کرکٹ کا بھوت

587

پاکستانی کرکٹ ٹیم ٹی ٹوئنٹی عالمی کپ کے ابتدائی میچوں میں پاکستانیوں کو مایوس کرنے کے بعد اچانک اُبھر کر آئی اور دوسرے ملکوں کے میچوں کے نتائج کی بنیاد پر سیمی فائنل میں پہنچی۔ سیمی فائنل میں پاکستان نے کامیابی حاصل کی اور ایک مرتبہ پھر قومی ٹیم عالمی کپ جیتنے کی اُمیدیں لیے میدان میں اُتری، یہ کرکٹ ایک کھیل ہے اور اس میں ہار جیت ہوتی ہے لیکن پاکستانی میڈیا کے ذریعے اس کھیل کو ایک بھوت کے طور پر قوم کے اعصاب پر سوار کیا جاتا ہے اور جب تک ہار یا جیت کا فیصلہ نہیں ہوجاتا یہ بھوت نہیں اُترتا۔ یہ سارا کھیل کسی کھیل کے فروغ یا اس کی دلچسپی کی وجہ سے یا اس کو ترقی دینے کی وجہ سے نہیں ہوتا بلکہ سارا کھیل سٹے بازی، اشتہارات اور دیگر تجارتی مقاصد کے لیے ہوتا ہے۔ قوم سارا سارا دن ٹی وی کے سامنے بیٹھی تماشا دیکھتی ہے اور ملک کے معاملات کو بھی کھیل بنا کر قوم پر مزید ٹیکس لاد دیے جاتے ہیں۔ اس کھیل کے نتیجے میں اگر پاکستان جیت جائے تو سب ٹھیک اور اگر ہار جائے تو کھلاڑی سے لے کر کپتان اور بورڈ کے سربراہ تک کو لتاڑ دیا جاتا ہے۔ یہ رویہ ایک کھیل کے معاملے میں ٹھیک نہیں۔ کھیل کو ہر اعتبار سے کھیل ہی رہنے دیا جانا چاہیے۔ کھیل سے دیگر مقاصد کا حصول بھی غلط ہے اور کھیل کو بھوت بنانا بھی غلط ہے۔ یہ درست ہے کہ کھیل نوجوانوں کی جسمانی اور ذہنی صلاحیت کو اُبھارتا ہے لیکن ہمارے حکمران عالمی کپ جیسے مقابلوں پر تو اربوں روپے خرچ کرتے ہیں اور پی ایس ایل پر بھی لیکن کھیل کے میدان اور ان میں سہولتیں دینے میں کنجوسی اور نااہلی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ میدانوں کو تعمیراتی اداروں یا رینجرز کے حوالے کردیا گیا ہے یا وہاں کچرا کنڈی بنی ہوئی ہے اس جانب بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔