزارت داخلہ نے جواب داخل کیا ہے، ساتھ یو ایس بی بھی جمع کروائی ہے۔
ثابت ہوتا ہے لانگ مارچ کا ہدف ڈی چوک جانا تھا، موبائل سروس بند نہیں تھی، لانگ مارچ کے کنٹینر سے تواتر سے سوشل میڈیا پر ٹوئٹس اور پوسٹس ہوتی رہیں، ان کے اپنے اکاونٹ سے ٹویٹس ہوتی رہی ہیں، عدالتی آرڈر کچھ دیر کے بعد سوشل میڈیا پر بھی وارل ہوگیا تھا۔
جسٹس مظاہر علی نقوی نے پوچھا کہ سی ڈی آر سے کیا ثابت ہوگا، موبال فون آفس میں ہوا تو؟۔ سلمان اسلم بٹ نے جواب دیا کہ سی ڈی آر سے پتہ چل جائے گا کہ موبائل کس جگہ سے آپریٹ ہوا ، عدالت مناسب سمجھے تو سی ڈی آر منگوا لے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ توہین عدالت کے اختیار کے استعمال میں محتاط ہیں، لیکن بالکل اسی طرح سپریم کورٹ اس بارے میں بھی محتاط ہے کہ ہمارے احکامات کی خلاف ورزی نہ ہو ، آپ کہہ رہے ہیں جیمرز نہیں تھے ، آپ کی دلیل ہے کہ عدالتی حکم نامہ میڈیا اور پھر سوشل میڈیا کے ذریعے پورے ملک تک پھیل چکا تھا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ توہین عدالت کیس میں ایسا آرڈر نہیں پاس کر سکتے، ایسا کرتے ہیں کہ سلمان اکرام راجہ سے کہہ دیتے ہیں ان کا موکل قانون کی پابندی کرے، سلمان اکرام راجہ اپنے موکل سے کہہ دیں جو کرنا ہے قانون کے مطابق کریں۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی کردی۔