معیشت میں بہتری لیکن عوام کی حالت؟

650

بغیر کسی لگی لپٹی کے کہنا یہ مقصو ہے کہ پاکستان کی معیشت میں بہتری کے آ ثار پیدا ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ وہ یوں کہ وفاقی وزیر خزانہ کے ڈالر کی اسمگلنگ کیخلاف کریک ڈاؤن، سعودی ولی عہد کے دورہ پاکستان میں اعلان کردہ دس ارب ڈالر کے علاوہ 7.5ارب ڈالر کے متوقع پیکیج جیسے عوامل نے ڈالرکی پرواز روک دی جو انٹر بینک مارکیٹ میں اتار چڑھاؤ کے باوجود مزید تنزلی سے دوچار ہوئی۔ مثبت معاشی اشاریوں، چین اور سعودی عرب کی جانب سے بارہ ارب ڈالر کا انتظام ہونے سے زرمبادلہ کے ذخائر ممکنہ طور پر بڑھنے اور ریکوڈک منصوبے میں دوبارہ سرگرمیوں کے آغاز کی خبروں سے پاکستان اسٹاک ایکس چینج میں تیزی کی بڑی لہر رونما ہوئی۔ عالمی معاشی ادارے بہتری کے اشارے دے رہے ہیں۔ حکومت پاکستان نے بین الاقوامی ادائیگیوں کی صورتحال بہتر کی ہے۔ مثبت اقدامات کی بدولت معاشی صورتحال میں بہتری کے آثار نمایاں ہیں۔ تاہم آئی ایم ایف نے افراط زر میں مزید اضافے کا اشارہ بھی دیا ہے لیکن اس کے ساتھ یہ بھی کہہ دیا ہے کہ اگر حکومت مناسب اقدامات کرے تو اس پر قابو بھی پایا جاسکتا ہے۔ اب یہ حکومت پر منحصر ہے کہ بہتر اقدامات کرنے میں کس حد تک کامیاب ہوسکتی ہے۔ پاکستان ایک بڑی معیشت ہے، زرمبادلہ کے ذخائر میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔ حکومتی پالیسیوں سے محسوس ہو رہا ہے کہ پاکستان کی ادائیگیوں کی صورتحال میں مزید بہتری آئے گی۔ حکومت کے اقدامات کی وجہ سے بیرونی اقتصادی خطرات میں کمی آئے گی۔ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں کمی، پالیسی فریم ورک اور دیگر اقدامات کی وجہ سے پاکستان میں معاشی صورتحال کے لیے بیرونی خطرات میں کمی رہے گی تاہم غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کو بڑھنے میں کچھ وقت لگے گا۔ پاکستان کے دوست ممالک چین، سعودی عرب، یو اے ای اور قطر ہمارے ساتھ وسیع پیمانے پر تعاون کررہے ہیں ۔ یہ ساری صورتحال یقینا مثبت اور خوش آئند سہی، لیکن عام آدمی کی مشکلات میں تاحال کمی نہیں آئی ہے کیونکہ ملک میں مہنگائی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ، بجلی اور گیس کے ناقابل برداشت بل، اشیائے خورو نوش کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے عام آدمی کو اپنے کچن کا خرچہ پورا کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ دراصل جب تک ناجائز منافع خوروں کے خلاف کریک ڈاؤن نہیں ہوگا، تب تک عوام کی زندگی اجیرن رہے گی اور نہ اشیائے خورو نوش کی قیمتیں ہی نیچے آئیں گی، لہٰذا ملکی معیشت کے لیے اٹھائے گئے اقدامات اس وقت مطلوبہ نتائج نہیں دے سکتے جب تک مہنگائی پر قابو نہیں پایا جائے گا۔
دوسری جانب عالمی ادارہ صحت نے خبردار کیا ہے کہ حالیہ تباہ کن سیلابوں کے بعد پاکستان اب صحت عامہ کے شعبے میں تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے۔ آلودہ پانی کی وجہ سے پھیلنے والی بیماریوں کے باعث اب لاکھوں شہری بیمار پڑتے جا رہے ہیں۔ یونیسف کے مطابق پاکستان میں تاریخ کے بدترین سیلاب کی وجہ سے تیس لاکھ سے زائد بچے پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں، ڈوبنے اور غذائی قلت کے بڑھتے ہوئے خطرات سے دوچار ہیں اور انہیں فوری انسانی امداد کی ضرورت ہے۔ ملک میں اس وقت ہیضے، ملیریا اور ڈینگی کے بخار جیسی کئی بیماریاں پھیل رہی ہیں، جس کی وجہ سے اموات کی شرح خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان میں صحت کا شعبہ پہلے ہی زبوں حالی کا شکار ہے کیا وہ سیلاب کے بعد پیدا شدہ صورتحال سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتا ہے تو اس کا جواب نفی میں ہے۔ وفاق تو اپنی حد تک اقدامات اٹھا رہا ہے، لیکن اٹھارہویں ترمیم کے بعد شعبہ صحت صوبوں کی ذمے داری بن گیا ہے، لیکن مقام افسوس ہے کہ صوبائی حکومتیں صحت کے شعبے میں ناقص کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہیں، اکثر سرکاری اسپتالوں میں مشینری ناکارہ پڑی ہے، ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف کی کمی ہے، بستروں کی کمی کا سامنا ہے، ادویات سرکاری اسپتالوں میں دستیاب نہیں ہیں، مریض تو رل جاتے ہیں، صحت کی بنیادی سہولتیں فراہم کرنا وفاق اور صوبوں کی بنیادی ذمے داری ہے لیکن وہ اپنے فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ حکومت پاکستان نے72اضلاع کوآفت زدہ قراردے دیا ہے، جن میں سے بیش تر شدید ترین متاثرہ صوبوں، بلوچستان اورسندھ میں ہیں جب کہ خیبر پختون خوا اور پنجاب بھی متاثر ہوئے ہیں۔
سیلاب سے تعلیم کے بنیادی ڈھانچے کو کافی نقصان پہنچا ہے، 19,566 اسکولوں کی عمارتیں جزوی یا مکمل طور پر تباہ ہوچکی ہیں، جس سے بچوں کی تعلیم کو مزید خطرہ لاحق ہوا ہے۔ پنجاب میں1180 اسکول، سندھ میں 16ہزار 419 اسکول، بلوچستان میں 2ہزار 859 اسکول جب کہ خیبر پختون خوا میں 1024 اسکول سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں۔ جب کہ ساڑھے پانچ ہزار اسکولوں کی عمارتوں کو سیلاب متاثرین کی عارضی قیام گاہوں کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ سیلاب سے متاثرہ تعلیمی اداروں کی یہ تعداد صرف سرکاری اسکولوں کی ہے جب کہ پرائیویٹ اسکول، کمیونٹی اور مدارس کی بڑی تعداد بھی متاثر ہوئی ہے اور تخمینہ ہے کہ ملک بھر میں مجموعی طور پر 50 ہزار اسکول متاثر ہوئے ہیں۔ گزشتہ برسوں میں کورونا وائرس کی وجہ سے دو برس تک اسکولوں کی بندش کے بعد ایک بار پھر ان متاثرہ بچوں کی پڑھائی میں 1-2 سال خلل پڑنے کا خطرہ ہے اور وہ بھی ان علاقوں میں جہاں ایک تہائی لڑکیاں اور لڑکے موجودہ بحران سے پہلے ہی اسکول سے باہر تھے۔ تاحال سیلاب سے متاثرہ کئی علاقے ناقابل رسائی ہیں اور کچھ حصوں سے زمینی اور مواصلاتی رابطہ منقطع ہے۔ بلوچستان اور سندھ میں پانی مکمل طور پر کم نہیں ہوا۔ پہلے ہی تعلیم کا نظام خلل کا شکار ہے اور بارہا امتحانات ملتوی کرنے پڑے ہیں لیکن اِس مرتبہ چونکہ تعلیمی اداروں کی عمارتیں ہی قابل استعمال نہیں رہیں تو اندیشہ ہے کہ کئی تعلیمی سال بحالی کے عمل کی نذر ہو جائیں۔ سیلاب سے شعبہ تعلیم کو پہنچنے والے نقصانات کا ابتدائی تخمینہ 37ملین ڈالر لگایا گیا ہے۔ ان متاثرہ علاقوں میں سیلاب سے پہلے ہی 40فی صد بچے غذائی قلت کا شکار تھے، یہ خطرناک انسانی بحران آئندہ دنوں میں مزید خراب ہونے کی خدشہ ہے کیونکہ پہلے ہی زیرآب علاقوں میں مزید تیز بارشوں کا سلسلہ جاری اور شدید موسم سرما متوقع ہے۔ چھوٹے بچوں کو خوراک، دودھ کے ڈبوں اور کمبلوں کی ضرورت ہے۔ یونیسف نے 3کروڑ 70لاکھ امریکی ڈالر کی امداد کی اپیل کی ہے تاکہ آنے والے مہینوں میں بچوں اور ان کے خاندانوں تک فوری امداد پہنچائی جاسکے۔ یونیسف کے چلڈرن کلائمیٹ رسک انڈیکس کے مطابق پاکستان ایک ماحولیاتی ہاٹ اسپاٹ اور ایسا ملک ہے۔ جہاں بچوں کو موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کے شدید خطرات سے دوچار اور 163 ممالک میں سے 14ویں نمبر پر ہونے کی وجہ سے درجہ بندی انتہائی خطرے سے دوچار ہے۔ جہاں بچوں کو ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق مہلک خطرات کے ساتھ پینے کے صاف پانی، صفائی ستھرائی، صحت کی دیکھ بھال اور تعلیم کی کمیابی جیسے شدید مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔