غریب اور محکوم عوام

492

میرے ایک دوست ظفر نے مجھے اقوام متحدہ کے پروگرام برائے ترقی UNDP کی گزشتہ سال شائع ہونے والی رپورٹ ارسال کی جس میں طاقتور اشرافیہ اور مجبور و محکوم عوام کے بارے میں درج تھا۔ رپورٹ میں لکھا تھا کہ یہ ظالم جن کا تعلق Elite Class سے ہے ہر سال 17.4 ارب ڈالر ہضم کرجاتے ہیں۔ 20 فی صد امیر لوگ 49.6 فی صد آمدنی کے حصے دار ہیں جبکہ غربا کے حصے میں صرف 7 فی صد آمدن آتی ہے۔ رپورٹ نے اس المیہ کا مزید غور سے مطالعہ کرکے بتایا کہ پاکستان کی کُل آمدن جو 314.4 ارب ڈالر ہے اس کا 9 فی صد حصہ پاکستان کی ایک فی صد اشرافیہ کی جیب میں جاتا ہے جبکہ غریب پاکستانیوں کو صرف 0.15 فی صد حصہ ملتا ہے۔ اس ملک میں سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والے وہ سرمایہ دار ہیں جو اس ملک کو ہڑپ کررہے ہیں۔ چند برسوں میں ابھرنے والے کارپوریٹ سیکٹر کا یہ سرمایہ دار حصہ ہیں یہ کاروباری طبقہ گزشتہ 40 سال کی حکومتوں کی غلط پالیسیوں کی پیداوار ہے۔ پاکستان کو ان 40 برسوں میں ایک ایسے کاروباری طبقے کے لیے جنت بنادیا گیا ہے جو نہ تو کوئی فیکٹری لگاتا ہے اور نہ ہی کسی قسم کی زرعی پیداوار میں اس کا حصہ ہے بلکہ یہ کاروباری لٹیرے دنیا بھر سے سستے داموں مال خرید کر یہاں مہنگے داموں میں فروخت کرکے اپنی جیبیں منافع سے بھرتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق دکاندار طبقہ سب سے زیادہ ٹیکس چوری کرتا ہے اور ان میں ٹیکس چوری کی شرح ملک بھر میں بہت زیادہ ہے۔ سستی اشیا خرید کے مہنگے داموں بیچتا ہے کیونکہ منافع کی شرح پر پاکستان میں کوئی کنٹرول نہیں۔ اس طبقے کو پاکستان کے بہترین ذرائع پیداوار پر اجارہ داری حاصل ہے اور یہ اپنے سیاسی اور انتظامی اثر رسوخ سے ملک کے ہر کاروبار پر قابض ہوچکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس طبقے کی جیب میں سالانہ 4.7 ارب ڈالر چلے جاتے ہیں۔ دوسرا اہم طبقہ وہ بڑے زمیندار ہیں جو صرف 1.1 فی صد ہیں مگر ان کے پاس ملک کی کُل قابل کاشت رقبے کا 22 فی صد ہے۔ رپورٹ کے مطابق یہ دونوں طبقات پاکستان کی پارلیمنٹ میں اکثریت رکھتے ہیں۔ رپورٹ میں یہ مثال دی گئی ہیں کہ پاکستان کی معیشت بالکل ایسے ہے جیسے حکمران طبقہ اپنے ایک ہاتھ سے دولت تقسیم کرے اور پھر دوسرے ہاتھ سے اسے خود وصول کرلے۔ رپورٹ کے مطابق ان دونوں طبقات کے شانہ بشانہ پاکستان کے کچھ ادارے اور اُن کے وابستہ افراد بھی شامل ہیں جو زمین، انفرا اسٹرکچر اور سرمائے میں ترجیحاتی حصے داری کی بنیاد پر پاکستان کی آمدن سے سالانہ 1.7 ارب ڈالر وصول کرتے ہیں۔ رپورٹ نے ان کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ان کا ملک میں سب سے بڑا صنعتی کاروباری گروپ ہے۔ رپورٹ کے مطابق ان تینوں طبقات کے مفادات ہمیشہ مشترکہ ہی رہتے ہیں بلکہ کئی مقامات پر تو ان کے خاندان اور ذاتی کاروبار بھی انہیں تینوں کو ایک لڑی میں پروئے ہوتے ہیں۔ یہ رپورٹ جب شائع ہوئی تو دنیا بھر کے میڈیا پر چلی مگر ہمارے ہاں صرف انگریزی میڈیا میں اسے چند کالمی خبر کے طور پر چھاپ کر فرض ادا کردیا۔
یوں لگتا ہے پاکستان کے غریب عوام ایک بند گلی میں آچکے ہیں جن کے سامنے مقتدر اور طاقتور طبقے نے اپنی دانست میں مضبوط دیوار کھڑی کررکھی ہے۔ غریب غصے سے اس دیوار کو روز گھورتا ہے مگر بے بس ہے کر کچھ نہیں سکتا۔ آج حقیقی طور پر ہم محکوم ہوچکے ہیں، غریب کی کوئی بات سننے کو تیار نہیں۔ UNDP کی رپورٹ سچ پر مبنی ہے جس معاشرے میں دولت کی مساویانہ تقسیم نہیں ہوتی اس معاشرے کا حال یہی ہوتا ہے۔ اخبار کی خبر نظر سے گزری کے نیویارک کے بعد سب سے زیادہ نشہ کراچی میں کیا جاتا ہے وہ بھی نوجوانوں میں زیادہ پایا جاتا ہے۔ میرا دل ہل گیا میں نے سوچا اس پر اپنے کالم میں روشنی ڈالتا ہوں جب نوجوان کی تربیت غلط ہوگئی تو یہ تو ہوگا نوجوانوں کو جب ریاست تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود روزگار فراہم نہیں کرے گی تو وہ اپنا غبار نشہ کرکے پورا کرتا ہے۔ آئس کا نشہ بھی پوش اور تعلیمی اداروں تک پہنچ چکا ہے۔ بڑے بڑے حرام خور افسران، سیاست دانوں کی اولادیں اس نشے کی لت میں پڑ چکی ہیں۔ میرے ایک دوست جس کی نائی کی دکان تھی ان کے بیٹے کے تعلقات ڈیفنس کے بگڑے ہوئے نوجوانوں کے ساتھ تھے ان بگڑے ہوئے نوجوانوں کے دولت کی کمی نہیں ہے۔ باپ حرام کھا رہا ہے وہ باپ کی دولت کو حرام کاموں میں لگا رہے ہیں اس نائی کے بیٹے کو آئس کے نشے میں ان لوگوں نے لگادیا اس کے 2 بچے بھی تھے اس نشے کی وجہ سے اس کا کاروبار تباہ ہونے لگا سارا سارا دن وہ سوتا باپ کو فکر ہوئی کے اس کا نوجوان بیٹا روز بروز گرتا جارہا ہے وزن آدھا رہ گیا ایک وقت ایسا آیا کہ وہ چلنے کے قابل نہیں رہا اس کے باپ نے اسے اسپتال میں داخل کردیا جہاں ایک ہفتہ کے بعد اس کا انتقال ہوگیا۔ یہ آئس کا نشہ کتنا خطرناک ہے اس نشے کا انجام صرف موت ہے میں اس نوجوان کے جنارے میں شریک تھا اس کا باپ رو رو کر ان لوگوں کو بددعا دے رہا تھا جن بگڑے ہوئے حرام کی دولت پر پلنے والے نوجوانوں نے اس کے جوان بیٹے کو نشے کی لت لگائی تھی آج وہ بڑھاپے کی حالت میں محنت مزدوری کرکے اپنے پوتوں کو پال رہا ہے۔
میری اپنے نوجوانوں سے اپیل ہے کہ خدا کا واسطہ نشے کی لعنت سے بچو، اپنے والدین کو زندہ درگور نہ کرو نوکری نہیں ملتی مزدوری کرو، ٹھیلہ لگائو، برگر فروخت کرلو، مگر نشے سے باز آجائو کیوں کہ تمہارے لیے سندھ حکومت کے پاس کوئی نوکری نہیں ہے تمہارا قصور یہ ہے کہ تم اردو بولتے ہو اور بانیان پاکستان کی اولاد ہو آج سندھ کے تمام اداروں میں تم کو ہر بڑی پوسٹ پر مراعات یافتہ طبقے سے تعلق رکھنے والا سندھی نظر آئے گا اور غیر مراعات یافتہ سندھی کا حال بھی اردو بولنے والوں کی طرح ہے۔ سیاسی اثر رسوخ پر یا رشوت پر اگر تم کو ان ظالموں نے نوکری دے بھی دی تو وہ گریڈ ایک سے گریڈ 5 تک کی ہوگی اور رشوت کم از کم 5 لاکھ دینی ہوگی اس سے بہتر ہے کہ ایک لاکھ سے کوئی چھوٹا کاروبار شروع کرلو، اس میں منافع بھی ہے اور برکت ہے یاد رکھو جب تک پیپلز پارٹی کی سندھ پر حکومت ہے کراچی کبھی پروان نہیں چڑ سکتا جئے بھٹو سے نجات جس دن ملے گی تو کراچی روشنیوں کا شہر بنے گا اور آخری آپشن اگر تمہارے پاس ہے تو وہ جماعت اسلامی ہے اور کراچی کا حقیقی بیٹا، ایماندار بہادر محب الوطن حافظ نعیم الرحمن کراچی کو بچانے کے لیے میدان عمل میں اُتر چکا ہے۔ اگر میئر کا عہدہ اُن کے پاس آگیا اور پورے کراچی کی یوسز سے اگر آپ نے جماعت اسلامی کے عہدیداروں کو منتخب کرلیا تو میں یہ اپنے تجربے کی بنیاد پر بتا رہا ہوں کہ ایک سے 2 سال کے اندر کراچی کے عوام کے مسائل حل ہوجائیں گے، نہیں تو رونا مقدر بن جائے گا۔ فیصلہ کراچی کے عوام کو کرنا ہے، ذلت کی زندگی یا عزت کی زندگی۔